وزیراعظم کو اعتراف کرلینا چاہیے کہ سٹیٹس کو والے فرسودہ نظام سے قوم کو چھٹکارا دلانا ممکن نہیں
پی ٹی آئی حکومت کا کالے دھن کو سفید کرنے کیلئے ایمنسٹی سکیم لاگو کرنے کا اعلان اور اپوزیشن کا مضحکہ خیز ردعمل
وفاقی حکومت نے ملک کے اندر اور بیرون ملک روپے‘ غیرملکی کرنسی اور پراپرٹی کی شکل میں موجود کالادھن سفید کرنے کیلئے ایمنسٹی سکیم کا اعلان کر دیا ہے۔ اسکے تحت نئے یا سابق پبلک آفس ہولڈرز کے سوا تمام پاکستانی جن کے پاس کالادھن موجود ہے‘ ایک مخصوص شرح سے ٹیکس اداکرکے اسے قانونی بنا سکیں گے۔ اس سلسلہ میں نقد کالادھن پہلے بنک اکائونٹ میں جمع کرانا ہوگا اور اسکی رسید کی بنیاد پر ٹیکس ادا کرکے اسے سفید کیا جاسکے گا۔ بے نامی اکائونٹس اور جائیداد والے بھی اس سکیم سے فائدہ اٹھا سکیں گے تاہم سکیم سے استفادہ کرنیوالوں کیلئے فائلر بننا لازمی ہوگا۔ وفاقی کابینہ نے گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت اپنے اجلاس میں ایمنسٹی سکیم کی منظوری دی جس کے چیدہ چیدہ نکات کا اعلان بعدازاں مشیر خرانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ نے ایک پریس کانفرنس میں کیا۔ مشیر خزانہ کے بقول ایمنسٹی سکیم کا مقصد ریونیو اکٹھا کرنا نہیں بلکہ کالے دھن کو سفید کرنے کا موقع دینا ہے اور معیشت کو ڈاکومنٹڈ کرنا ہے تاکہ معیشت تیز رفتاری سے چل سکے اور جو ڈیڈ اثاثے ہیں‘ انہیں معیشت میں ڈال کر فعال بنایا جاسکے۔ انہوں نے کہا ہم نے کوشش کی ہے کہ یہ سکیم سمجھنے اور عملدرآمد کرنے کے معاملہ میں بہت آسان ہو۔ اس کو حقیقت پسندانہ رکھا ہے اور اس میں ریٹ بھی زیادہ نہیں رکھے گئے۔ انکے بقول ہمارا مقصد لوگوں کو ڈرانا نہیں بلکہ کاروباری طبقات کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کالا دھن رکھنے والوں کو 30 جون تک سکیم میں شامل ہونے کا موقع دیا گیا ہے اور اسکی میعاد میں توسیع نہیں کی جائیگی۔ اس سکیم کے تحت پاکستان کے اندر اور باہر تمام اثاثے ظاہر کرنا ہونگے اور رئیل اسٹیٹ کے علاوہ دیگر تمام اثاثوں کو 4 فیصد کی شرح دیکر ظاہر کیا جاسکتا ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ ملک کے صاحب اختیار اشرافیہ طبقات نے اپنی حیثیت اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے ذریعے قومی دولت و وسائل کی لوٹ مار کرکے اپنی تجوریاں بھرنے اور یہ رقوم ملک کے اندر ہی سرمایہ کاری کیلئے بروئے کار لانے کے بجائے بیرون ملک بنکوں میں جمع کرانے اور وہاں آف شور کمپنیاں بنا کر ناجائز اور کالے دھن سے شروع کئے گئے کاروبار کو وسعت دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان طبقات نے قومی دولت و وسائل کو نچوڑ نچوڑ کر اس وطن عزیز کو تو غریب کر دیا مگر خود امیر سے امیر تر ہوتے گئے اور پھر اپنی دولت کے بل بوتے پر منتخب ایوانوں میں پہنچ کر پورے سسٹم کو بھی یرغمال بنالیا۔ پیپلزپارٹی کے سابق دور حکومت میں وزیر خزانہ کی حیثیت سے ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے ہی قومی اسمبلی کے فلور پر اپنی بجٹ تقریر کے دوران یہ انکشاف کیا تھا کہ ہمارے سیاست دانوں‘ بیوروکریٹس‘ صنعت کاروں اور دیگر مکاتب زندگی کے لوگوں کے مجموعی 2 سو ارب ڈالر بیرون ملک بنکوں بشمول سوئس بنکوں میں موجود ہیں۔ اگر یہ رقوم ملک واپس لا کر یہاں سرمایہ کاری کیلئے بروئے کار لائی جائیں تو یہ وطن عزیز شاہراہ ترقی پر گامزن ہو سکتا ہے اور ہمیں بیرونی قرضوں سے بھی نجات مل سکتی ہے۔ اس وقت صدر آصف علی زرداری کیخلاف سپریم کورٹ میں سوئس اکائونٹس کے حوالے سے یہی کیس زیرسماعت تھا کہ یہ رقوم ملک واپس لائی جائیں مگر پیپلزپارٹی کی حکومت صدر مملکت کو حاصل آئینی استثنیٰ کو جواز بنا کر یہ رقوم ملک واپس لانے کیلئے سوئس بنکوں کو مراسلہ بھجوانے پر آمادہ نہ ہوئی۔ اسکی پاداش میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی توہین عدالت کے سزا یافتہ ہو کر گھر چلے گئے اور پھر دوسرے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف بھی پس و پیش کرتے اس کیس کو لٹکاتے گئے۔ پھر 2013ء کے انتخابی نتائج کی بنیاد پر میاں نوازشریف تیسری بار اقتدار میں آئے تو پانامہ لیکس انکے گلے پڑ گئیں۔ وہ اور انکے خاندان کے پانچ دیگر افراد بشمول سمدھی اسحاق ڈار آف شور کمپنیوں کے ذریعے منی لانڈرنگ پر مستوجب سزا ٹھہرے جبکہ وہ اور انکے خاندان کے متعلقہ ارکان آج بھی نیب کے شکنجے میں ہیں۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اپنی سیاست کی بنیاد ہی کرپشن فری سوسائٹی کے نعرے پر رکھی تھی۔ انہوں نے اسی تناظر میں میاں نوازشریف کے دور حکومت میں ان کا اور سابق حکمران پیپلزپارٹی کے قائدین کا عدالتوں میں‘ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تعاقب جاری رکھا اور عوام سے یہ عہد کرتے رہے کہ کسی چور‘ ڈاکو اور لٹیرے کو نہیں چھوڑا جائیگا اور نہ ہی کسی کو اپنا کالا دھن کسی این آر او کی بنیاد پر سفید کرانے کی اجازت دی جائیگی۔ عوام نے اس دلکش نعرے کی بنیاد پر ہی انکی بھرپور پذیرائی کی اور 2018ء کے انتخابات میں انہیں مسند اقتدار تک پہنچا دیا۔ چنانچہ وزیراعظم کے منصب پر فائز ہونے کے بعد انہوں نے شدومد کے ساتھ قومی دولت و وسائل لوٹنے والوں کو کیفرکردار کو پہنچانے کا عزم باندھا اور قوم کو ریاست مدینہ کے تصور کے ساتھ وابستہ کردیا جس میں حکمران طبقات کا کڑا احتساب ہوتا ہے تاہم اقتدار میں آنے کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ ملک کی معیشت تو سابق حکمرانوں کی جانب سے قومی دولت و وسائل کی لوٹ مار اور انکے اللوں تللوں کے باعث تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے جسے اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے آئی ایم ایف کے قرضوں اور کالے دھن کو سفید کرکے قومی وسائل کا حصہ بنانے کی راہ دکھانے والی اسی ایمنسٹی سکیم کا سہارا لینے کی ضرورت ہے جس سے نجات دلانے کے وہ قوم کے ساتھ دلکش وعدے کرتے رہے ہیں۔ اسی بنیاد پر پی ٹی آئی حکومت کو بالآخر آئی ایم ایف سے رجوع کرنا اور اسکے ساتھ بیل آئوٹ پیکیج کے معاہدے سے پہلے ہی اسکی مجوزہ شرائط قبول کرکے عوام کو مہنگائی کے عفریت کے آگے ڈالنا پڑا۔ اسکے باوجود انہوں نے کسی کرپٹ کو نہ چھوڑنے کے عزم کا اعادہ جاری رکھا مگر پھر انکی حکومت یکایک ایمنسٹی سکیم کا سہارا لینے پر بھی مجبور ہو گئی جس کے تحت قومی وسائل کی لوٹ مار سے کالا دھن حاصل کرنے والوں کو این آر او جیسی ہی کی سہولت دینے کا راستہ نکال لیا گیا۔
یہ حیران کن صورتحال ہے کہ پاکستان کا دورہ کرنیوالی آئی ایم ایف کی ٹیم نے پی ٹی آئی حکومت کو اس بنیاد پر ایمنسٹی سکیم سے چھٹکارا پانے کا مشورہ دیا کہ اسکے باعث قومی وسائل کی لوٹ مار کا راستہ نکلتا ہے مگر حکومت نے آئی ایم ایف کی ہر شرط پر اسکے آگے زانوئے تلمذ تہہ کرنے پر آمادگی کے باوجود ایمنسٹی سکیم سے چھٹکارا پانے کی اسکی تجویز کو درخوراعتناء نہ سمجھا حالانکہ وزیراعظم عمران خان کے ایجنڈے کے تحت ایمنسٹی سکیم سے چھٹکارا پانا تو پی ٹی آئی حکومت کا کریڈٹ بننا چاہیے تھا۔ حفیظ شیخ کا تو بیرون ملک پڑے پاکستانیوں کے کالے دھن کو سفید کرکے ملک واپس لانے کا پیپلزپارٹی کے سابق دور سے اپنا ایجنڈا ہے اور انکی دانست میں ملکی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے ایمنسٹی سکیم کا سہارا حاصل کرنا ضروری ہے اس لئے پی ٹی آئی حکومت میں وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ بننے کے بعد انہوں نے ملکی معیشت کو سہارا دینے کے اپنے ایجنڈے کے تحت حکومت کو آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے ساتھ ساتھ ایمنسٹی سکیم لاگو کرنے کا راستہ دکھایا ہے تو اس میں انہیں یقیناً کوئی عار محسوس نہیں ہوگی تاہم کرپشن فری سوسائٹی اور کڑے احتساب کے داعی وزیراعظم عمران خان کیلئے یہ لمحۂ فکریہ ضرور ہے کہ ملک کو چلانے کیلئے سابق حکمرانوں کا ہی طرز عمل اختیار کرکے وہ عوام کو نئے پاکستان کا خواب کس بنیاد پر دکھا رہے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایمنسٹی سکیم وزیراعظم عمران خان کے کسی کو این آر او نہ دینے کے دعوے کی نفی ہے کیونکہ اس سے ناجائز ذرائع سے دھن دولت اکٹھا کرنے اور اسے منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کرنیوالوں کو اپنا کالا دھن قانونی طریقے سے اپنی جائز دولت کے طور پر سامنے لانے کا موقع ملے گا جو درحقیقت کرپشن کے ناسور کو مزید پھلنے پھولنے کا موقع دینے کے مترادف ہے۔ اس سکیم سے بے نامی اکائونٹس اور جائیداد رکھنے والے بھی مستفید ہونگے تو اس سے آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کے دوسرے اکابرین کیخلاف درج بے نامی اکائونٹس کے کیس بھی ازخود غیرمؤثر ہو جائینگے اور اس طرح کسی کرپٹ کو نہ چھوڑنے کے حکومتی دعوے سے بھی ہوا نکل جائیگی۔
اگرچہ حفیظ شیخ نے دعویٰ کیا ہے کہ ایمنسٹی سکیم کا مقصد ریونیو اکٹھا کرنا ہرگز نہیں تاہم فی الحقیقت ریونیو بڑھانے کے مقصد کے تحت ہی یہ سکیم لاگو کی گئی ہے کیونکہ اس سکیم سے فائدہ اٹھانے والے اپنا دھن دولت بیرون ملک سے واپس لا کر قومی بنکوں میں جمع کرائیں گے اور یہاں سرمایہ کاری کیلئے بروئے کار لائیں گے تو اس سے ریونیو کا ہدف پورا کرنے میں ہی مدد ملے گی۔ یہ درحقیقت کان کو الٹے ہاتھ سے پکڑ کر کرپشن کو جائز قرار دینے کی حکمت عملی ہے جس پر کرپشن فری سوسائٹی کی تشکیل کی دعویدار پی ٹی آئی کی حکومت آمادہ ہوئی ہے تو اس میں اور سابق حکومتوں میں بادی النظر میں کوئی فرق نہیں رہ گیا۔ اس تناظر میں وزیراعظم عمران خان کو اپنے ایجنڈے سے دستبردار ہو کر قوم کے سامنے کھل کر یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ اسے ’’سٹیٹس کو‘‘ والے سسٹم سے چھٹکارا دلانا ان کیلئے ممکن نہیں ہے۔
دوسری جانب ایمنسٹی سکیم پر سابق حکمران جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کا ردعمل بھی مضحکہ خیز نظر آتا ہے جنہوں نے حکومت کی اعلان کردہ اس سکیم کو مسترد کرکے وزیراعظم عمران خان کو پھر یوٹرن لینے کا طعنہ دیا ہے جبکہ اس سکیم سے سب سے زیادہ فائدہ بھی ان جماعتوں کے لیڈران اور عہدیداران ہی اٹھائیں گے جو کالا دھن جمع کرنے کی پاداش میں ہی نیب کے کیس بھگت رہے ہیں اور قانون کے شکنجے میں ہیں۔ اس حوالے سے قوم کو یقیناً یہی پیغام جائیگا کہ حکمران پی ٹی آئی اور سابق حکمران جماعتوں سمیت سب مفاداتی روایتی سیاست کے اسیر ہیں اس لئے کسی کو سسٹم میں بڑی انقلابی تبدیلیوں کی ہرگز توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ اگر ایمنسٹی سکیم کا زہر تباہ حال معیشت کو سہارا دینے کیلئے آئی ایم ایف کے قرضوں کی ہی کی طرح تریاق بن رہا ہے تو روایتی فرسودہ نظام کے تسلسل میں اسے قبول کرنے میں کیا مضائقہ ہے۔ قوم کو بہرصورت اپنے رومانٹسزم سے ضرور باہر نکل آنا چاہیے۔