بدھ ‘ 29؍ شعبان المعظم‘ 1439 ھ ‘ 16؍ مئی 2018ء
سعودی عرب میں گدھے سمگل کرنے والا پاکستانی ڈرائیور گرفتار
یہ ہے نہ گدھوں والی حرکت۔ سعودی عرب میں سمگلنگ‘ وہ بھی گدھوں کی۔ وہاں سے کوئی سونا‘ ریال اور پٹرول سمگل کرے تو بھی کوئی بات بنے‘ عزت برقرار ہے۔ یہ گدھوں والی حرکت کرکے بدنامی کمانا کتنے افسوس کی بات ہے۔ اس پاکستانی گدھے یعنی ڈرائیور کو سعودی عرب کی پولیس نے صحرا میں سفر کرتے ہوئے شک کی بنیاد پر روکا تو اس کی گاڑی سے 14 گدھے اور 3 یمنی برآمد ہوئے۔ بھلا گدھوں اور یمنیوں کا کوئی جوڑ ہے۔ اگر ہے تو یہ ڈرائیور جانتا ہوگا یا پھر سفر کرنے والے یمنی۔ یہ تینوں یمنی بنا کسی سفری دستاویز کے سفر کر رہے تھے ان گدھوں کے ساتھ۔ اب سعودی پولیس گدھے سمگل کرنے کے معاملے میں اس پاکستانی ڈرائیور کے ساتھ کچھ رعایت کر سکتی تھی ‘ اسے معاف بھی کر سکتی تھی یا یہ ڈرائیور کہہ سکتا تھا کہ بے زبان جانور صحرا میں بھٹک رہے تھے میں نے ازراہ ہمدردی انہیں بھوک و پیاس سے بچانے کیلئے گاڑی میں لفٹ دی تاکہ کسی قریبی شہر‘ دیہات میں جا کر چھوڑ دوں۔
سعودی پولیس اس پر یقین بھی کر لیتی مگر یہ جو 3 عدد یمنی باشندے بھی گاڑی میں ان گدھوں کے شریک سفر تھے‘ ان کے حوالے سے تو سعودی عرب اس ڈرائیور اور ان تینوں یمنیوں کو باقاعدہ گدھا بھی بنا سکتی ہے اور ان کا حال گدھوں والا بھی کر سکتی ہے۔ اس وقت یمن اور سعودی عرب میں جنگ ہورہی ہے۔ سعود ی عرب والے ویسے بھی اپنے دشمنوں یا دشمنوں کے ساتھ کھڑا ہونے والوں کو معاف نہیں کرتے۔ پاکستان کو اس کا تجربہ بھی فوج نہ بھجوانے کے حوالے سے۔
٭…٭…٭
پنجاب اور بلوچستان کا بجٹ خواتین نے پیش کیا
صنف نازک کے حوالے سے ہمارے روایتی معاشرے میں لاکھوں نقائص پائے جاتے ہیں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ آج ہمارا معاشرہ بہت تیزی سے بدل رہا ہے۔ حالات اصلاح کی طرف جا رہے ہیں۔ عورتوں کے حقوق‘ تعلیم‘ سماجی رتبے ‘خاندانی و وراثتی معاملات میں انہیں جو رعاتیں مل رہی ہیں‘ آج سے کچھ عرصہ قبل تک اس کا تصور بھی نہیں تھا۔ ہماری اسمبلیوں میں بھی خواتین کی متاثرکن تعداد بطور ممبران منتخب ہوکر آتی ہے ۔ یہ جس منظم اور مؤثر انداز میں اپنے حقوق کیلئے ملک و قوم کی ترقی کیلئے کام کر رہی ہیں وہ بھی متاثرکن ہے۔ گزشہ روز پنجاب اور بلوچستان اسمبلی میں صوبائی بجٹ پیش ہوئے۔ بلوچستان کا بجٹ رکن اسمبلی کوئٹہ کی ممتاز سیاسی شخصیت سعید ہاشمی کی اہلیہ رقیہ ہاشمی نے پیش کیا۔ ان کی قسمت اچھی تھی کہ مفاہمت اور بلوچستان حقوق کی ہم آہنگی کی بدولت وہاں حکمران جماعت اور اپوزیشن والوں نے بجٹ اجلاس میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور ایوان میں سناٹے جیسی سی خاموشی کے ساتھ بل پیش ہوا۔ اس کے مقابلے میں پنجاب اسمبلی میںسیاستدان خاتون باہمت وزیرخزانہ عائشہ غوث نے ایوان میں جن حالات میں بجٹ پیش کیا‘ وہ سبزی منڈی یا مچھلی منڈی کا مقابلہ کرنے کے مترادف تھا۔ اپوزیشن کے شور شرابے‘ نعرے بازی کے سامنے حواس برقرار رکھنا اور دقیق قسم کا حسابی بجٹ پڑھنا دل گردے کی بات ہے ورنہ ایسے ماحول میں تو مردوں کے بھی پسینے چھوٹتے ہیں۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ دونوں خواتین نے نہایت سرد اور نہایت گرم ماحول میں بجٹ پیش کرکے اپنی اپنی قابلیت کا لوہا منوا لیا۔
٭…٭…٭
زندگی بھر کیلئے جسم میں گولی لے جا رہا ہوں: احسن اقبال
یہ تو قسمت کی بات ہے حضور! کسی کو سینے پر تمغہ نصیب ہوتا ہے‘ کسی کو سر پر تاج اور کسی کو دار و رسن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ احسن اقبال صاحب وہ خوش نصیب ہیں جو جسم میں گولی کا اعزاز لئے ہوئے ہیں اور بفضل خدا تیزی سے صحت یاب ہو رہے ہیں۔ بس اب خداکرے وہ عوام کو یا کسی اور کو کوئی گولی نہ دیں۔ سیاستدان کیلئے عام طورپر گولی دینے کا محاورہ استعمال ہوتا ہے مگر احسن اقبال کہہ سکتے ہیں وہ گولی دیتے نہیں‘ گولی کھاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں انہیں دودھ پینے والا نہیں‘ خون دینے والا مجنوں کہہ سکتے ہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ انہوں نے اپنے محبوب کیلئے گولی نہیں کھائی‘ انہیں انتقاماً گولی کا نشانہ بنایا گیا۔ قربانیاں دینے والے پاکستانی سیاستدانوں کا معدودے چند ہی شمار قطار ہے۔ خاص طورپرمسلم لیگ (ن) والوں کے بارے میں اس حوالے سے اچھی رائے نہیں ملتی۔ یہاں دودھ پینے والے مجنوںاکثریت میں ہیں جو اقتدار کا تالاب خشک ہونے پر بگلے کی طرح دوسرے پانی سے بھرے تالابوں کا رخ کرتے ہیں کیونکہ انہیں ہر وقت پانی سے بھرا اقتدار کا تالاب درکار ہوتا ہے۔ کاش ہماے سیاستدان بھی ’’وفاداری بشرط استواری‘‘ کا فلسفہ یاد رکھیں۔ احسن اقبال صاحب نے تو یہ رشتہ استوار کر لیا ہے جو امید ہے کبھی نہیں ٹوٹے گا۔ یہ جسم کے اندرگولی ان کی اپنی پارٹی سے وفاداری ان کو ہمیشہ یاد دلاتی رہے گی۔
٭…٭…٭
سٹریٹ چلڈرن ورلڈفٹبال میں پاکستانی ٹیم فائنل میں پہنچ گئی
سٹریٹ چلڈرن سے مراد وہ یتیم بچے ہیں جو معاشی بدحالی کا شکار خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ بچے ہر کسی کی توجہ سے محروم ہونے کی وجہ سے اپنی گلیوں میں گھومتے پھرتے‘ کھیلتے رہتے ہیں۔ پھٹی شرٹ‘ ادھڑی نیکر‘ ٹوٹی چپل پہنے یہ بچے ہمیں ہر شہر اور دیہات میں نظر آتے ہیں۔ اگر ان کی حالت پر ذرا سی توجہ دی جائے تو ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘
ایسے ہی بچوں کی کھیلوں میں دلچسپی دیکھ کر‘ مہارت دیکھ کر دنیا بھر کی طرح پاکستان میں سٹریٹ چلڈرن فٹبال کا تجربہ کیا گیا تو یہ تجربہ کرنے والوں کی توقعات سے بھی بہتر نکلا۔ سب سے پہلے تو قابل تحسین ہیں وہ لوگ جنہوں نے یہ خواب دیکھا اور اس کی تعبیر کیلئے کام کیا۔ پاکستان میں ایسے بچوں کی ٹیم نے جس محنت سے تیاری کی‘ اس کا صلہ اسے مل رہا ہے۔ پچھلے سٹریٹ چلڈرن ورلڈکپ میں بھی پاکستانی بچوں کی کارکردگی بہتر رہی۔ اب ایک بار پھر وہ فائنل تک پہنچ گئے ہیں۔ سیمی فائنل میں ان بچوں نے انڈونیشیا کی ٹیم کو سخت مقابلے کے بعد ہرایا اور اب ماسکو فائنل میں ان کا مقابلہ ازبکستان کی ٹیم سے ہوگا۔ امید ہے پاکستانی بچے فائنل میں بھی مخالف ٹیم کو اچھا سبق ازبر کرا دیں گے اور یہ ٹرافی جیت کر ملک و قوم کا نام روشن کریں گے۔
٭…٭…٭