گجرات شہر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس شہر نے ملک کو بہت بڑے بڑے نام دیئے ہیں۔ جنہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ اقوام عالم میں اس دھرتی کا نام روشن کیا ہے۔ ایسا ہی ایک معتبر نام عنایت حسین بھٹی کا ہے۔ اپنے تعلیمی دنوں سے ہی انہوں نے بابا فرید‘ بھلے شاہ‘ پیر سید وارث شاہ اور میاں محمد بخش جیسے صوفیا کی زندگیوں اور ان کی شاعری میں دلچسپی لینی شروع کر دی تھی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے لاہور ریڈیو سے فنی سفر کا آغاز کیا۔ بارعب آواز اور خوبصورت شخصیت کے جادو نے بہت جلد ہر جگہ انہیں مقبول بنا دیا۔ فلم انڈسٹری کے سبھی شعبے جن میں اداکاری‘ گلوکاری‘ ہدایت کاری اور فلم میکنگ میں بھٹی صاحب نے لازوال کردار ادا کئے۔ انہوں PTV پر ’روشنی کا سفر‘ کے عنوان سے پروگرام شروع کیا۔ وہ اپنے منفرد لہجے کے ساتھ ہر پروگرام میں کسی ایک بزرگ ہستی کا تعارف بھی کراتے چلے جاتے تھے۔ بھٹی صاحب نے گلاب دیوی ہسپتال کا پورا ایک وارڈ تپ دق کے مریضوں کے لیے مختص کروائے رکھا۔ جہاں وہ ان مریضوں کی مالی معاونت کے ساتھ ساتھ انہیں دوسری سہولتیں بھی پہچانے کی کوشش کرتے تھے۔ نشتر کالج میں بھٹی صاحب کی خدمات کے اعتراف میں انہیں میڈیکل کلر کا ایوارڈ بھی دیا گیا۔ جو پاکستان میں کسی نان میڈیکل کو شائد آج تک نہ ملا ہو۔ بھٹی صاحب کو اپنی ماں بولی زبان سے بہت محبت تھی۔ انہوں نے پنجابی زبان اور کلچر کی بہتری کے لیے بہت سی خدمات سرانجام دی ہیں۔ پنجابی زبان کی ترویج کے لیے انہوں نے ضیاء شاہد اور مسعود کھدر پوش کے ساتھ مل کر ہفت روزہ میگزین ’کہانی’ شروع کیا۔ وہ پنجاب ورکر موومنٹ کے چیئرمین بھی رہے۔ جذبہ حب الوطنی سے سرشار بھٹی صاحب کو اپنی بہادر فوج سے بے پناہ پیار تھا اور اس محکمے میں انہیں ایک خاص عزت اور مقام دیا جاتا رہا تھا۔ پاک آرمی کی بہت سی یونٹس نے انہیں اعزازی ممبر شپ بھی دی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ بہت سی یونٹس نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں اعزازی شیلڈ سے بھی نوازا تھا۔ بارڈر کے اس پار بھارتی پنجاب میں بھی انہیں بے پناہ پیار ملا کرتا تھا۔ پنجاب و ہریانہ کے اس وقت کے قام مقام چیف جسٹس امر جیت چوہدری نے انہیں چندی گڑھ پریس کلب کی طرف سے شیلڈ پیش کی تو پنجابی انٹلیکچیول فورم چندی گڑھ سے بھی انہیں ایک اعزازی شیلڈ دی گئی۔ یہاں تک کے ان کی وفات کے بعد پروفیسر موہن سنگھ فاؤنڈیشن نے ان کی یاد میں عنایت حسین بھٹی ایوارڈ کا بھی اعلان کیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے جسبیر جسی گورداسپوریے کو یہ ایوارڈ دیا گیا۔
بھٹی صاحب نے ہر شعبے میں ہی کمال مہارت کا مظاہرہ کیا ہے مگر مذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے ان کی ایک خاص پہچان تھی۔ پنجاب حکومت نے انہیں کئی بار امن کمیٹیوں کا رکن منتخب کیا۔ اس کے علاوہ وہ اتحاد بین المسلمین کے بھی رکن رہے۔ ایک ایسے وقت جب ہمارا ملک ابھی اس آگ و خون کے کھیل کا حصہ نہیں بنا تھا بھٹی صاحب نے مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے عالمی امن تحریک بنا کر امن کے سفیر کے حیثیت سے کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ مذہبی انتہا پسندی کے بہت خلاف تھے۔ اس ناسور کے اثرات کا ان کی دور بیں نگاہوں کو ادراک ہو گیا تھا۔ انہیں پتہ تھا کہ مسلمانوں کو کوئی بھی کسی بات پر مشتعل کر کے ایک دوسرے کے مقابل لا سکتا ہے۔ اسی لیے انہوں نے عالمی امن تحریک کا آغاز کیا۔ گو یہ نیک کام شروع کرنے کے بعد ان کی زندگی نے زیادہ عرصہ وفا نہ کی مگر عمر کے آخری حصے میں انہوں نے بین المذاہب رواداری بھائی چارے اور برداشت کے حوالے سے متعدد سیمینار منعقد کروائے۔ وہ مسلمانوں کے آپسی اختلافات کو ختم کرانے پر زور دیا کرتے تھے۔ عالمی امن تحریک کا بنیادی مقصد مختلف مذاہب کے درمیان پیدا ہونے والی نفرت کو کم کرنا تھا۔ ان کی وفات کے بعد اس تحریک کے چیئرمین نامور فلم سٹار حبیب مقرر ہوئے جو تا حیات اس عہدے پر فائز رہے۔ گو انہوں نے اس تحریک کو آگے چلانے اور محبت رواداری برداشت کا پیغام آگے بڑھانے کے لیے کچھ خاص کام نہ کیا مگر انہوں نے اپنا عہدہ زندگی بھر چھوڑنا گوارہ بھی نہ کیا۔ جس سے آہستہ آہستہ یہ امن تحریک صرف کاغذوں یا پھر بھٹی صاحب کی سالانہ برسی تک ہی محدود ہو کر رہ گئی۔ اب پچھلے ماہ جب سے حبیب صاحب اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ عالمی امن تحریک کے مرکزی جنرل سیکرٹری ادریس ناز نے ایک بار پھر زور شور سے امن کے اس سفر کو شروع کیا ہوا ہے۔ جس کا مقصد سیاست سے دور رہ کر ریاست کی خدمت کرنا ہے گوجرنوالہ شہر میں ہر ہفتے اس امن تحریک کے زیر انتظام امن بحالی کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس ماہ کے آخر میں بھٹی صاحب کے برسی والے دن گوجرانوالہ میں ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے اور ان کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے ایک سیمینار کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ جس کا مقصد امن کے لیے مسلسل کوششیں کرتے رہنا ہے۔ یہی بھٹی صاحب کا مشن تھا اور یہ ہی ان کی خواہش۔ اب جبکہ کہ ملک دشمن قوتوں کو ہماری افواج شکست دے چکی ہیں۔ آپسی اختلافات کم کرنے کی طرف زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اب ضرورت ہے کہ ملک کے ہر حصے سے ایسے لوگ سامنے آئیں جو سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر ملک میں امن کے سفیر کی حیثیت سے کام کریں۔