وزیراعظم نوازشریف نے پانامہ لیکس کے معاملے پر اپوزیشن کی مشاورت سے ٹی او آر بنانے اور کرپشن کے تدارک کےلئے دونوں ایوانوں کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنانے کی تجویز دے دی ہے۔ قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے ٹی او آر صرف میرے اردگرد گھومتے ہیں۔ ہمارا دامن صاف ہے ہمیں کسی استثنیٰ کی ضرورت نہیں‘ ہم ہر طرح کے احتسابی عمل سے گزرنے کے لئے تیار ہیں۔ وزیراعظم نے کہاکہ پانامہ لیکس کے بعد انہوں نے قوم سے خطاب میں سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمشن کا اعلان کیا تاہم بعد میں ایسا ماحول پیدا کیا گیا کہ کمشن نہ بن سکا۔ مجھے یقین تھا کہ مطالبات تسلیم کرنے کے بعد اپوزیشن تیار ہو جائے گی لیکن پھر ٹی او آر کو متنازعہ بنا دیا گیا۔ اربوں روپے کے قرضے معاف کرانے والوں کی اصل کہانی بھی عوام کے سامنے آنی چاہئے۔ محلات میں رہنے اور ہوائی جہازوں میں سفر کرنے والے بھی اپنے ذرائع آمدن قوم کو بتائیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ لندن کے فلیٹوں کے لئے پاکستان سے ایک روپیہ بھی نہیں بھیجا۔ انہوں نے اپنے ٹیکس گوشوارے پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خاندان کے کاروباری اداروں نے 3سال میں قریباً 10ارب روپے ٹیکس دیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مشترکہ کمیٹی باہمی مشاورت کے بعد تحقیقات کے لئے ٹی او آر یا ضابطہ کار بنائے اور جس پانامہ لیکس فورم پر چاہیں تحقیقات کرا لی جائے۔ چیف جسٹس کی جانب سے حکومت کو لکھے گئے خط کا قانونی مشیر جائزہ لے رہے ہیں۔ حکومت معاملے کی بلاتاخیر اور جامع تحقیقات چاہتی ہے اور یہ معاملہ اب یوں ختم نہیں ہو سکتا نہ ہی ایسا ہونا چاہئے۔ ’بات چل نکلی ہے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا چاہئے۔ ایسے معاملات میں غیرضروری تاخیر ملک کے مفاد میں نہیں۔ ہم نہیں چاہتے ہیں کہ ملک کسی کشمکش کا شکار ہو اور ایک بار پھر دنیا کے سامنے تماشا بنے۔ ہم کسی بات کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہتے۔ پاکستان کی انا کا پرچم بلند رکھنا چاہتے ہیں۔ اپریل کے پہلے ہفتے میں پانامہ پیپرز کی رپورٹ میڈیا میں آئی۔ اس میں پاکستانیوں کی آف شور کمپنیوں کا ذکر کیا گیا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ رپورٹ کا ہرگز مطلب نہیں کہ آف شور کمپنیاں رکھنا غیرقانونی ہے۔ اس رپورٹ میں میرے دو بیٹوں کا ذکر آیا۔ چونکہ میرے خاندان کا ذکر آیا‘ اس لئے خودمختار کمشن کے سپرد معاملہ کر دینا چاہئے۔ میرے رفقا نے رائے دی تھی کہ مجھے کوئی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا تھا کہ آف شور کمپنی میں نام آنے کا مطلب یہ نہیں کہ بدعنوانی میں ملوث ہوں۔ خاندان کا نام آنے پر قوم سے خطاب کرکے کمشن بنانے کا اعلان کیا۔ اپوزیشن کے ٹی او آر میں کسی بدعنوانی کی نشاندہی کرنے کی بجائے صرف ایک شخص یعنی میرے گرد گھومتے ہیں۔ جس شخص کا ہزاروں لاکھوں صفحات میں ذکر تک نہیں اس پر فردجرم عائد کر دی گئی ہے۔ میں نے اپوزیشن کے کسی بھی مطالبے سے پہلے قوم سے خطاب میں کہاکہ اپوزیشن کے ٹی او آر کا ہدف صرف میری ذات ہے۔ ہم دنیا کے سامنے ایک بار پھر تماشا نہیں بننا چاہتے۔ توجہ ملکی ترقی پر رکھنے کیلئے نیک نیتی سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ٹی او آر کو متنازعہ بنا دیا گیا۔ چیف جسٹس کو خط اپوزیشن کے مطالبے پر لکھا تھا خیال تھا اپوزیشن مطمئن ہو جائے گی۔ میں نے 22اپریل کو قوم سے خطاب میں اپوزیشن کا مطالبہ تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ ہمارے اجتماعی ٹی او آر کے مقابلے میں 15 ٹی او آر دیئے گئے۔ تین جامع ٹی او آر کے مقابلے میں اپوزیشن نے 15 ٹی او آر دیئے۔ میری ذات کا ان پیپر سے تعلق نہیں مگر میرے خاندان کا ذکر آیا ہے مگر اس کے باوجود میں نے اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کیا۔ دامن صاف ہے کسی استثنیٰ کی ضرورت نہیں۔ یقین تھا کہ اپوزیشن کا مطالبہ تسلیم کرنے کے بعد اپوزیشن تحقیقات کا انتظار کرے گی۔ یقین دلاتا ہوں حکومت اس معاملے کی تحقیقات چاہتی ہے۔ ہم اپنی توجہ ملکی ترقی پر مرکوز رکھتے ہوئے جلد تحقیقات چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ٹیکس چوری کرنے اور قرضے معاف کرانے والوں کی اصل کہانی بھی سامنے آجائے۔ نیک نیتی کے ساتھ معاملے کی بے لاگ چھان بین چاہتے ہیں۔ ایوان احتساب کے جامع اور مو¿ثر نظام پر غور کرے۔ میرے مخلص بیان کو منفی انداز میں لیا گیا۔ ماضی میں بھی کڑے سے کڑے احتساب کا سامنا کیا۔ کہا گیا کہ وزیراعظم ایوان میں معاملات کی وضاحت کردیں تو یہ معاملہ ختم ہوجائے گا۔ یہ معاملہ اب یوں ختم نہیں ہوسکے گا۔ بات چل ہی نکلی ہے تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہونا چاہیے۔ ایوان میں میرے بیان دینے سے معاملہ ختم نہیں ہوسکتا۔ سیاست میں کمایا تو نہیں مگر گنوایا ضرور ہے۔ چاہتے ہیں بدعنوانی، اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کی کہانی سامنے آجائے، ہم کسی بات کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہتے۔ سب کچھ کھلی کتاب کی طرح ہے۔ کاروبار سے سیاست میں آیا ہوں، سیاست سے کاروبار نہیں کیا۔ قرضے معاف کرانے والوں کی کہانی بھی سامنے لانا چاہتے ہیں، چاہتے ہیں بدعنوانی، کِک بیکس لینے، پیسہ غیر قانونی طریقے سے باہر بھیجنے کی کہانی سامنے آئے۔ اتفاق ہسپتال شریف میڈیکل کیلئے ایک انچ سرکاری زمین نہیں لی۔ چھپانے کو نہ پہلے کچھ تھا نہ آج کچھ ہے۔ سب کچھ کھلی کتاب ہے، کیچڑ اچھالنے والوں کو بتانا چاہتا ہوں بطور وزیراعلیٰ رفاہی اداروں کو مفت زمینیں دی ہوں گی۔ ہم نے قرض کی ایک ایک پائی ادا کی ہے۔ بعض لوگ حقائق کو جان بوجھ کر جھٹلا رہے ہیں۔ وراثت میں کامیاب پھلتا پھولتا کاروبار ملا۔ 1972ءمیں اتفاق فاﺅنڈریز کو نیشنلائز کر دیا گیا۔ اُس وقت اتفاق فاﺅنڈریز کا منافع لاکھوں نہیں کروڑوں روپے میں تھا۔ چوالیس سال پہلے ڈالر 4 روپے کا اور سی ایس پی افسر کی تنخواہ 5000 روپے تھی۔ اس وقت میرا یا میرے خاندان کا سیاست سے واسطہ نہیں تھا۔ ہمیں جب اتفاق فاﺅنڈریز واپس کی گئی تو وہ ڈھانچہ بن چکی تھی۔ میرے والد نے ایک سال کی محنت سے دوبارہ اس ادارے کو بنایا۔ یہ تفصیل ان لوگوں کیلئے ہے جو حقائق کو جان بوجھ کر جھٹلا رہے ہیں۔ ہیلی کاپٹروں میں گھومنے والے اور دنیا بھر میں گھومنے والے بھی بتا دیں کہ وہ پہلے کیا تھا۔ آج عالیشان گاڑیوں میں گھومنے، جہازوں میں پھرنے والے بھی قوم کو آگاہ کریں۔ تیس سال کے دوران ہمارے خاندان نے 10 ارب روپے کے ٹیکس اور محصولات ادا کئے ہیں۔ خاندان کے صنعتی، کاروباری اداروں نے 30 سال میں تقریباً 10 ارب روپے ٹیکس، محصولات ادا کئے۔ ٹیکس اور محصولات ادائیگی کی تفصیل ایف بی آر کے ریکارڈ میں شامل ہے۔ آٹھ برس جبری جلا وطنی میں رہا۔ تین کروڑ 60 لاکھ روپے ذاتی حیثیت میں ادا کر چکا ہوں۔ وزیراعظم نے ادائیگیوں کا ریکارڈ سپیکر کے حوالے کر دیا ہے۔ 1972 میں نیشنلائزیشن کے بعد کئی خاندانوں نے ہجرت کی۔ میرے والد نے بھی دبئی میں گلف سٹیل نامی فیکٹری لگائی۔ آٹھ سال بعد کھنڈر کی شکل میں اتفاق فاﺅنڈری واپس کی گئی۔ میرے ذاتی ٹیکس سے متعلق بے بنیاد کہانیاں گردشی گئیں۔ ہمیں زمین یا مشینری کے بدلے ایک پیسہ ادا نہیں کیا گیا۔ لندن فلیٹس سے متعلق پھیلائی گئی بے سروپا کہانیوں کی طرف آتا ہوں۔ وزیراعظم نے عرب امارات میں گلف سٹیل کے افتتاح کی تصویر ایوان میں پیش کر دی۔ انہوں نے کہا ایسا احتسابی نظام ہو جو پگڑی اچھالنے کا سلسلہ بند کرائے۔ میرے والد نے دبئی جا کر 1973ءمیں گلف سٹیل نامی فیکٹری لگائی۔ 1980 میں یہ فیکٹری 33.37 ملین درہم میں فروخت ہوئی۔ اس وقت میرا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ میرے گھر پر قبضہ کر کے اولڈ ایج ہوم بنا دیا گیا۔ میرے والد نے عدم تحفظ کے احساس کے تحت سرمایہ کاری کی تھی۔ میرے والد کی یہ بات درست ثابت ہوئی۔ ہمارے بنکوں کے کھاتوں کو کھنگالا گیا۔ جدہ کی فیکٹری جون 2005ءمیں قریباً 64 ملین ڈالر میں فروخت ہوئی۔ یہ وہ ذرائع ہیں جن سے لندن فلیٹس خریدے گئے۔ دبئی اور جدہ کی فیکٹریوں کی فروخت سے حاصل رقم سے لندن کے فلیٹس خریدے، جدہ سٹل ہو یا گلف انڈسٹری، ان کیلئے پاکستان سے ایک روپیہ باہر نہیں گیا۔ ہماری معیشت مستحکم ہو رہی ہے۔ اگر احتساب کی بات کرنی ہے تو الگ الگ پیمانے نہیں ہوں گے۔ 1999ءمیں ہمارے تمام گھروں کے ریکارڈ اٹھا لئے گئے۔ اس وقت کی حکومت نے ہم پر بدعنوانی ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش کی۔ کمیشن کے حوالے سے چیف جسٹس کا خط موصول ہوگیا ہے حکومت اس کے لئے آئینی اور قانونی جائزہ لے رہی ہے۔ قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے تحقیقات کیلئے کمیٹی بنائی جائے-
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024