نواز شریف نے اکتوبر 1999 ء کے بعد دل میں یہ بات رکھ لی ہے کہ سویلین حکومتوں کو ’’خلائی مخلوق‘‘ جو پاکستان کی فوج کا انہوں نے دوسرا نام رکھا ہے۔ پاکستان میں حکومت نہیں کرنے دیتی۔ تاریخ کو دیکھا جائے تو نواز شریف اپنی روایتی سیاسی حریف بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ یا فوج کے بلیو آئیڈ بوائے رہے ہیں۔ 1990 ء میں انہیں بے نظیر کی حکومت کو آرٹیکل (2) 58 بی کے تحت گھر بھجوانے کے بعد ملک کا وزیراعظم اسٹیبلشمنٹ نے بنوایا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ 1990 ء سے 1993 ء تک کی مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور فوج کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں۔ جنرل اسلم بیگ اور اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے درمیان دوسرے امور کے علاوہ خلیج کی جنگ میں فوج بھیجنے کے معاملے پر اختلافات پیدا ہوئے۔ یہ اختلافات بڑھتے چلے گئے۔ ان اختلافات کے پیش نظر یہ قیاس آرائیاں بھی ہونے لگیں کہ جنرل بیگ ملک میں مارشل لاء لگانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ اس پس منظر میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے جنرل اسلم بیگ کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ سے تین ماہ قبل جنرل آصف نواز کو نیا آرمی چیف نامزد کر دیا تھا۔
جنرل آصف نواز آرمی چیف بنے تو چند ماہ بعد ہی ان کے اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان بوجوہ تعلقات اچھے نہ رہ سکے۔ وزیراعظم اور آرمی چیف میں تعلقات میں کشیدگی کی چند وجوہ کا جنرل آصف نواز کے بھائی شجاع نواز جو آج کل امریکہ میں مقیم ہیں اپنی کتاب میں تذکرہ بھی کیا ہے۔جنرل آصف نواز دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہو گئے تو نئے آرمی چیف کی تقرری کے معاملے پر اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان تعلقات خوشگوار نہ رہ سکے۔ نواز شریف نے بطور وزیراعظم جن تین جرنیلوں کے نام آرمی چیف کی تقرری کے لئے تجویز کئے تھے ان میں سے صدر اسحاق نے کسی کو بھی آرمی چیف مقرر نہ کیا۔ جنرل وحید کاکڑ جو کوئٹہ کے کور کمانڈر تھے۔ آرمی چیف بنا دیئے گئے نواز شریف اور جنرل کاکڑ کے ورکنگ ریلیشنز بہتر نہ ہو سکے۔ 1992 ء کے آخر میں بے نظیر بھٹو اور اپوزیشن کے دوسرے لیڈروں نے جن میں پنجاب اور سرحد کے وزرائے اعلیٰ بھی شامل تھے۔ نواز شریف حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کر دیا تھا۔ سیاسی کشیدگی بڑھتی گئی فوج نے مداخلت کر کے صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نواز شریف سے استعفی لے لئے اور ملک میں اکتوبر 1993 ء میں نئے انتخابات کا اعلان کر دیا۔ بے نظیر بھٹو ایک مرتبہ پھر اسٹیبلشمنٹ کی پس پردہ حمایت کے ساتھ وزیراعظم بنیں لیکن ان کے شوہر نامدار آصف علی زرداری پر بدعنوانی کے الزامات لگنا شروع ہوئے۔ حکمران جوڑے بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری پر سرے محل کی ناجائز رقم سے خریداری اور کئی دوسرے سکینڈل سامنے آئے۔ پی پی پی کے اپنے صدر فاروق خان لغاری نے بے نظیر حکومت کو ڈس مس کر دیا۔ فروری 1997 ء کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی پھر نواز شریف سے ڈیل ہو گئی۔ فروری 1997 ء میں نواز شریف وزیراعظم بن گئے۔ 1997 ء سے 1999 ء تک کے عرصہ میں جنرل جہانگیر کرامت سے وزیراعظم نواز شریف نے استعفیٰ لے لیا اور جنرل پرویز مشرف کو نیا آرمی چیف مقرر کر دیا۔ اس عرصہ میں کارگل کی جنگ ہوئی۔اس جنگ سے فوج اور نواز شریف حکومت میں پھر غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔ 12 اکتوبر 1999 کو فوج نے ٹیک اوور کر لیا۔
طویل جلاوطنی کے بعد نواز شریف واپس وطن آئے تو انہوں نے 2013 کے انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کی لیکن شاید وہ دل سے یہ بات نہ نکال پائے کہ فوج نے انہیں اقتدار سے محروم کیا اور انہیں دس سال تک جلاوطن رہنا پڑا۔ ایک مرتبہ پھر اس فوج کا سربراہ مقرر کرنے کا موقع ان کے حصے میں آیا۔ توقع تھی کہ نواز شریف اور جنرل راحیل ایک ہی پیج پر رہیں گے لیکن یہ توقع پوری نہیں ہوئی۔ دونوں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔ جنرل راحیل شریف ریٹائر ہو کر سعودی عرب چلے گئے۔ نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی وزیراعظم نواز شریف نے ہی آرمی چیف مقررکیا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ نواز شریف کو سپریم کورٹ اسمبلی کی رکنیت اور پارٹی کی صدارت کے لئے پانامہ کیس میں نااہل قرار دے چکی ہے۔ ان کے اور ان کے خاندان کے خلاف نیب عدالتوں میں مقدمات چل رہے ہیں۔
سابق وزیراعظم کا بیانیہ یہ ہے کہ انہیں ایک سازش کے تحت وزارت عظمیٰ سے الگ کیا گیا ہے وہ جو عام جلسوں اور پارٹی کے لیڈروں سے کہہ رہے ہیں اس کا لب لباب یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے درمیان ان کے خلاف ایکا ہو گیا ہے اور نہ صرف انہیں وزارت عظمیٰ سے الگ کیا گیا ہے بلکہ انہیں سیاست میں حصہ لینے کے لئے بھی نااہل قرار دیا گیا ہے۔ انہیں یہ خدشہ بھی ہے کہ نیب عدالت انہیں سزا دے سکتی ہے۔ اس کی ذمہ داری وہ اسٹیبلشمنٹ پر ڈال رہے ہیں۔ ان کا انگریزی اخبار میں شائع ہونے والا انٹرویو اسٹیبلشمنٹ پر ایک جوابی وار ہے۔ اس جوابی وار سے سابق وزیراعظم‘ ان کی پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ میں مخاصمت میں شدت پیدا ہو گئی ہے۔ حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مخاصمت مزید بڑھے گی۔ اگلے انتخابات پر اس کے اثرات پڑیں گے۔ حکمران جماعت مسلم لیگ ن یہ تاثر پیدا کرنے پر زور لگا رہی ہے کہ اگلے انتخابات میں اسے شکست دینے کے لئے ’’خلائی مخلوق‘‘ متحرک ہے۔ یہ صورتحال جاری رہی تو 2018 کے انتخابات اور اس کے بعد ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنے کا خواب پورا کرنا خاصا مشکل لگتا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38