عالم اسلام: آزمائش کی گھڑی
فلسطین میں جاری اسرائیلی بربریت کی انتہا، اُمہ کے منہ پر طمانچہ کے مترادف ہے۔غزہ میں اسرائیل کی بمباری سے سینکڑوں فلسطینی ہلاک ہو چکے اور زخمیوں سے ہسپتال بھر چکے ہیں۔ خاص طور پر معصوم بچوں کی ہلاکتوں سے ہر آنکھ اشک بار ہے ۔حماس کی جوابی کارروائی کا پیمانہ انتہائی محدود ہے ، حالات بتا رہے ہیں کہ حماس اس سے زیادہ مزاحمت کی سکت رکھتی بھی نہیں۔فضائی حملوں سے تباہی مچانے کے بعد غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوجوں کا اجتماح اس بات کا غماز ہے کہ اسرائیل زمینی جنگ سے نہتے فلسطینیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا تہیہ کر چکا ہے ۔حالات کے تناظر میں وزیر اعظم عمران خان کا فلسطینی ہم منصب سے فون پر اظہار یک جہتی کرتے ہوئے ہر ممکن مدد کا یقین دلانا اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے اصولی مؤقف کا اعادہ کرنا خوش آئند تو ہے مگر اسرائیلی بربریت کا منہ توڑ جواب نہیں۔سعودی عرب کی درخواست پر او آئی سی کا اجلاس بلایا جانا اور عرب ریاستوں کا اسرائیلی بربریت پر فلسطینیوں سے اظہار یک جہتی، اسی صورت مؤثر ثابت ہو سکتا ہے جب جارح اسرائیل کا ہاتھ طاقت سے روکا جائے مگرایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ حالات کا تقاضا ہے کہ جو عرب ریاستیں اسرائیل کوتسلیم کر چکی ہیں ،وہ اب بھی اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔قبلہ اول کی حرمت پامال کرنے کے بعد غزہ میں اسرائیل نے جو قیامتِ صغریٰ برپا کی اس پر عالم اسلام کاکمزور رد عمل اسلامی بھائی چارہ کی روح کے سرا سر منافی ہے۔قرآن واحادیث کی تعلیمات کیمطابق ملت اسلامیہ جسم واحدہ ہے، اس پس منظر میں یہ ہمارے ایمان پر سوالیہ نشان ہے کہ فلسطین میں ہمارے مسلم بھائی ،بہنیں اور بچے خون میں لتھڑے پڑے ہیں اور ہم تین روز سے عیدالفطر کی سرگرمیوںمیں مگن ہیں۔ نہتے فلسطینی اسرائیلی بربریت پر نظریں آسمان کی طرف اٹھائے، ابابیلوں کی صورت میں کسی غیبی مدد کے منتظر ہیں اور عالم اسلام باہمی مسائل وتنازعات میں الجھا غیرمسلم ممالک سے دفاعی اور تجارتی معاہدوں کی اخلاقی پاس داری میں مصروف ہے۔اس سے بڑھ کر بے حمیتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک طرف تو ملت اسلامیہ اسرائیل کو غاصب ریاست قرار دیتی ہے، دوسری طرف درجنوں مسلم ممالک اسرائیل سے تجارتی معاہدوں کی صورت میں اس ناجائز ریاست کی معیشت کو مضبوط کر رہے ہیں۔ اسرائیل تجارت سے کمانے والا یہی پیسہ فلسطینیوں کو تباہ کرنے پر خرچ کر رہا ہے، یہودیوں کی غاصب ریاست کوتسلیم کرنے اور اس سے تجارتی معاہدے کرنے والے عرب حکمران یہ بھول رہے ہیں کہ وہ جن مقامات مقدسہ کی حرمت و فضیلت کے باعث فیوض و برکات اور احترام کی دولت سمیٹ رہے ہیں، یہ سب عظمت اسلام اور آقائے دو جہاںﷺ کے مقدس قدموں کا صدقہ ہے ۔عرب ریاستیںقومیت کے جذبہ سے مغلوب ہو کر اسرائیل سے دوستی کی پینگیں بڑھانے اور تجارتی معاہدوں سے اپنی دینی شناخت اور وقار کو خاک میں ملا چکی ہیں،عرب ریاستوں کی جانب سے اسلام کی روح کے منافی ہونیوالے فیصلوں کے باعث مشرق وسطیٰ میں صہیونی غلبہ روز افزوں ہے،آج فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے، یہ عرب ریاستوں کے اسلامی تعلیمات کے منافی فیصلوں کا نتیجہ ہے ۔ مشکلات کے شکار نہتے فلسطینی حالات سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں، ان حالات میں عالم اسلام کا عالمی برادری سے فلسطینی عوام کے تحفظ کیلئے کارروائی کا مطالبہ اسی صورت نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے ،جب اُمہ خود بھی عملاً موثر اقدامات اٹھانے پر کمربستہ نظر آتی ہو ۔عالمی برادری سے محض کارروائی کا مطالبہ مظلوم فلسطینیوں کی اشک شوئی کے سوا کچھ نہیں ۔یہ دیکھتے ہوئے کہ اسرائیل جارحانہ عزائم کی تکمیل کیلئے مسلسل ایسے اقدامات اٹھاتا چلا آ رہا ہے، جو عالمی امن کیلئے خطرہ ہیں ، مسلم حکمرانوں کا متحد نہ ہونا ،صہیونی لابی کو مشرق وسطیٰ میں مزید کھُل کھیلنے کے مواقع فراہم کرنے کے مترادف ہے۔ غزہ میں سینکڑوں فلسطینیوں کی شہادت کے بعد یہودیوں کا بیت المقدس پر قبضہ کی خوشی میں 54 سالہ جشن منانا اس بات کا مظہر ہے کہ خواب غفلت میں ڈوبے عالم اسلام کویہودیوںکے جشن منانے پر کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہوئی ، عالم اسلام کی یہ بے حسی اُمہ کی اجتماعی غیرت وحمیت اور وقار کے منافی روش ہے۔اس کمزور ردعمل کا عالمی غنڈہ اسرائیل کیا اثر قبول کریگا؟مشرق وسطیٰ میں فلسطینی اور مقبوضہ کشمیر میں کشمیری عوام تواتر سے نہ صرف اپنے بنیادی حقوق سے محروم چلے آ رہے ہیں بلکہ قید وبند کی صعوبتیں جھیلنے کے ساتھ ساتھ جانی ومالی نقصان بھی برداشت کر رہے ہیںمگر ان کا کوئی پُرسان حال نہیں۔اقوام متحدہ ایسا عالمی ادارہ اس حوالے سے اپنے قیام کا مقصد ہی فراموش کرچکا ہے۔عالمی ادارے کو اپنی ساکھ اور وقار کا احسا س ہوتا تو اب تک مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین ایسے دیرینہ تنازعات مسلمہ بین الااقوامی انسانی حقوق کی روشنی میں حل ہو چکے ہوتے۔ یہ جانتے ہوئے کہ ایک گھنائونی عالمی سازش کے تحت اسلام دشمن طاقتیں ملت اسلامیہ کو باہمی تنازعات میں الجھا کر اپنے توسیع پسندانہ ایجنڈے کی تکمیل کیلئے مسلسل کوشاں ہیں ، کشمیر اورفلسطین میں جاری ظلم وبربریت پر انہی طاقتوں سے تعاون یانوٹس لینے کی اپیلوں سے دراصل عالم اسلام خود کو دھوکہ دے رہا ہے ۔جب یہ طے ہے کہ اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کی خیر خواہ ہو ہی نہیں سکتیں تو وہ کشمیر اور فلسطین میں ظلم کے شکار حصول آزادی کیلئے کوشاں نہتے عوام اور مجاہدین پر ہوتا ظلم روکنے اور انہیںآزادی دلانے پر کیونکر آمادہ ہوں گی۔
وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ اس طرف خصوصی توجہ دیں ۔حالیہ اسرائیلی بربریت پر ترک صدر طیب اردوان کا دلیرانہ رد عمل خوش آئند اور عالم اسلام کیلئے دعوت فکر ہے کہ وہ حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے اسرائیلی اقدام پر یکساں اور ٹھوس لائحہ عمل اختیار کرے۔طیب اردوان نے عالم اسلام پر واضح کردیا ہے کہ فلسطینیوں پر حملہ پورے عالم اسلام پر حملہ کے مترادف ہے، جس کا دشمن کو اسی انداز میں جواب دیا جاناچاہیے، جس انداز میں وہ ظلم ڈھا رہا ہے۔طیب اردوان نے دو ٹوک کہہ دیا ہے کہ فلسطین میں اسرائیل کی حالیہ کارروائی پر عالم اسلام نے بھرپور مزاحمت نہ کی تو فلسطینیوں کو تہہ و تیغ کرنے کے بعد اسرائیل کا رخ پہلے مدینہ اور پھر مکہ کی طرف ہوگا، تب کیا ہو گا، اس کا آج مسلمان تصور بھی نہیں کر سکتے ۔اس سلسلے میں پاکستان ،ایران ،ملائیشیا، انڈونیشیا ،بنگلہ دیش اور بالخصوص سعودی عرب سمیت تمام عرب ریاستوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم رکوانے اور فلسطینیوں کو صہیونی لابی کے پنجۂ استبداد سے نجات دلانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کیلئے میدان عمل میں قدم رکھیںتاکہ مشرق وسطیٰ میں روز افزوں صہیونی غلبہ رکنے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین پر آزادانہ طور پر زندہ رہنے کا بنیادی حق مل سکے۔
اسرائیلی بربریت پر حماس کی جانب سے اسرائیل پر میزائلوں کی بارش دشمن کی ناپاک جسارت کا منہ توڑ جواب ہے، جس پر غاصب صہیونی ریاست میں کہرام مچ گیا ہے۔توجہ طلب بات یہ ہے کہ اسرائیل کے جاری مظالم پر خاموش رہنے والے عالمی ادارے اقوام متحدہ نے ایران کے رد عمل پر ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے۔عالمی ادارے کا یہ اجلاس بلانا جہاں خوش آئند ہے، وہاں اقوام متحدہ کے عالم اسلام سے مسلسل روا رکھے جانیوالے دوھرے اخلاقی معیار کا غماز بھی ہے۔ اقوام متحدہ کو چاہیے کہ مشرق وسطیٰ میں عالمی جنگ کا راستہ روکنے کے لئے اسرائیل کو جارحانہ اقدامات سے باز رکھے تاکہ خطہ جنگ کی ہولناکیوں سے محفوظ رہ سکے۔73سالہ مسئلہ کشمیر ، اسرائیل کے قیام سے اب تک فلسطینیوں پر یہودیوں کے مظالم اور تین دہائیوں پر محیط افغانستان میں جاری خانہ جنگی کا خاتمہ نہ ہونا جہاں عالمی طاقتوں کے بچھائے ہوئے جال کا نتیجہ ہے، وہاں اس کے ذمہ دار مسلمان خود بھی ہیں۔ جب تک مسلمانوں میں مسلکی ، علاقائی اور سرحدی تنازعات ،ایک دوسرے سے ذاتی عناد اور مالی مفادات ایسے رجحانات کاخاتمہ نہیں ہوتا، مسلمان دنیا بھر میں اسی طرح رسوا ہوتے ہوئے ظلم وبربریت کا شکار رہیں گے ،جس طرح اب ہیں۔
مسلمانوں کے نمائندہ ادارہ او آئی سی کو چاہیے کہ وہ اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے اپنا کردار ادا کرے تاکہ عالم اسلام کی عظمت رفتہ بحال ہو سکے ۔