سیاسی ماحول میں آگ بھڑک رہی ہے کیوں نہ آج ایک خوش کن تجربے کا ذکر کروں۔ اور ایک خوشگوار شخصیت سے ا ٓپ کا تعارف کرائوں۔
میںنے خادم اعلی شہباز شریف کو ٹی وی چینل پر یہ کہتے سنا کہ اب صوبے کے کسی شہری کو فرد کے حصول کے لئے پٹواری اور تحصیل دار کی حاجت نہیں اور نہ انہیں لاکھوں کی رشوت دینا پڑتی ہے، اب ان کی حکومت نے ایک نظام وضع کر دیا ہے اور آن لائن مراکز قائم کر دیئے ہیں جہاں چند منٹوں کے اندرمعمولی فیس کے عوض آپ اپنی زرعی زمین کی فرد ملکیت حاصل کر سکتے ہیں، وہیں وراثت کا انتقال کرا سکتے ہیں اور وہیں اپنی زمین کسی گاہک کو فروخت کر سکتے ہیں، یہ سارا نظام کمپیوٹرائزڈ ہے۔
میں نے لاہور شہر کو کئی ماہ پہلے جگہ جگہ سے کھدا ہوا دیکھا، تو بڑا پریشان ہوا، پتہ چلا کہ یہ سیف سٹی کا منصوبہ ہے اور پورے شہر کی سڑکوں حتی کہ گلیوں میں بھی کیمرے نصب کر دیئے جائیں گے۔
میں نے ساری عمر پٹواری کی شکل نہیں دیکھی، نہ مجھے یہ پتہ ہے کہ میرے علاقے کا پٹواری کہاں براجمان ہے اور نہ میرے پاس اسے رشوت دینے کے لئے لاکھوں روپے تھے۔ میں ایک دن قصور گیا، وہاں ایک دفتر میں پہنچا جہاں سے فرد ملکیت مل سکتی تھی، ایک ٹوکن لیا، باری آنے پر ساڑھے چار سو روپے ادا کئے اور اگلے ہی لمحے مجھے فرد کی کی نقل مل چکی تھی۔ یہ معجزہ تھا اور اکہتر برس بعد میرے دیکھنے میں آیا۔
لاہور شہر میں مجھے جیل روڈ، فیروز پور روڈ، گلبرگ روڈ اور ان کے نواح میں آنے جانے کا موقع ملتا ہے، اب کیا دیکھتا ہوں کہ یہاں قدم قدم پر کیمرے نصب ہیں اور میڈیا کی اطلاعات یہ ہیں کہ آئندہ ای چالان ہوا کرے گا، آپ نے ٹریفک کی خلاف ورزی کی تو چالان کی پرچی آپ کے گھر پہنچ جائے گی، کسی ٹریفک سارجنٹ سے آپ کا ویسا جھگڑا نہیں ہو گا جیسا عمر اکمل نے کیا۔ ٹی وی چینلز پر کسی حادثے کی خبر چلتی ہے تو تھوڑی دیر بعد حادثے کا پورا منظر سی سی ٹی وی کیمرے کی وڈیو کی شکل میں دکھا دیا جاتا ہے۔
یہ ٹیکنالوجی کے انقلاب کی طرف چند بڑے قدم ہیں۔
مگر ان کے پیچھے کون ہے۔ کوئی بل گیٹس ، کوئی مارک ذکر برگ، کوئی لیری پیج ، کوئی اسٹیو جابس، کوئی تو ہو گا، ظاہر ہے پاکستان میں جوہر قابل کی کوئی کمی تو نہیں۔ میرے گھر کے قریب ایک بلند و بالا ٹاور ہے، جب اس کی بنیادیں کھودی جا رہی تھیں تو تب میںنے اس کے نواح میں اپنے بیٹے کے گھر کی تعمیر شروع کی، میں حیران تھا کہ یہ ٹاور تیزی سے مکمل ہو رہا تھا اور اب تو ا سکی چکا چوند سے آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں، اللہ اسے نظر بد سے محفوظ رکھے، یہ ڈاکٹر عمر سیف کا ہیڈ کوارٹر ہے جس نے پنجاب کو سیلی کون ویلی اور بنگلور کے ہم پلہ بنا دیا ہے۔میں خود اٹھانوے سے ٹیکنالوجی استعمال کر رہا ہوں مگر اب ٹیکنالوجی مجھ سے کہیں آگے نکل گئی ہے اور میں اس کے سامنے ا پنے آپ کو طفل مکتب سمجھتا ہوں ، بلکہ بونا دکھائی دیتا ہوں، میں عمر سیف نہ بن سکا ، عمر سیف جست پہ جست لگاتا رہا اور وقت اس سے پیچھے رہ گیا، اس نے پنجاب کو مستقبل میں داخل کر دیا۔
میں جیسے جیسے کھوج لگاتا گیا ویسے ویسے مجھ پر ڈاکٹر عمر سیف کے کمالات آشکار ہوتے گئے۔ ان کی کرشماتی شخصیت اور مہارتوں کے چرچے تو سنے تھے لیکن جب خود تحقیق کی تو اندازوں سے کہیں بڑھ کر پایا۔کون سا شعبہ ایسا ہے جہاں اس نوجوان نے انقلاب برپا نہیں کیا۔ تعلیم کو ہی لے لیں۔ پنجاب میں کبھی گھوسٹ سکولوں کا بڑا چرچا ہوتا تھا۔ ڈاکٹر عمر سیف نے یہ مسئلہ بھی حل کر دیا۔ یہ اتنا مشکل کام تھا جو الہ دین کے چراغ کے بغیر ممکن نہیں تھا لیکن ڈاکٹر عمر سیف نے بہر حال یہ بھی کر دکھایا۔
صحت کے شعبے میں ڈاکٹر عمر سیف کے کرشمے بھی دیکھ لیں۔ شہروں میں تو پھر صحت کی سہولیات میسر ہیں اصل مسئلہ تحصیل یا ڈسٹرکٹ ہسپتالوں ‘ رورل ہیلتھ سنٹرز اور صحت کے بنیادی مراکزکا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ پولیو کا خاتمہ بھی ایک چیلنج تھا جو پوری دنیا میں ختم ہو چکا لیکن ہمارے ہاں باقی ہے۔ پولیو اور دیگر بیماریوں مثلاً خسرے وغیرہ کی حفاظتی ویکسی نیشن کا ڈیٹا ریکارڈ کرنے کیلئے ایک موبائل سافٹ ویئر ایپ بنائی گئی جس کے تحت یہ 3751موبائل ویکسین دینے والے افراد سمارٹ فون لے کر گھروں میں جاتے ہیں اور پولیو کے قطرے پلاتے ہیں‘ انجکشنز لگاتے ہیں اور وہاں سے جی پی ایس کی مدد سے اپنی پوزیشن‘ بچوں کا ڈیٹا ریکارڈ اپ لوڈ کرتے ہیں تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ کون کون سا علاقہ پولیو اور دیگر بیماریوں سے پاک ہوتا جا رہا ہے ۔ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق اس سسٹم کی وجہ سے پولیو ویکسی نیشن کی کوریج پنجاب کے اٹھارہ فیصد علاقوں سے بڑھ کر 88فیصد ہو چکی ہے۔اس سسٹم کی کامیابی دیکھ کر خیبرپختونخوا نے بھی ڈاکٹر عمر سیف سے رابطہ کیا اور اب یہی سسٹم پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ نے خیبرپختونخوا کو بھی فراہم کر دیا ہے۔جس کے بعد اسی نظام کے تحت خیبرپختونخوا میں ویکسی نیشن کوریج بڑھ کر 73فیصد ہو گئی ہے۔ بلوچستان نے رابطہ کیا تو انہیں بھی یہی سسٹم پنجاب آئی ٹی بورڈ نے بلا معاوضہ فراہم کر دیا۔
ایک شعبہ جس نے مجھے ایک دیہاتی ہونے کی حیثیت سے حیران کر دیا، وہ پٹواری سسٹم سے نجات ہے ۔ اب تک پانچ کروڑ ستر لاکھ دیہی اراضی کے مالکان کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کیا جا چکا ہے۔ 151لینڈ ریکارڈ سنٹر ز میں جا کر آپ ٹوکن لے کر چند ہی منٹوں میں فرد حاصل کر سکتے ہیں۔ نئے سسٹم کے تحت قانون گو‘ پٹواری اور تحصیل دار وغیرہ کا کردار ختم کر دیا گیاہے۔ یہ بھی خبر ہے کہ بہت جلد نادرا اور پنجاب بینک کے تعاون سے ایسانظام آ جائے گا کہ گھر بیٹھے انٹرنیٹ سے بھی فرد حاصل کی جا سکے گی۔ ڈاکٹر عمر سیف کا چوتھا بڑا کارنامہ پولیس اور امن عامہ کے شعبوں میں ٹیکنالوجی کے استعمال سے بہتری لانا تھا۔ پنجاب کے تمام سات سو چودہ تھانوں میں فرنٹ ڈیسک بنائے گئے جہاں کمپیوٹرائزڈ ایف آئی آر درج کی جاتی ہے۔ نئے نظام کے تحت اب تک سترہ لاکھ ایف آئی آرز درج ہو چکی ہیں۔اندراج کے بعد اس میں ردوبدل ممکن نہیں‘ روزنامچہ بھی نہیں رکوایا جا سکتا‘ ضمنی میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ عجیب بات ہے کہ یہ سارے کام جو پی آئی ٹی بی پنجاب میں ڈاکٹر عمر سیف کی نگرانی میں کر رہی ہے یہ سارے کام آئی ٹی کی وفاقی وزارت کو کرنے چاہئیں تھے۔ لیکن مجھے تو یہ سن کر بھی حیرانی ہوئی کہ حج کا مانیٹرنگ نظام بھی پنجاب آئی ٹی بورڈ نے وفاق کو بنا کر دیا ہے۔ چند سال قبل حج انتظامات میں کرپشن اور بدانتظامی اس قدر عروج پر تھی کہ وفاقی وزیر مذہبی امور حامد سعید کاظمی کو جیل کی یاترا کرنا پڑی۔ آج وہی نظام ڈاکٹر عمر سیف نے اس قدر فول پروف کر دیا ہے کہ گزشتہ تین چار برسوں سے حج آپریشنز میں کرپشن تو دور کی بات ہے، معمولی سی بدانتظامی دیکھنے یا سننے کو نہیں ملتی۔ اسی طرح پنجاب میں سیف سٹی میں پی آئی ٹی بی نے جو کردار ادا کیا اس کے تحت دبئی پولیس بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی اور ڈاکٹر عمر سیف نے دبئی میں سکیورٹی نظام کے نفاذ کے لئے بھی اپنی خدمات فراہم کیں۔اسے ہم معجزہ کہیں یا انقلاب کہ پی آئی ٹی بی ملک کے چاروں صوبوں‘ وفاق‘ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت دنیا کے سات ممالک کو آئی ٹی کی جدید سروسز فراہم کر رہی ہے اور اس کا سہرا اس نوجوان ڈاکٹر عمر سیف کو جاتا ہے جس نے تئیس سال کی عمر میں پی ایچ ڈی مکمل کی‘ جسے آج بھی گوگل دبئی سے کروڑوں روپے ماہانہ تنخواہ کی آفر ہے لیکن اس پر وطن کی خدمت کا جنون سوار ہے‘ جسے گزشتہ دنوں دنیا کے امیر ترین انسان بل گیٹس نے دنیا کی پانچ بہترین ٹیکنالوجی ایکسپرٹس کی فہرست میں رکھا اور امریکہ بلا کر ساڑھے آٹھ گھنٹے ملاقات کی اور پاکستان میں مفادعامہ کے منصوبوں میں ٹیکنالوجی کے استعمال پر اس کی ستائش کی‘ اس نوجوان نے پنجاب میں ای روز گار شروع کیا جس کے تحت لاکھوں مرد وخواتین اور طلبا گھروں میں بیٹھے آن لائن روزانہ دس سے سو ڈالر کما رہے ہیں‘ جس نے بہترین آئی ٹی یونیورسٹی بنائی‘ جس نے ای سٹامپ پیپر بنا کر سارا جھنجٹ ہی ختم کر دیا‘ جو بطور پی آئی ٹی بی چیئرمین کوئی تنخواہ تک نہیں لے رہا‘ جس کو پاکستان کی پہلی یونیسکو چیئر کے لئے منتخب کیا گیا‘ جو دنیا کے پانچ سو بااثر شخصیات میں شامل ہے اور جب مجھے پتہ چلا کہ یہ نوجوان ایک فوجی کا بیٹا ہے تو میں سمجھ گیا کہ اسے ڈسپلن کا سبق تو گھر سے ہی مل گیا‘ باقی رہی اعلیٰ تعلیم اور عملی میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنے کی بات تو اللہ ہر اس انسان کی مدد کرتا ہے جس کی نیت خالص اور جو محنت میں طاق ہو‘ وزیراعلیٰ شہباز شریف کو بھی داد دینا پڑے گی کہ ان جیسے جوہری نے اس نایاب ہیرے کو بروقت پہچان لیا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38