وزیراعظم نواز شریف ”ون بیلٹ ون روڈ“ فورم اجلاس میں شرکت کیلئے 12مئی کوچین پہنچے تواسکی خاص بات یہ تھی کہ چاروں وزرائے اعلیٰ بھی انکے ساتھ تھے۔ پہلی دفعہ قومی یکجہتی کا مظاہرہ کیا گیا۔ پاک چین دوستی بہت پرانی ہے۔ سول ہو یا فوجی حکومت سب نے دوستی کو آگے بڑھایا ہے۔کچھ عرصہ سے چین کی پاکستان میں دلچسپی بہت بڑھی ہوئی ہے سی پیک کو پاکستان میں بہت بڑی تبدیلی کانام دیا جاتا ہے۔ اس منصوبے سے چاروں صوبے ہی فائدہ اٹھائیں گے۔ 13مئی کو دونوں ملکوں کے درمیان 7 معاہدوں پر دستخط ہوئے ان معاہدوں کے تحت دونوں ملک سلک روڈ اکنامک بیلٹ کے فریم ورک کے تحت مزید تعاون کرینگے۔گوادر ائرپورٹ کی تعمیر کا معاہدہ بھی طے پایا۔ ایم ایل ون شاہراہ کواپ گریڈکیا جائے گا جبکہ حویلیاں میں ڈرائی پورٹ قائم ہوگا۔ چین پاکستان کو ریمورٹ لیننگ سیٹلائٹ کیلئے رعایتی قرضہ دیگا جبکہ ایسٹ بے ایکسپریس وے کیلئے معاشی و تکنیکی تعاون بھی فراہم کریگا۔ سلک روڈ اکنامک بیلٹ اور میری ٹائم سلک روڈکے اقدام کا فریم ورک ،گوادر ائرپورٹ کی تعمیرکیلئے1.5 ارب ڈالر کامعاہدہ ہوا۔ اس طرح سی پیک میں چین کی سرمایہ کاری 46 ارب ڈالرسے56 ڈالر تک بڑھا دی گئی۔ چین نے تیس سالوں میں زبردست ترقی کی ہے زرعی طور پر ایک کمزور ملک ہوتے ہوئے اب اس کی معیشت امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان اور چین کے تعلقات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہماری دوستی ہمالیہ سے بلند تر ہے۔ شہد سے زیادہ میٹھی ہے اور سمندرسے زیادہ گہری ہے۔ علاقے میں ہونے والی تبدیلیوں میں چین نے ہمیشہ پاکستان کاساتھ دیا ہے اور اسی وجہ سے اس دوستی کو بہت زیادہ اہم قرار دیا جاتا ہے سی پیک نے دوستی کے چار چاند لگا دئیے ہیں۔ پاکستان کو توانائی کے بحران کا سامنا ہے جس میں چین بھرپور تعاون کر رہا ہے جس کی بدولت پاکستان میں ترقی اور خوشحالی کے راستے کھلنے کی قوی امید ہے۔”ون بیلٹ ون روڈ“ فورم کا اجلاس پوری دنیا میں اہمیت اختیارکر گیا ہے۔ اس اجلاس میں 29 ممالک کے سربراہان اور نمائندگان شریک ہو رہے ہیں۔ ان ممالک کاتعلق ایشیائ، روس، وسطیٰ ایشیاءکی ریاستوں، یورپ، افریقہ اور عرب ممالک سے ہے۔ اس کانفرنس میں چین کی جانب سے دنیاکے کئی ممالک کو سڑکوں، فضائی اور بحری راستوںکے ذریعے منسلک کرنے کی تجاویز اور اس میں ہونے والی پیش رفت پرغورکیا جائیگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چین کی یہ کانفرنس امریکہ کی آشیرباد سے ہو رہی ہے۔ چین اور امریکہ بے شمار معاملات میں ایک دوسرے کا ساتھ دے رہے ہیں۔ چین کے مطابق”ون بیلٹ ون روڈ“ ایک شاندار منصوبہ ہے جس کاتمام تر مقصد یورپ کو ساﺅتھ ایسٹ اور ساﺅتھ سنٹرل کو ایسٹ چائنہ سے سڑکوں، ریلوے، بحری اور دوسرے ذرائع سے جوڑنا ہے۔ ”بیلٹ“ کولنک اس طرح کیا گیا جیسے21ویں صدی کی ”میری ٹائم سلک روڈ“ کو آسٹریلیا سے زنبیر تک کیا گیا۔ چائنہ کے صدر زی چن پنگ نےOBORکو 2013 میںلانچ کیا تھا۔ دو سال بعد امریکہ کے صدر باراک اوبامہ نےTrans Pacific Partnership شروع کیا تھا جس کا مقصد پیسیفک ریجن کے اطراف میں تجارت روکنا تھا امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےTPP کو واپس لے لیا۔ جس سے یہ توقع لگائی گئی کہ چین کے منصوبے کو تقویت ملے گی۔ اس صوبے میں سوال یہ پیدا ہوا تھاکہ اتنی بڑی رقم چائنہ دے گا اور دوسرے ملک اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے اور پھر یہ بھی غورکیا گیاکہ لمبے عرصے کیلئے اس کا فائدہ بھی ہوگا۔ بہرحال بہت سارے ملکوں کیلئے چائنہ خرچ کرنے کیلئے بہت بڑا ملک ہے۔ 2015ءمیں صرف چائنہ کی ایکسپورٹ اور امپورٹ80 بلین ڈالر تھی جبکہ ایشین ترقیاتی بنک کی 27بلین ڈالرکے تقابل میں تھی۔
چائنہ کے ماہرین کہتے ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ کے شامل ہونے کے بعد اس منصوبے کو بہت زیادہ پذیرائی ملی ہے لیوس کیوجس جو کہ آکسفورڈ اکنامکس ہانگ کانگ کے سربراہ ہیں کہتے ہیں کہ امریکہ کی سابقہ حکومت کے ممبران اور سفارتکاروںنے ایک عرصہ تکTTP کو لے کر چلاتے رہے اور اب یہ سب لوگ اس کاحصہ ہیں۔ بہرحال یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ چائنہ اسGapکو پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے جوکہ امریکہ کے دنیاکے بیشتر ممالک کی سرپرستی نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ یقیناً ایک وقت آئیگا جب امریکہ اس بات پر پچھتائے گا۔OBOR نے دنیاکی بہت توجہ حاصل کر لی ہے اور یہ ایک بہت مثبت اور شاندارچائنیز منصوبہ ہے جوکہ اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ شروع کیا گیا ہے۔"One Belt" کو ریفر سلک روڈ اقتصادی بیلٹ سے کیا گیا جوکہ چائنہ بذریعہ سنٹرل ایشیاءسے یورپ ہے جبکہ"One Road" کو چائنہ کے 21ویں صدی کے تصور میری ٹائم سلک روڈ سے ریفرکیا گیا جسکامقصدچائنہ کو یورپ سے بذریعہ انڈین اوشن اور ساﺅتھ چائنہ بحری راستوں سے ملاناہے۔صدر زی چن پنگ کو یقین ہے کہ 100سے زائد ممالک اور تنظیمیں اس میں شامل ہونگی اور بہت سارے منصوبوں پر50 ارب ڈالر سے زیادہ خرچ ہوگا۔ ان حالات میں لگتا ہے کہ چائنہ اس منصوبہ کو50 سالوں میں مکمل کرنے میں کامیاب ہو جائیگا جس سے دنیاکا نقشہ ہی تبدیل ہو جائیگا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کل کو امریکہ کیا کریگا۔ امریکی پالیسیاںگومگوں کا شکار ہیں۔ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد سابقہ پالیسیوںکو U-Turn دے دیا گیا ہے۔ سی پیک کے بارے میں بڑاکہا گیا ہے کہ امریکی یہ نہیں ہونے دینگے۔کچھ عرصہ بیشتر امریکی سفارت خانے کے سیاسی امورکے انچارج سے ملاقات ہوئی تو انہوںنے کہا کہ یہ تاثر یکسر غلط ہے۔ امریکہ کی دلچسپی صرف اور صرف یہ ہے کہ پاکستان ترقی کرے۔ دہشت گردی ختم کرے اور ایک جمہوری ملک کے طور پر دنیاکے نقشے میں اپنا مقام حاصل کرے۔ اس لئے امریکہ چین کے اختلافات نہیں بلکہ دوستی کی بات سوچنی چاہئے۔ دونوں ملکوں کے مفادات ایک طرح کے ہیں۔ چین سے پاکستان کے معاہدوں پر پاکستان میں خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔کھربوں روپے کے معاہدے پر شہ سرخیاں لگ رہی ہیں لیکن لوگ تو یہ بھی سوچ رہے ہیںکہ کیا ہم نئی غلامی میں تو نہیں جا رہے پاکستان میں چین کے ساتھ دوستی پر مکمل اتفاق رائے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چاروں وزرائے اعلیٰ ساتھ گئے ہیں۔ اس کا مقصد قومی اتفاق رائے کا اظہار ہے لیکن میری اطلاع یہ ہے کہ چین کی طرف سے کہا گیا تھاکہ وزیراعظم کے وفد میں چاروں صوبوں کی نمائندگی ہونی چاہئے کیونکہ چین کا مقصد ایک ذات کو خوش کرنا نہیں بلکہ پاکستان کیلئے کرنا ہے۔ میں یہاں پر چین کے خلاف کوئی محاذ قائم نہیں کرنا چاہتا بلکہ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آنکھیں کھول کر معاہدے کرےں۔ ملک کی آزادی اور خودمختاری پرکوئی حرف نہیں آنا چاہئے۔ ایسی معیشت کی بہتری کاکوئی فائدہ نہیںجس سے آزادی ختم ہو جائے۔ ایسی ترقی نہیں چاہئے جس سے خود مختاری خطرے میں پڑ جائے چین سے معاملات کو الیکشن2018ءکے ساتھ بھی نہیں جوڑنا چاہئے۔ سیاست اور الیکشن کیلئے چینی معاہدے کرنے سے نقصان ہوگا۔ اس لئے دورہ چین اور معاہدوں پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا چاہئے اور تمام معاہدوں کو پارلیمنٹ کی رضامندی سے مشروط کرنا چاہئے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38