اتوار ‘ 4؍ شوال 1442ھ‘ 16؍مئی 2021ء
مسئلہ چاند کی رویت کا، فواد چودھری اور مفتی منیب کا ماننے سے انکار
اس بار بھی شوال کے چاند نے لوگوں کو چکرا کر رکھ دیا۔ ہزاروں افراد تراویح پڑھ کر سو گئے۔ ہزاروں لوگ تذبذب کے عالم میں ٹی وی سکرینوں پر نظریں جمائے چاند نظر آنے یا نہ آنے کے اعلان کے منتظر رہے۔ طویل انتظار کے بعد بالآخر شب ساڑھے گیارہ بجے کے بعد چاند نظر آنے کا اعلان ہوا تو اس وقت تک
چاند نکلا تو ہم نے وحشت میں
جس کو دیکھا اسی کو چوم لیا
والی حالت بھی باقی نہیں بچی تھی۔ اطلاع ملنے پر ہر گھر والوں نے سو جانے والوں کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر اٹھایا کہ اٹھو چاند نکل آیا ہے۔ حالانکہ اس وقت چاند نکلتا تو نہیں، البتہ چڑھتا ضرور ہے۔ وہ بھی چڑھانے والے چڑھاتے ہیں۔ بہرحال جو ہوا سو ہوا، پورے ملک میں جمعرات کو عید منائی گئی مگر دیسی گھی اور خالص دودھ میں بنی عید کی سوئیوںکی طرح یہ چاند مفتی منیب الرحمن اور فواد چودھری کو ہضم نہیں ہو رہا ،وہ بضد ہیں اور معاملہ گڑبڑ ہے۔ مفتی صاحب نے تو ایک قضا کا روزہ رکھنے کا بھی حکم دیدیا ہے مگر اس پر شاید ہی کوئی عمل کرے۔ سو اب اس مسئلے کو متنازعہ نہ بنایا جائے۔ رویت ہلال کمیٹی نے بھی نہایت احتیاط اور تحقیقات کے بعد چاند چڑھایا ہے۔ بہت سے خوش عقیدہ حضرات تو یہ بھی کہہ رہے کہ جمعہ کی عید کہتے ہیں حکمرانوں پر بھاری ہوتی ہے۔ دو خطبے ہوں توحکمرانوں کو جانا پڑتا ہے اس لئے رویت ہلال نے جمعہ کی بجائے جمعرات کو عید کرا دی۔ سچ کیا ہے اللہ ہی جانتا ہے۔
٭٭٭٭٭
باکسر عامر خان نے لندن میں اپنے گھر پر فلسطینی پرچم لہرا دیا
اس وقت غزہ میں جو قیامت مچی ہے اس کا حق تو یہ ہے ہر مسلمان اپنے گھر پر فلسطینی پرچم لہرائے۔ تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ ہم ایک ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں انسان دوست کھلاڑی، دانشور فلسطینی پرچم والے مفلر، رومال لپیٹ کر فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کررہے ہیں۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو فلسطینیوں کا قتل عام رکوانے کا کہہ رہے ہیں مسلم و غیرمسلم کئی ممالک اسرائیل کی
مذمت کررہے ہیں۔مگر بات وہی زبانی کلامی مذمت کے سوا آگے نہیں بڑھی۔ خیر ایسے اداروں اور تنظیموں سے کیا گلہ جو صرف بگلے اور مگرمچھ کی طرح آنسو بہا کر غم غلط کرتے ہیں۔ اصل دکھ تو خود امت مسلمہ کا ہے جو ایسے سانحات پر بھی خاموش رہتی ہے۔شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپائے رہتی ہے۔ دنیا بھر میں اربوں مسلمان 58 اسلامی ممالک اگر یکجا ہوجائیں تو اسرائیل میں جرأت نہیں ہوگی دوبارہ ایسی حرکت کرنے کی۔ صرف وہ عرب ممالک جو اسرائیل کے اردگرد آباد ہیں۔ اسرائیل کی ناکہ بندی کردیں۔ اس پر صرف پتھروں کی بارش ہی کردیں تو اسرائیل پتھروں کا جزیرہ بن سکتا ہے مگر یہ سب خیالی باتیں ہیں ۔ عرب ممالک اور مسلم ممالک کی تنظیمیں سب سے بڑھ کر او آئی سی بس زبانی کلامی دھواں دار اخوت، امت اور اسلام کے بارے میں بیانات جاری کرنے کے سوا کچھ نہیں کررہی۔ کروڑوں عرب چند لاکھ کے اسرائیل کے اردگرد آباد ہیں۔اگر یہ نہتے ہی اسرائیل کی طرف پیش قدمی کریں تو پوری دنیا میں فلسطین کے حوالے سے تشویش پیدا ہوگی اور وہ یہ قتل عام روکنے کیلئے اسرائیل پر دبائو ڈالیں گے۔
٭٭٭٭٭
بھارت کو کرونا کے بعد سمندری طوفان کا خطرہ
ُبحیرہ ہند میں اس وقت جو سائیکلون اٹھا ہے اس سے بھارت کی ساحلی پٹی بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ بھارت نے ریڈ الرٹ جاری کردیا ہے۔ سمندر میں موجود ماہی گیروں کو واپس کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ خطرہ ہے کہ کیرالہ ،ممبئی،سورت اور گجرات کوچی کے ساحلی علاقے شدید متاثر ہوں گے۔ طوفانی ہوائیں اور بارشیں قیامت مچا سکتی ہیں۔ یہ طوفانی سلسلہ 17 مئی سے 20 مئی تک پوری شدت کے ساتھ موجود رہے گا۔ ایسی ہی صورتحال پاکستان کے ساحلی علاقوں میں بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ گرچہ اس کی شدت کم ہوگی مگر طوفان بہرحال طوفان ہوتا ہے۔ وہ جہاں جاتا ہے اپنی شدت کے مطابق تباہی لاتا ہے۔ حکومت سندھ نے کراچی، ٹھٹھہ، بدین، حیدرآباد میںتیز ہوائوں کے ساتھ بارش سے عوام کو خبردار کردیا ہے۔ کراچی جیونی، پسنی، گوادر اور مکران کے حکام نے ماہی گیروں کو سمندر سے واپس ساحل پر آنے کے احکامات جاری کردیئے ہیں۔ خدا کرے یہ سمندری طوفان (سائیکلون) مرے کو مارے شامدار والا تازیانہ عبرت نہ بنے۔ اس وقت خلقت خدا پہلے ہی کرونا کے ہاتھوں پریشان ہے۔ زندگی سہمی ہوئی نظر آتی ہے موت نڈر ہوکر وار کررہی ہے۔ اب اگر سمندری طوفان نے بھی حملہ کردیا تو یک نہ شد دو شد والی بات ہوگی۔ ہماری حکومت کی طرف سے جو حفاظتی انتظامات کا ڈھول پیٹا جاتا ہے۔ اس سے سب واقف ہیں یہ سب کاغذوں میں ہوتے ہیں جب کوئی آفت ٹوٹ پڑتی ہے تو ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں۔ دعا تو یہی ہے کہ یہ آفت تباہی پھیلائے بغیر ہی گزر جائے ورنہ وہی…؎
ہم بھی ہیں مختار لیکن اس قدر ہے اختیار
جب ہوئے مجبور قسمت کو برا کہنے لگے
کے علاوہ اور کیا کرسکتے ہیں۔ حکومت سندھ کے تو ابھی سے ہاتھ پھول رہے ہیں، حفاظتی اقدامات کا شور مچایا جارہا ہے۔
٭٭٭٭٭
ملک میں سیاحت بند، وزیراعظم نے اہل خانہ کے ساتھ نتھیاگلی میں عید منائی : زاہد خان
اے این پی کے رہنما زاہد خان کا یہ گلہ تو بجا ہے کہ وزیراعظم نے ایسا کیوں کیا۔ خود انہوں نے عوام سے اپیل کی تھی کہ باہر نہ نکلیں سیاحتی مقامات کا رخ نہ کریں، لاکھوں لوگوں نے ان کی اپیلوں پر کان دھرا۔ مگر خود انہوں نے ’’ اوروں کو نصیحت خود میاں فصیحت ‘‘ والی پالیسی اپنائی ۔ پاکستان میں روایت ہے کہ حکمران عید اپنے آبائی علاقوں میں مناتے ہیں۔ ایوب خان ہری پور میں، بھٹو لاڑکانہ میں، نوازشریف لاہور میں اس حساب سے وزیراعظم عمران خان اگر چاہتے تو لاہور میں نہ سہی میانوالی میں اپنے آبائی علاقے میں عید منا سکتے تھے۔ اس طرح اس علاقے کے عوام کو خوشی ہوتی کہ ان کے وزیراعظم نے انہیں رونق بخشی۔ نتھیا گلی کا کیا ہے وہ کون سی دور ہے۔ وزیراعظم چاہیں تو ہر ویک اینڈ وہاں گزار سکتے ہیں۔ لگتا ہے گرمی کی وجہ سے وزیراعظم نے لاہور یا میانوالی کا انتخاب نہیں کیا اور ’’پسلی پھڑک اٹھی نگہ انتخاب کی‘‘ وزیراعظم کا دل نتھیا گلی نے کھینچ لیا۔ ویسے یہ نتھیا گلی ہے بڑی بھاگوان۔ ہمارے اکثر حکمران اس کے دلفر یب حسن کے دلدادہ رہے ہیں۔ اب گرمیوں میں جو مزہ مری، سوات، کالام ، گھوڑا گلی یا نتھیا گلی میں آتا ہے وہ لاہور، میانوالی، کراچی یا پشاور میں تو نہیں آسکتا۔ اب یہ نتھیا گلی کی قسمت ہے کہ ہمارے حکمران سب کو منع کرکے بھی خود وہاں جانے سے نہیں رُک پاتے اس لئے زاہد خان کا گلہ اپنی جگہ درست ہے کہ عوام کو اس گرمی میں ٹھنڈے علاقوں میں جانے سے عید منانے سے کیوں روکا گیا۔