جمعرات ‘ 10 ؍ رمضان المبارک ‘ 1440ھ‘ 16؍مئی 2019ء
مولانا فضل الرحمن کی سکیورٹی انکے مسلح ارکان اسمبلی نے سنبھالی
مولانا کی عمرے کے بعد وطن واپسی پر جس طرح ان کو ان کی جماعت کے مسلح ارکان پارلیمنٹ نے حفاظتی گھیرے میں لے کر فوٹو کھنچوائی اسے دیکھ کرتو ایک لمحہ یہ لگتا ہے کہ مولانا اپنے فدائین کے ہمراہ مقبوضہ کشمیر میں جہاد کے لیے تشریف لے جا رہے ہیں۔ اب یہ علیحدہ بات ہے کہ تصویر میں مولانا کے ساتھ اور پیچھے کھڑے اکثر مسلح گارڈز عمر کے اس حصے میں ہیں کہ ان سے دو چار قدم بھی دوڑا نہیں جا سکتا اور اس پر وہی …’’ باگ ہاتھ میں ہے نہ پا ہے رکاب میں‘‘
والی مرزا غالب کی بات دہرائی جا سکتی ہے۔ خود مولانا میں بھی اب وہ شاہین کا تجسس اور چیتے کے جگر والی بات کہاں رہی۔ یہ سب باتیں ماضی کا قصہ بن چکی ہیں۔ ورنہ الیکشن میں ناکامی کے بعد مولانا کا یہ خاموش بیٹھنا ان کے ساتھیوں کے ساتھ ان کے مخالفین کو بھی حیران کر رہا ہے۔ ہزاروں کے جلسے میں حکومت کو گرانے کی باتیں کرنے والے فضل الرحمن ایسے ساکت و جامد بیٹھے ہیں کہ کاٹو تو بدن میں لہو بھی نہیں والی حالت ہو گئی ہے۔ حاسدین تو اس حالت کو الیکشن میں شکست کی وجہ قرار دے رہے ہیں جس کی وجہ سے مولانا دل چھوٹا کر بیٹھے ہیں۔ مگر اب حکومت کی طرف سے سکیورٹی واپس لینے کے بعد ان کی جماعت کے رہنمائوں نے جس طرح …؎
دل دیا ہے جاں بھی دیں گے
اے ’’قائد‘‘ ہم تیرے لیے
کی عملی تصویر پیش کی ہے۔ اس سے مولانا فضل الرحمن کافی خوش نظر آ رہے ہیں کہ ان کے جانثار پہلے بھی حکومتی سکیورٹی کے باوجود ان کے گرد حصار بنائے رکھتے تھے آج بھی حصار بنا کر کھڑے ہیں۔ اس لیے مولانا ایک بار پھر سیاسی میدان میں آندھی اور طوفان بن کر چھانے کی تیاری کریں۔ بہت ہو گیا بن باس۔
٭٭٭٭
قوم کے لیے خوشخبری سندھ میں تیل اور گیس کے نئے ذخائر دریافت
ایسی باتیں اور خوشخبریاں سن سن کر عوام کا اب ایسی باتوں پر زیادہ اعتماد نہیں رہا۔ یہ کیسے ذخائر ہیں جو آئے روز دریافت ہوتے ہیں۔ مگر ان دریافتوں کے باوجود نہ تیل کی قیمت کم ہوتی ہے نہ گیس کی قیمت میں کمی آتی ہے۔ عوام کو تو لگتا ہے ایسی خبریں حکمران تیل اور گیس کی قیمتوں سے تنگ عوام کو صرف خوش کرنے یا بدھو بنانے کے لیے جاری کرتے ہیں تاکہ ان کی امید بندھے کہ اب ان ذخائر سے تیل اور گیس نکلنے کے بعد ان کی قیمتیں بھی کم ہو ں گی۔ مگر… ’’بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘ ایسی نوبت کبھی نہ آئی ہے نہ آئندہ آتی نظر آ رہی ہے۔ کیونکہ یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں۔ ہمارے حکمران تو عوام کو ذبح کر نے کے بعد ان کی کھال تک اتارنے کی منصوبہ بندی کرتے نظر آتے ہیں۔ تیل اور گیس کے ساتھ بجلی کی قیمتوں میں بھی آئے روز اس تیزی سے اضافہ کر دیتے ہیں جس تیزی سے بجلی کے چائنہ سے منگوائے گئے میٹرز چلتے ہیں۔ ابھی حکمرانوں کا اس کام سے دل نہیں بھرا ہر ماہ فی یونٹ بجلی کی قیمت مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ اب پھر آئی ایم ایف کے معاہدے کے نفاذ سے قبل چند روز میں دو روپے 60 پیسے قیمت بڑھنے کا امکان ہے۔ یہ تو کم ہے۔ اس کے بعد آئی ایم ایف سے معاہدے کی روشنی میں جو بجلی تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا اس کے بوجھ سے عوام کی چیخیں نکلنے کی سکت بھی ختم ہو جائے گی اور وہ بمشکل ہچکیاں لیتے نظر آئیں گے۔
٭٭٭٭٭
امریکہ نے چاہ بہار کو پابندیوں سے مستثیٰ قرار دیدیا
یہ امریکہ کی دوغلی پالیسی کی انتہا ہے۔ بھارت کی پاکستان سے دشمنی کو جانتے ہوئے بھی بھارت نوازی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔ امریکہ نے ایران سے بدترین محاذ آرائی کے ماحول میں بھی اپنے پیارے بھارت کو چاہ بہار بندرگاہ میں کام کرنے کی کھلی چھٹی دیدی۔ اس بندر گاہ کا واضح مقصد گوادر سی پورٹ کے منصوبے کو خراب کرنا ہے۔ مگر …؎
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
بھارت اور امریکہ کی تمام ریشہ دوانیوں اور بھارت کی پاکستان دشمن پالیسیوں کے باوجود چاہ بہار پر خزاں کی کیفیت طاری ہے جبکہ گوادر سی پورٹ نہایت کامیابی سے اپنا سفر طے کر رہا ہے۔ یہ کیسی بات ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ ایران کی مکمل ناکہ بندی کی دھمکیاں دیتے پھرتے ہیں۔ مگر چاہ بہار کی بندر گاہ کو بھارت کیلئے جائے امان قرار دے رہے ہیں۔ کیا یہ بھارت اور امریکہ کی پاکستان کے خلاف ملی بھگت نہیں کہ دونوں کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کو زچ کرنا‘ نقصان پہنچانا ہے۔ چاہ بہار کو افغانستان کی اپیل پر افغانیوں سے امریکی محبت کی وجہ سے ملنے والا استثنیٰ بتا رہا ہے کہ…؎
شرارتیوں کے تین نشان
امریکہ بھارت افغانستان
ہی ہیں۔
٭٭٭٭
بھارتی پائلٹ ابھی نندن کا کشمیر سے راجستھان تبادلہ
اب اس بے چارے کو کشمیر کی جنت سے نکال کرراجستھان کے جہنم میں دھکیلا جائے یا وارنسی کے شمشان گھاٹ پر اس کی ڈیوٹی لگائی جائے۔ اس سے اس کی ذات شریف پر کوئی اثرنہیں ہو گا۔ مودی سرکار اپنی غلط حرکتوں کی ناکامی کی سزا اس بے چارے فوجی کو دینے پر تلی ہوئی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بھارتی فوج کو کیا ہو گیا ہے۔ وہ کیوں اپنے سورما کی توہین پر خاموش ہے۔ غلط ناکام منصوبہ بنایا مودی نے جو بنگلہ دیش بنانے کے اعتراف کی طرح اس منصوبہ سازی کا تمغہ بھی سینے پر سجا رہے ہیں۔ فوج نہیں تو کم از کم فضائیہ والے ہی ان سے پوچھیں کہ مہاشے آپ کی وجہ سے ہمارے دو جہاز تباہ ہوئے ایک افسر جنگی قیدی بنا تو آپ کو سزا کے طور پر وزارت عظمیٰ سے برطرف کیوں نہیں کیا جاتا۔ سزا تو آپ کو ملنی چاہئے۔ مگر وہ کہتے ہیں ناں ہمیشہ کمزور ہی مارا جاتا ہے۔ سو یہاں بھی وہی کچھ ہو رہا ہے۔ ابھی نندن کو اب راجستھان جا کر پتہ چلے گا کہ جنت کشمیر کی خوشگوار آب و ہوا سے نکل کر ان گرم مہینوں میں جہنم جیسے گرم صحرائی علاقے میں ڈیوٹی دینا کیا ہوتا ہے۔ سوچے گا تو وہ یہ بھی کہ یہ کیسا انیائے ہے کہ کرتا کوئی ہے بھرتا کوئی ہے۔
٭٭٭٭٭