”صدر پاکستان “نے کہا ہے کہ پاناما لیکس کا معاملہ قدرت کی طرف سے اٹھا۔ اب بڑے بڑے کرپٹ پکڑے جائینگے پتہ نہیں کون کون سے معاملات پا نامالیکس سے اٹھیں گے ‘جو ابھی اطمینان سے بیٹھے ہیں وہ بھی دو ماہ‘ چار ماہ اور سال بعد لپیٹ میں آئینگے ‘جوجتنا کرپٹ چہرے اس پر اتنی نحوست ہوتی ہے، صدر صاحب نے عمدہ انداز میں پاکستان کے سلگتے مسائل کی نشاندہی کی ہے ۔ایوان صدر میں آنے کے بعد آپ نے وہاں مختلف علمی اور ادبی مجالس کا انعقاد کیا ۔محب وطن لوگوں کو مدعو کر کے ان کی حوصلہ افزائی کی ۔انھوں نے ایوان صدر کوایک نیا وقار بخشا ۔اور اس کی ساکھ کو بحال کر کے عام افراد کے لیے بھی اس کے دروازے کھول دیئے،انھوں نے بہت ہی اچھے انداز میں کرپشن کے خاتمے کے لیے سب کو وارننگ دی ہے ۔چند ثانیے تو مجھے لگا جیسے” صدر مملکت“ بھی اپوزیشن میں شامل ہو گئے ہیں ۔دیکھا جائے تو اپوزیشن والے بھی پاکستان ہی کے ہیںاپوزیشن کا یہ مطلب نہیں کہ وہ پاکستان کے خلاف ہیں ایک دور میں وہ حکومت میں ہوتے ہیں اگلے دور میں اپوزیشن میں۔انھیںتیز رفتار ترقی کیلئے اپنی صفوں سے کرپٹ افراد کو نکال دینا چاہیے اس سے بدعنوانی کے خاتمے کے امکانات روشن ہونگے ،”صدر ممنون حسین “نے درست طور پر کہا ہے کہ پاکستان میں اہل اور ایماندار افراد کی کمی نہیں ۔ہمیں ایسا ماحول بنانا چاہیے کہ پڑھے لکھے افراد آگے آسکیں۔”صدر پاکستان“ کا ”پانامہ پیپرز“ پر موقف اپوزیشن کے لیے قدرت کی طرف سے ایک اضافی تحفہ ہے اور عوام کے حق میں ایک بڑی مضبوط اور توانا آواز ہے اپوزیشن بھی دودھ کی دھلی ہوئی نہیں ۔خان صاحب کا معاملہ ہو یا پیپلز پارٹی کا سب کو اپنی اپنی صفوں کا جائزہ لینا چاہیے ´آج کل کی پالیسی ڈنگ ٹپاﺅ والی ہے ´شور شرابہ بھی محض وقت گزاری ہے ۔”چیف جسٹس پاکستان “نے پانامہ لیکس پرجوڈیشل کمیشن بنانے پر حکومتی خط کا موئثر اور مدلل جواب دیا ہے انکے مطابق تحقیقات میں سالوں لگ جائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ انفرادی، خاندانوں اور گروپوں کی فہرست فراہم کی جائے ۔اپوزیشن اور حکومت دونوں پانامہ لیکس پر شور مچا رہے ہیں لیکن حل کی جانب کوئی بھی نہیں جا رہا ۔لگتا ہے کوئی بھی سنجیدہ نہیں۔شنید ہے کہ ملائیشیا کی طرز پر پاکستان میں ”انسداد بدعنوانی اکیڈمی “بنانے کا منصوبہ کسی کے ذہن میں پنپ رہا ہے انسداد بدعنوانی پہ سینکڑوں ادارے ہیں کسی نے بھی اپنے فرائض ادا کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اس لحاظ سے نئے اداروں کی بجائے پرانے کی کارکردگی بہتر بنانی جائے
”کرپشن کے خلاف عالمی ایوارڈ“
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اعتراف لیا ہے کہ ترقی پذیر دنیا کی چوری شدہ رقم ان کے بنکوں میں پڑی ہے ۔برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے بدعنوانی کے خلاف کریک ڈاو¿ن کی ضرورت ہے۔ بدعنوانی سے دنیا کو خطرہ ہے کیونکہ اس سے جرائم اور دہشت گردی کو مالی وسائل حاصل ہوتے ہیں۔ وسیع تناظر میں بدعنوانی ایک دشمن کی طرح ہے کیونکہ یہ ریاستوں کو تباہ کر دیتی ہے۔ آج دنیا میں تمام مسائل کی جڑ بدعنوانی ہے جو کینسر کی طرح ہے۔ اس کی وجہ سے ملازمتیں تباہ ہو رہی ہیں اور آگے بڑھنے کا عمل رک گیا ہے۔ ہر سال دنیا کی معیشت کو اربوں ڈالرز کا نقصان ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے غریب مزید غربت کے شکنجے میں جکڑتا جاتا ہے ۔ میں نے پہلے بھی اپنے کالموں میں متعدد بار کہا ہے کہ جب ایک شخص بیروز گار ہو گا اور وسائل کی تقسیم درست نہیں ہو گی تو معاشرے میں خلیج پیدا ہو گی ،معاشرے میں جب مساوات نہیں گی تو لوگ جرائم کی طرف جائیں گے ۔افغانستان اور نائیجیریامیں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے باعث ہی بدعنوانی زیادہ ہوئی ہے ۔اب ان دونو ںممالک کو زبردست بد عنوان قرار دے دیا گیا ہے۔68 سال ہو گئے ہیں پاکستان میں مالی کرپشن جاری ہے بلکہ اب تو استحقاق پیدا ہو گیا ہے کہ حکمرانوں کی لوٹ مار کی باقاعدہ سلور جوبلی منائی جائے اس لئے امریکی امداد ہو یا قرضہ جات سارا پیسہ حکمرانوں کی جیب میں جاتا رہا ہے۔ اگر پاکستان حاصل کردہ قرضے اپنے صحیح مقام پر دیانت داری کے ساتھ خرچ کرتا تو آج یہ حالات نہ ہوتے اور عوام مہنگائی، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ اور دیگر کئی قسم کی خرابیوں کا شکار بھی نہ ہوتے اور یہ ملک خوشحال ہوتا۔ تیسری دنیا کے چھوٹے چھوٹے ملکوں نے قرضے لے کر اپنے حالات سنوار لئے ہیں مگر ہمارے ہاں شاید حکومت کا مقصد ہی قرضے ہڑپ کرنا امداد کو اپنی تجوریوں میں جمع کرنا اولین مقصد ہے جس کے نتیجے میں ملک ایک ایسی جگہ بن گیا ہے جہاں شریف شہریوں کے لئے رہنا مشکل اور بدمعاشوں کے لئے رہنا آسان ہو گیا ہے۔ صرف چند خاندان ہیں جو امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں اور عوام ہر بار انہی کو ووٹ دے کر ایک ہی بل سے خود کو بار بار ڈسواتے ہیں۔ کسی غریب پڑھے لکھے شخص کو ٹکٹ نہیں دیا جاتا تاکہ کہیں اسمبلی میں کوئی غریبوں کا غریب نمائندہ نہ پہنچ جائے۔ ملک کو قرضوں کے بوجھ تلے دبایا جا رہا ہے اور قرضے کہیں بھی خرچ ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ امریکہ نے کولیشن فنڈز سے ہمیں جو امداد دی ہے اس کے لئے ہمارے حکمران پیاسے بیٹھے ہیں۔کرپشن ختم کئے بغیر پاکستان ترقی نہیں کرسکتا۔کسی برائی کے خلاف جد وجہد کا انحصار معاشرہ کے اخلاقی معیاروں پر ہوتا ہے- اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کے ہم کس بات کو رد اور کس کو قبول کرتے ہیں- بد عنوانی کے رویوں کے ساتھ بدعنوانی کا مقابلہ ممکن نہیں- کوئی نگران اگر خود بد دیانت ہو تو لوٹ میں اپنا حصہ مانگ کر کرپشن میں معاونت کرتا ہے جس سے بربادی کا عمل اور گہرا ہو جاتا ہے اپوزیشن نے متحد ہونے کی کوشش کی لیکن وہ بھی کرپشن کرنے والوں کی فہرست میں موجود ہے۔پاکستانی قوم کو دکھ، صدمے اور رسوائی کا ایک اور تازیانہ سہنا پڑا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ، جو دنیا بھر میں کرپشن پر نظر رکھنے والا ادارہ ہے نے اپنی5/دسمبر کو جاری کردہ سالانہ رپورٹ 2012ءمیں نشاندہی کی تھی کہ وطن عزیز 175 ممالک کی فہرست میں بدعنوانی کے حوالے سے 47ویں نمبر سے 33ویں نمبر تک پہنچ گیا ہے۔ کرپشن کے ذریعے باہر منتقل کی گئی 375ارب ڈالر کی رقم واپس لاکر پاکستان کی تقدیر بدلی جا سکتی ہے لیکن سوال یہی ہے کہ یہ رقم واپس لائے گا کون؟؟؟