ہفتہ ‘ 22 ؍ رمضان المبارک 1441 ھ‘ 16؍مئی 2020ء
فردوس عاشق نے لابنگ کرکے وزارت حاصل کی‘ اہل نہیں تھیں: فوا د چودھری
فواد چودھری کی بات سچ نظر آتی ہے کیونکہ پاکستان میں سیاسی‘ حکومتی عہدے لابنگ سے ہی ملتے ہیں۔ کچھ عہدیداروں کی ’’لابی‘‘ عام ووٹرز ہوتے ہیں کیونکہ وہ امیدوار کو کامیاب کراتے ہیں تو یہ بھی ’’لابی‘‘ ہی کی ایک قسم ہوتی ہے۔ ایسے ہی کچھ حکومتی‘ سیاسی عہدیداروں کی ’’لابنگ‘‘ ’’خاص ووٹر‘‘ کرتے ہیں اور یہی ’’لابی‘‘ اپنے ہارے ہوئے امیدوار کو بڑے بڑے مناصب تک پہنچا دیتی ہے جیسے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی ’’لابی‘‘ کامیاب رہی اور یہ صرف موجودہ دور میں ہی نہیں ہوا بلکہ اس سے پہلی حکومتوں میں بھی من پسند افراد کے لیے ایسی ’’لابنگ‘‘ ہوتی رہی ہے۔ دوسری بات جو فواد چودھری نے کہی کہ فردوس عاشق اہل نہیں تھیں۔ یہ تو لگتا ہے فواد چودھری نے اپنی ’’کڑ‘‘ نکالی ہے۔ وہ ’’اہل‘‘ تھیں تو صرف معاون خصوصی کی حیثیت سے پوری وزارت اطلاعات و نشریات سنبھالی ہوئی تھیں کیونکہ اسی وزارت کیلئے اب ایک وفاقی وزیر اور ایک معاون خصوصی ہیں۔ فواد چودھری عوام کے منتخب نمائندہ ہیں۔ وزارت اطلاعات کا قلم چھن جانے کے بعد کئی ’’سر پھرے‘‘ ووٹرز نے بھی انہیں طعنہ دیا ہوگا۔ ویسے بھی کہاں دوسری وزارتیں اور کہاں وزارت اطلاعات و نشریات۔ جہاں ہر وقت کیمروں کی چکاچوند روشنیاں، رپورٹرز اور فوٹوگرافرز کے جھرمٹ اور کہاں سائنس و ٹیکنالوجی جیسی ’’خشک‘‘ اور ’’درد سر‘‘ والی وزارت۔ حالانکہ میڈیا میں ’’اِن‘‘ رہنا فواد چودھری کا مسئلہ ہی نہیں۔ وہ شیخ رشید کی طرح اپنی ’’جگہ‘‘ بنانا جانتے ہیںاس لئے ان کا کبھی اسلامی نظریاتی کونسل اورکبھی رویت ہلال کمیٹی کے ساتھ ’’اِٹ کھڑکا‘‘ لگا ہی رہتا ہے۔ کرونا کے دنوں میں بھی انہوں نے اپنی وزارت کو ’’فضول‘‘ بیٹھنے نہیں دیا۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں اپنی ریسرچ جاری رکھی اور فردوس عاشق اعوان کی وزارت کے حصول کیلئے اہلیت کا پتہ لگا ہی لیا جو اگرچہ سچ ہے مگر ’’بات ہے رسوائی کی۔‘‘ اس لئے فواد چودھری کو ہمارا مشورہ ہے کہ
؎کچھ کہنے کا وقت نہیں یہ ، کچھ نہ کہو ‘خاموش رہو
اے لوگو، خاموش رہو، ہاں اے لوگو ، خاموش رہو
٭٭٭٭٭
بینظیر انکم سپورٹ۔ 12 افسروں نے رقم واپس کرنے کی یقین دہانی کرا دی
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے 7‘ 8 سال سے رقم وصول کرنے پر ایف آئی اے نے گریڈ 17 کی تین خواتین‘ دو اسسٹنٹ پروفیسروں اور 7 دیگر افسروں اور ان کی بیگمات کے خلاف مقدمات درج کرکے ایف آئی آر سیل کر دی تھی۔ وفاقی حکومت کی ہدایت پر ایف آئی اے نے تحقیقات شروع کیں تو ’’متاثرین‘‘ نے نام ظاہر نہ کرنے اور ان کے محکموں کو آگاہ نہ کرنے پر پیسے واپس کرنے کی یقین دہانی کرا دی ہے جو یقینا ایف آئی اے کی بہت بڑی ’’کامیابی‘‘ ہے۔ ورنہ پاکستان میں کون اتنا ایماندار اور دیانتدار ہے کہ ہڑپ کی ہوئی رقم واپس کر دے۔ پھر ایسی ’’کمائی‘‘ جو بغیر محنت ہاتھ لگی ہو۔ ویسے ان کے نام بھی نہ صرف مشتہر کئے جائیں بلکہ ان کے خلاف ریفرنس نیب کو بھجوا دیئے جائیں اور جس جس منصب و عہدے پر وہ براجمان ہیں‘ ان کو نہ صرف تاحیات نااہل قرار دیدیا جائے اور ان سے بینظیر انکم سپورٹ کی رقم سمیت تمام محکمانہ مراعات بھی واپس لی جائیں تاکہ وہ بھی ’’تبدیلی کا مزہ‘‘ خوب چکھ سکیں۔ایسی صورتحال سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ملک میں جس کو جب کبھی جتنا موقع ملتا ہے‘ وہ فائدہ اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا کیونکہ؎
شائستہ صحبت ان میں کوئی نہیں اصغر
کافر نہیں دیکھے کہ مسلمان نہیں دیکھا
٭٭٭٭٭
یورپ میں سائیکلوں کی مانگ بڑھ گئی
کرونا کے باعث لاک ڈائون کے نتیجہ میں پیدا ہونیوالی صورتحال اور پبلک ٹرانسپورٹ کی بندش سے برطانیہ سمیت پورے یورپ میں سائیکلوں کی مانگ بڑھ گئی ہے۔ لوگ سواری کے لیے سائیکل استعمال کر رہے ہیں جس کے باعث سائیکل پارکوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے جبکہ سڑکوں پر الگ سائیکل ٹریک بھی بنائے جا رہے ہیں۔ اللہ ہی خیر کرے۔ کرونا نے دنیا کو کہاںسے کہاں تک پہنچا دیا ہے۔ بڑے بڑے کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گئے ہیں ، صنعتیں بند ہوتی جا رہی ہیں ، مارکیٹوں ، پلازوں کے شٹرڈائون ہیں لیکن چھوٹی اور ’’متروک‘‘ صنعتوں کا کاروبار چمک اٹھا ہے جن میں ماسک، سینیٹائزرز وغیرہ بھی شامل ہیں۔ سائیکل بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ یورپ میں تو پہلے بھی اس کو کافی حد تک فائدے کی سواری سمجھا جاتا رہا ہے اب کرونا نے اس کے مقدر کو ’’چار چاند لگا دئیے‘‘ لیکن سائیکل انڈسٹری سے وابستہ افراد اگر ’’مارکیٹنگ‘‘ کریں اور پوری دنیا کی ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کی طرح ’’اِکّا دکّا‘‘ فلم ، کرکٹ ، فٹ بال سٹارز کی خدمات حاصل کر لیں کہ ’’کرونا سائیکل پر سواری کرنے والوں کے قریب نہیں پھٹکتا صبح و شام سائیکلنگ سے کرونا ختم ہو جاتا ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اور ایسا ہی ’’شوشہ‘‘ اگر پاکستان میں چھوڑا جائے تو سائیکل انڈسٹری دوبارہ عروج پا سکتی ہے پھر اس سے وابستہ افراد کے گلے شکوے بھی جاتے رہیں گے اور ساتھ ہی ساتھ سائیکل سے متعلقہ گلوکاروں کی ’’ظرافت‘‘بھی دوبارہ پھڑک اٹھے گی۔
پھر پینگ پیار دی جھوٹاں گے
آچلیے لمیاں روٹاں تے
آجا نی بہہ جا سائیکل تے