کتاب کلچر اور کتاب میلہ

وطن عزیز میں کتب بینی کے فروغ کے لیے حکومت اور پرائیویٹ سطح پر ہمیشہ سنجیدگی کے ساتھ کوششیں جاری رہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں کتب بینی کو عروج حاصل ہوا۔ اس زمانے میں چھوٹے چھوٹے پبلشر بڑے بڑے علاقوں میں پہنچ گئے۔ پاکستان میں آج کل انٹرنیٹ کی موجودگی میں کتب بینی کم ہو رہی ہے یا زیادہ ہو رہی ہے اس کا اندازہ آپ اس امر سے لگا سکتے ہیں کہ پاکستان میں ہر سال تقریباً 5000 نئی کتابیں شائع ہوتی ہیں۔ ان کتب میں سے صرف 1 فیصد کتابیں بکنے والی ہوتی ہیں اور باقی کتب شوق کے لیے تقسیم ہو جاتی ہیں یا لوگوں کے گھروں میں پڑی رہتی ہیں۔ پاکستان میں کئی اشاعتی ادارے جو سرکاری سطح پر کام کر رہے ہیں ان کا سالانہ فنڈ کروڑوں روپے میں ہوتا ہے لیکن کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اگرانہی اداروں کو چلانے کے لیے نجی شعبے کے کامیاب ناشرین سے مشاورت کی جائے تو وہ نفع میں جا سکتے ہیں اور حکومت کو ہر سال نہ صرف جو کروڑوں روپے کا جو خسارہ ہو رہا ہے وہ پورا ہوگا بلکہ یہ ادارے منافع بخش اداروں میں تبدیل ہو جائیں گے۔ کتاب کلچر کے حوالے سے یہاں بے شمار لوگوں کے عظیم کارنامے ہیں۔ ان بڑے لوگوں میں سے سنگ میل کے روحِ رواں جناب چوہدری نیاز احمد، مقبول اکیڈمی کے بانی جناب ملک مقبول احمد، فیروز سنز کے بانی بابا جی فیروز صاحب، الفیصل پبلشرز کے بانی جناب محمد فیصل دارالشعور کے روحِ رواں محمد عباس شاد، اسلامک بک سنٹر کے روحِ رواں آغا نثار احمد کے علاوہ درجنوں ایسے ادارے اور شخصیات ہیں جو کتب بینی اور کتاب کلچر کے فروغ کے لیے دن رات کوشاں ہیں۔ حال ہی میں ایکسپو سنٹر جوہر ٹائون لاہور نے 35واں بک فیئر منعقد ہوا جس میں خواتین بچوں سمیت لاکھوں لوگوں نے وہاں کا رُخ کیا اور کروڑوں روپے کی کتب فروخت ہوئیں۔ جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ کتاب کی آخری صدی ہے میرا خیال ہے کہ وہ حقائق کے برعکس باتیں کر رہے ہیں۔ جس طرح گھر میں والدین کا کردار ہمیشہ رہے گا اسی طرح زندہ اور بیدار معاشروں میں کتاب ہمیشہ زندہ رہے گی۔ البتہ کتب کی اشکال تبدیل ہوتی رہیں گی۔ دنیا میں عربی خصوصاً قرآن پاک واحد کتاب ہے جس کی زبان آج تک تبدیل نہیں ہوئی اور قیامت تک یہی زبان رہے گی۔ البتہ دنیا میں ہر زبان چند عشروں کے بعد ان کے الفاظ متروک اور تبدیل ہو جاتے ہیں۔ بک فیئر کے روحِ رواں جناب محمد فیصل نے بتایا لوگ 58000 روپے ادا کر کے اسٹال بک کرواتے ہیں اور اگلے سال پھر شمولیت اختیار کرتے ہیں۔ یہ پاکستان کا ایک بڑا بک فیئر ہے جس میں ہزاروں کتابیں ایک ہی پلیٹ فارم پر لوگوں کو میسر آتی ہیں اور لوگ دھڑا دھڑ کتابیں خریدتے ہیں۔ قرآنِ کریم فرقان حمید کے تمام تراجم، تفاسیر، سیرت کی کتابوں کے علاوہ اہم لوگوں کی بایو گرافی، افسانے، ناول اور سینئر اساتذہ کرام کے کلیات اور اخلاقی کردار کے حوالے سے کتب لوگ آج بھی نہ صرف خریدتے ہیں بلکہ دوستوں کو تحفہ بھی دیتے ہیں۔ کتابیں زندہ معاشروں میں انقلاب برپا کر دیتی ہیں۔ ایک دانشور نے کہا تھا کہ مثبت تجویز کامیابی و کامرانی کے دروازے کھول دیتی ہے۔ مولانا روم، حافظ، شیرازی، سعدی کی آج بھی کتابیں لوگ یاد کرتے ہیں اور ان کی روشنی سے معاشرے کو تعمیر کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کتابیں انسانی ذہن کی گرہیں کھول کر انقلاب برپا کر دیتی ہیں اور شعور کو نہ صرف بیدار کرتی ہیں بلکہ اس کی آبیاری بھی کرتی ہیں۔ جن جن قوموں میں کتب بینی کو عروج حاصل ہے آج وہ دنیا میں حکمرانی کر رہی ہیں۔ میاں محمد شہباز شریف وزیر اعظم پاکستان بھی اچھی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں پنجاب کی تمام یونین کونسل تک ایک لائبریری کا قانون بنایا تھا لیکن اس قانون پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ پورے ملک میں اساتذہ کرام اور ارکانِ پارلیمنٹ پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جو اپنے اپنے حلقوں میں جدید اور قدیم کتب کے ساتھ ساتھ ای بکس کا بھی اہتمام کریں اور لائبریریوں کو اپنے قومی ہیرو کے نام منسوب کریں۔ حکومت پاکستان کو یہ بھی کرنا چاہیے کہ ہر سکول میں ہفتے میں ایک دن لائبریری پیریڈ کا بھی اہتمام کیا جائے۔ اس طرح معاشرے میں کتب بینی کا فروغ بھی ہوگا اور ایک بہترین قوم بھی تیار ہو گی۔ پچھلی حکومت نے جس طرح پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں میں قرآن پاک کی تعلیم کو لازمی قرار دیا اسی طرح جناب وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف اور ان کی متحرک ٹیم کو چاہیے کہ سیرت کی کتب کو بھی تمام تعلیمی اداروں میں لازمی قرار دے دیا جائے اور ہر مسجد، ہر ہسپتال، ہر پارک میں ایک جدید لائبریری قائم کی جائے۔ یورپ میں متحرک لائبریریاں بھی قائم کی جا رہی ہیں بلکہ بعض جگہوں پر ایسی لائبریریاں بھی موجود ہیں کہ ایک کتاب لے جائیں اور ایک کتاب رکھ جائیں۔ پاکستان میں بھی ایسی لائبریریاں وجود میں آنی چاہئیں۔ حکومت کو چاہیے کہ کم از کم کتابی صنعت کو قائم رکھنے کے لیے اسے پانچ سال کے لیے ہر قسم کے ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا جائے اور تمام پبلشروں کو تعلیمی اداروں میں مفت کتابوں کے سٹال کی سہولت دی جائے۔ اسی طرح پاکستان کی تمام لائبریریوں میں ہر محب وطن کتابیں پڑھنے کی اجازت دینی چاہیے۔ پاکستان میں بعض لائبریریاں ایسی ہیں جو صرف اپنے ممبر کو کتاب پڑھنے کی اجازت دیتی ہیں۔ ایسی پابندیاں معاشروں کو غاروں میں دھکیل دیتی ہیں۔ایکسپو سینٹر میں چار روزہ بک فیئر کا آج آخری دن ہے ،میں قارئین سے درخواست کروں گا کہ وہ وقت نکال کر آج اس بک فیئر کا دورہ کریں جسے محمد فیصل اور ان کے ساتھیوں نے بڑے سلیقے سے سجایا ہے ،یہاں مختلف اشاعتی اداروں کے ڈھائی سو بک سٹال قائم کیے گئے ہیں ،محمد فیصل نے اس بک فیئر کی افادیت کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ گلبرگ کے ایک اشاعتی ادارے نے بک فیئر میں بائیس سٹال خریدے ہیں اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بک فیئر کتاب کلچر کو فروغ دینے میں کس حدتک کامیاب ثابت ہو رہا ہے ۔اس بک فیئر کا افتتاح کتابوں سے محبت کرنے والے پیمرا کے چیئر مین محمد سلیم بیگ نے کیا ہے اس سے پہلے نواز شریف اور شہباز شریف بھی اس کا افتتاح کرتے رہے ہیں اور وہ بک فیئر کی حوصلہ افزائی کے لیے اس کی انتظامیہ کو خطیر رقم کے چیک بھی دیتے رہے ہیں ۔اس سے ان دونوں بھائیوں کا کتاب سے لگائو اور دلچسپی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔اس طرح کے بک فیئر ہماری ذہنی صلاحیتوں کو جلا بخشنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں ۔
میں نے بک فیئر کے بارے میں قلم فائونڈیشن کے چیئر مین علامہ عبد الستار عاصم سے رائے مانگی تو انہوں نے جواب دیا کہ بک فیئر ایک بہت کامیاب شو ہے اور اس سے کتاب کلچر کو فروغ ملے گا ۔بک فیئر میں ہزاروں کی تعداد میں بچے اور والدین شریک ہوئے ہیں جس سے اس کی کامیابی کا اندازہ ہوتا ہے ۔عام طور پر یہ بک فیئر فروری میں ہوتا ہے لیکن اس سال ناگزیر وجوہات کی بنا پر اسے شدید گرمی میں منعقد کرنا پڑ اہے لیکن میلے میں آنے والوں کی تعداد دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ سردی گرمی کا ان پر کوئی اثر نہیں کتاب کی محبت انہیںبک فیئر میں کشاں کشاں لے آتی ہے ۔