روٹی کپڑا اور مکان انسان کا وہ مطالبہ ہے جس سے کوئی بھی طبقہ مبرا نہیں۔ یہ تمام چیزیں تو ایک جانور کو بھی چاہئیں ہوتی ہیں، انسان تو پھر معاشرتی جانور ہے یہ تمام چیزیں اس کی بنیادی ضروریات ہیں، انسان ان کیلئے ہی دن رات تگ ودو کرتاہے، جب یہ چیزیں مہذبانہ طریقے سے حاصل نہیں ہوتیں تو جرم کرنے پہ اتر آتاہے، تن ڈھانپنے کیلئے اگر کپڑا نہیں ملتا تو یہ دوسروں کے کپڑے اتارنے لگ جاتاہے کھانے کو روٹی نہیں ملتی تو دوسروں کے منہ کا نوالہ نوچ لیتاہے اور مکان نہیں ملتا تو دوسروں کے گھروں کو مسمار کرنے لگتاہے۔ یہ تینوں چیزیں اسباب پر منحصر ہیں۔یہاں کا طبقاتی نظام بھی انسانوں کے روٹی کپڑے اور مکان کے ہونے یا نہ ہونے کی بہت بڑی مثال ہے، شعور کی بیداری تو علم کے سمندر میں غوطہ زن ہونے سے ہوتی ہے، ہمارے اطراف میں کھڑے محلات ریشم کے ستاروں سے بنے لباس اور سنہری گندم سے گندھی ہوئی آٹے کی چنگیر حاصل کرنے کیلئے انسان اپنے دماغ سے کم اور پیٹ سے زیادہ سوچتا ہے جس کی بنا پہ وہ مادہ پرستی کی طرف مائل ہوجاتاہے۔بھوک مٹائو پروگرا م کا نعرہ سندھ کی سرزمین میں لگنے لگا تویہاں کے باسیوں کو امید بندھی، کہ اب رات کو ہمارے بچے بھوکے نہیں سوئیں گے، لیکن یہ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ اس نعرے کے پیچھے بھوک مٹائو کا اصل مقصد کرپشن بڑھائو کی ترغیب دینا تھی، اس لیے یہ نعرہ جلد دفن ہوگیا، ہمارے معاشرے میں محنت کش مزدوروں کو عزت کا وہ مقام حاصل نہیںجو ان کا حق بنتاہے وہ ایک دربدر مخلوق کی طرح سے ہمیں سڑکوں، جھگیوں پل کے نیچے ڈیرے ڈالے نظر آتے ہیں حالانکہ ہمارے رہنے کو گھر بنانے والے یہی محنت کش افراد ہیں۔جو بھی حکومت آتی ہے اپنے طور پہ غریب عوام کو چھت دینے کی کوشش کرتی ہے، مختلف ہائوسنگ سکیم کے تحت ان کے خدشات کو دور کرکے چھوٹے اور قابل رہائش گھروں کی تعمیر کرنے کے منصوبے بناتی ہے مگر المیہ یہ ہے کہ برسہابرس پلاٹوں کی قسطیں دینے والوں کو قبضہ نہیں ملتا،نشاندہی ہی نہیں ہوتی، غریب عوام اپنی ساری جمع پونجی خرچ کردیتے ہیں مگر جب چھت لینے کا وقت قریب آتاہے تو کہیں نہ کہیں دھوکہ دہی کی واردات سامنے آجاتی ہے ، ہائوسنگ سوسائٹیز کا کیس عدالت میں چلاجاتاہے کوئیStayلے لیتاہے اس تمام کارروائی میں مالکان کے خرچے نہ کم ہوتے ہیں نہ ان کی آمدن پہ کوئی منفی اثر پڑتاہے، ہر شہر کے مضافات میں ایسی بے شمار اسکیمز چل رہی ہیں اور بھولی عوام خود کو دھوکہ دینے میں ہمیشہ سے پیش پیش رہی ہے، چراغ تلے اندھیرے کی مثال تو بہت مشہور ہے مزدور بھی اسی مثال کے زیر بار آتاہے اینٹوں اور گارے سے اپنے پسینہ ملاکر جو مکان تعمیر کرتاہے وہ اس کے نصیب میں نہیں ہوتا۔مگر سنا یہ جاتاہے کہ جہاں اس دنیا میں دھوکہ ملتاہے وہاں کوئی ایسا بھی مل جاتاہے جو انسانیت کے معیارپر پورا اترتا ہے۔
زندگی کے سفر میں ایک تبدیلی کا سفر بے گھر افراد کیلئے اپنے گھر کا منصوبہ سامنے آیا ہے یہ منصوبہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے منظر عام پہ آیا ہے، پنجاب میں نیا پاکستان ہائوسنگ پروگرام کے فیزIکا آغاز رینالہ خورد میں ہوچکاہے جس میں کہنے کے مطابق31دسمبر تک1لاکھ50ہزار گھروں کا تعمیراتی کام شروع کردیاجائے گا اسی حوالے سے عیدالفطر کے بعد اس کی درخواستیں لینے کا کام بھی شروع ہوجائے گا، اس کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر کے تعاون سے رواں سال میں تین لاکھ سے زائد گھروں کی تعمیر کا آغاز پنجاب ہائوسنگ اینڈ ٹائون پلاننگ افورڈایبل ہائوسنگ رولز کی حتمی منظوری کے بعد کردیاجائے گا۔نیا پاکستان ہائوسنگ پروگرام کم آمدنی والے خاندانوں کیلئے بنایاگیاہے، کسی بھی ہائوسنگ سکیم کی منصوبہ بندی کرنے والوں کیلئے چند تجاویز پیش کرنا چاہتی ہوں کیونکہ کم آمدنی والے حضرات کیسے ممکن ہے کہ بے روزگار نہیں ہونگے، یہاں تو رات کو شہنشاہ سوتا ہے تو صبح فقیر ہوچکا ہوتاہے، نوکری ایک دھوکہ اور سزا ہوکے رہ گئی ہے، کب اسے چھوڑنا پڑے یا چھڑا دی جائے، کسے معلوم ایسے میں احتیاط جتنی بھی آسان ہوں وہ ایک وقت کی روٹی کے مقابل نہیں آسکتیں۔ غریب اور مفلوک الحال لوگوں کویقینی طور پر گھر نصیب ہو اور ان کا روٹی کپڑا اور علاج بھی دائو پر نہ لگے۔اس کیلئے ہم نیا پاکستان ہائوسنگ سکیم کو خوش آمدید کہتے ہیں۔حکومتی سطح ہائوسنگ پراجیکٹ کو اس نقطہ نظر سے شروع کرنا چاہیے کہ نئے شہر آباد ہوں نہ کہ پہلے سے موجود شہروں پر اضافی بوجھ ڈالاجائے، ان ہائوسنگ پراجیکٹس میں صحت، تعلیم، پینے کے صاف پانی اور کھیلوں کی سہولت جیسی بنیادی ضروریات کا لازمی طور پر خیال رکھاجائے۔پہلے مرحلے میں ہائوسنگ پراجیکٹس صرف ان لوگوں کیلئے ہونے چاہئیں جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ان ہائوسنگ پراجیکٹس کے تحت تعمیر ہونے والے گھر صرف میرٹ کی بنیاد پر الاٹ کئے جائیں تاکہ عوام کا ایسے منصوبہ پہ اعتماد بحال ہو۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024