حضرت ابن عمر رضی اللہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا’’ یا رسول اللہ میں نے ایک بہت بڑا گناہ کیا ہے۔ کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہاری ماں زندہ ہے ؟ صحابی نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تو کیا تمہاری کوئی خالہ ہے ؟ صحابی نے جواب دیا جی ہاں حضور۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘‘ خالہ کی خدمت اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو، تمہاری توبہ قبول ہو جائے گی ‘‘سنن ترمذی ۔۔۔اور اب یہ دور آگیا ہے کہ بد لحاظ نسل خالہ تو درکنار سگی ماں کے ساتھ بد لحاظ اور گستاخ ہو رہی ہے۔ ایک منہ پھٹ بد لحاظ نام نہاد ڈگری یافتہ خاتون جس پر اس کی خالہ کے محبت بھرے احسانات کا بوجھ بھی ہے اسی خالہ کو بڑی رعونت سے کہتی ہے کہ جب میں اپنی سگی ماں کوخاطر میں نہیں لاتی تو آپ تو پھر میری ماں کی بہن ہو میں آپ کو کیا سمجھتی ہوں۔ میں اگر اپنی ماں چھوڑ سکتی ہوں تو آپ کی کیا حیثیت ہے۔۔۔ایسی گستاخ نسل سزا بھی ہے اور آزمائش بھی۔اکثر خاندانوں میں کوئی ایک بچہ ایسا دیکھا گیاہے جس کی کمائی یا پڑھائی کا رعب والدین اور بہن بھائیوں کو غلام بنا لیتا ہے۔عرف عام میں ایسے رویہ کو ڈکٹیٹر کہا جاتا ہے۔ڈکٹیٹر نما اولاد سے خدا کی پناہ مانگنی چاہئے جس کی رعونت سے اس کے سگے ماں باپ نصیحت یا دل کی بات کرتے ہوئے ڈریں۔ایسی ہی گستاخ اولاد کے بارے میں کہا گیا ہیا کہ ڈرو اس وقت سے جب والدین اولاد کی بد لحاظی کے خوف سے اسے نصیحت کرنا چھوڑ دیں۔والدین کے آگے اونچی آواز سے بات کرنا گناہ کبیرہ ہے کجا ماں یا ماں جیسے رشتوں کے ساتھ چرب زبانی کی جائے ؟مائیں ایسی گستاخ بد لحاظ اولاد کے دکھڑے بھی کسی کے سامنے نہیں رو سکتیں کہ اولاد کی بری تربیت کا طعنہ ماں کو ہی سننا پڑتا ہے۔پھر ایسی مائیں اپنی بد تمیز ضدی گستاخ اولاد کے عیبوں اور کمزوریوں کا مورد الزام جادو ٹونے تعویذ گنڈوں کو ٹھہراتی ہیں کہ فلاں کی نظر لگی ہے فلاں نے عملیات کرا ئے ہیں اور ایسی جاہل ماں کی گستاخ اولاد بھی اپنی اصلاح کرنے کی بجائے نظر جادو کو جواز بنا کر بزرگ رشتوں کو ذلیل کرتی رہتی ہے۔ماں کا دل دکھانے یا اس کے ساتھ گستاخی سے پیش آنے کی کوئی معافی نہیں۔ ماں باپ تو اولاد کی محبت کے ہاتھوں مجبور ہیں معاف کر سکتے ہیں مگر پروردگار معاف نہیں کرتا اور ہر گستاخ اولاد کو پھر اپنی
اولاد کے ہاتھوں مکافات عمل بھگتنا پڑتا ہے۔ ایسی تعلیم اور ڈگریوں کو جلا کر راکھ کر دینا چاہئے جو بڑوں کا ادب لحاظ چھین لے۔ ایسے مسلمانوں سے غیر مسلم بھی پناہ مانگتے ہیں جنہیں ہم جہنمی اور کافر قرار دے کر اپنی مسلمانی پر خوش ہوتے ہیں۔ماشا اللہ دور حاضر کے مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے کیا کہنے قول و فعل میں کمال کے فنکار ہیں۔گفتگو میں دانشور لیکن عملی طور پر بد لحاظی اور احسان فراموشی میں با کمال ہیں۔ جہاں اپنا مطلب ہو وہاں جھوٹ منافقت اور دوغلہ پن میں خوب مہارت رکھتے ہیں۔ایک سعودی طالبعلم حصول تعلیم کے لیے برطانیہ میں مقیم تھا وہ طالبعلم بیان کرتا ہے کہ مجھے ایک ایسی انگریز فیملی کے ساتھ ایک کمرہ کرائے پر لے کر رہنے کا اتفاق ہوا جو ایک میاں بیوی اور ایک چھوٹے بچے پر مشتمل تھی۔ ایک دن وہ دونوں میاں بیوی کسی کام سے باہر جا رہے تھے تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ اگر آپ گھر پر ہی ہیں تو ہم اپنے بچے کو کچھ وقت کے لیے آپ کے پاس چھوڑ دیں ؟ میں نے حامی بھر لی۔کچھ دیر کھیلنے کے بعد وہ مجھ سے اجازت لے کر کچن میں گیا اور تھوڑی ہی دیر بعد مجھے کسی برتن کے ٹوٹنے کی آواز آئی میں جلدی سے کچن میں گیا اور دیکھا کہ شیشے کے جس گلاس میں بچہ پانی پی رہا تھا وہ اس کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ چکا تھا اور بچہ ڈر کر اپنی جگہ سہما کھڑا تھا میں نے بچے کو تسلی دی اور کہا کہ تم پریشان نہ ہو اور امی واپس آئیں تو ان سے کہنا کہ گلاس انکل سے ٹوٹ گیا تھا پھر میں نے سوچا کہ اگلے دن ایک گلاس لا کر کچن میں رکھ دوں گا۔ یہ ایک معمولی واقعہ تھا اور میرے خیال میں پریشانی والی کوئی بات نہیں تھی، جلد ہی وہ دونوں میاں بیوی واپس آگئے اور میں نے بچے کو ان کے حوالے کر دیا۔ اسی شام کو وہ بچہ میرے پاس بہت افسردہ حالت میں آیا اور مجھے کہا کہ انکل میں نے پہلے جھوٹ بولا لیکن بعد میں امی کو سچ بتا دیا ہے کہ وہ گلاس آپ نے نہیں بلکہ میں نے توڑا ہے۔اگلی صبح میرے دروازے پر دستک ہوئی تو سامنے اس بچے کی ماں کھڑی تھی اس نے نہایت شائستگی سے کہا کہ ہم آپ کو ایک نفیس اور شریف آدمی سمجھتے ہیں مگر آپ نے ہمارے بچے کو جھوٹ بولنے کی ترغیب دے کر اپنا وقار خراب کر لیا ہے ہم نے آج تک کسی بھی معمولی یا بڑی بات پر اپنے بچے سے جھوٹ نہیں بولا نہ کبھی اس کو جھوٹ بولنے کی ترغیب دی ہے لہذا ہم آپ کو مزید اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے برائے مہربانی آپ چوبیس گھنٹے کے اندر اندر اپنے لیے کسی دوسری رہائش کا بندوبست کر لیجئے۔...اور ہم نے جنہیں اپنے جنتی ہونے پر بڑا زعم ہے کبھی اپنے گریبانوں میں جھانک کر بھی دیکھا ہے؟ہم جنہیں کافر کہتے ہیں یہ لوگ اپنے بچوں کے ساتھ جھوٹ نہیں بولتے۔ صاف سیدھی بات کرتے ہیں۔ لارے نہیں لگاتے۔ بہانے نہیں بناتے۔ ٹرک کی بتی کے پیچھے نہیں لگاتے۔ الا ما شا اللہ مسلمانوں کو اللہ کی مار ہے شاید جو کبھی کسی معاملہ میں سیدھی اور سچی کھری بات کریں۔ چغلی غیبت بہتان محبوب مشغلہ ہے۔ بات بات پر جھوٹی قسم کھانا ، ماں باپ اور بزرگ رشتوں کی بے ادبی کرنا،وعدہ خلافی کرنا ،بد نیتی سے انشا اللہ کہنے کا مرض وبا کی صورت اختیار کرچکا ہے۔اب تو جو انشا اللہ کہے یقین ہوجاتا ہے کہ کام نہیں ہو گا۔ جو اعتماد سے صرف اتنا کہہ دے کہ آپ کا کام ہو جا ئے گا تو یقین کرنے کو جی چاہتا ہے۔ بد نیت انسان آج کل آج کل کر کے ٹالتا ہے جسے عرف عام میں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا نا کہتے ہیں۔ کام بھی نہ کیا جائے اور تعلق بھی خراب نہ ہو۔ یہ دوغلہ پن جھوٹ اور منافقانہ رویہ پاکستان میں کثیر تعداد میں دستیاب ہے۔ پاکستان میں سچ اب صرف پیسہ ہے۔ پیسے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔رشتوں کو بھی مطلب پرستی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ تعلقات رشتے سب ڈیجٹل ہو چکے ہیں۔ انٹر نیٹ فیس بک سوشل میڈیا سمارٹ فون کی دنیا میں رہنے والوں کی زندگی مصروف ترین ہے۔ بیت الخلا میں نیٹ میسر آگیا تو بھلے گرمی کی شدت سے جان نکل جائے بس سگنل ملنے چاہئیں۔ زندگی کے تمام معاملات تعلقات ڈیجٹل پر بھگتا دئیے جاتے ہیں۔ کسی کی ماں مر جائے باپ مر جائے تو ڈیجٹل تعزیت۔ کسی کے ہاں خوشی کی خبر ہو تو ڈیجیٹل مبارک۔ کسی کا سر پھٹ جائے ڈیجٹل عیادت۔ شب برأت پر ڈیجٹل معافی نامے بھیجے جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے پاکستانیوں سے زیادہ مصروف کوئی دوسری قوم نہیں۔ویہلے کاہلی سستی کے مارے رشتے ناطے رواداری ریت روایت اقدار میل ملاپ سب کچھ بھولتے جا رہے ہیں۔ جن کا دل دکھایا ہے معافی مانگ کر آئو لیکن سمارٹ فون پر ایک پیغام میں سب کو بھگتا دیا جاتا ہے۔ چل کر جانے کا تردد اغراض و مفادات سے وابستہ ہو گیا ہے۔ جس سے کام پڑ جائے اس کی ماں تو درکنار پھو پھی کا افسوس کرنے بھی پہنچ جائیں گے۔ بلا مقصد سلام دعا رکھنے کے قائل نہیں۔بغیر غرض اور مفاد کے کسی کا فون ریسیو کرنا پسند نہیں کیا جاتا۔ جھوٹ رزق کو کھا جاتا ہے۔ کروڑوں کما نے والوں کو بھی پریشان ہی دیکھا ہے۔مسلمان جھوٹ بول سکتا ہے ، کافر جھوٹ بول سکتا ہے لیکن مومن جھوٹ نہیں بول سکتا۔اور مومن ہر مذہب میں موجود ہوتے ہیں۔جب مسلمان بے لحاظ بے عمل ہو جائے تو اس کی اولاد سے ادب لحاظ تہذیب تمیز کی توقع رکھنا حماقت ہے۔نا فرمان اور گستاخ اولاد۔ خواہ کتنی ڈگری یافتہ اور دولت مند کیوں نہ ہو۔ ایسے بیٹے بیٹیاں سزا بھی ہیں اور آزمائش بھی۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024