پیر ‘ 8؍ شعبان 1437ھ‘ 16؍ مئی‘ 2016ء
دورہ انگلینڈ کے لیے کاکول میں قومی کرکٹرز کا بوٹ کیمپ شروع ہو گیا۔
ابھی تو پارٹی شروع ہوئی تھی کہ پہلے روز ہی یاسر شاہ ٹانگ میں انجری کے سبب کیمپ سے آئوٹ یعنی باہر ہو گئے۔ ابھی تو ابتداء ہے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ 35 کھلاڑیوں کو فوجی ٹرینرز کے زیر اہتمام اس تربیتی کیمپ میں حصہ لینے کی ہدایت کی گئی تھی جن میں سے 30 نے رپورٹ کر دی 5 نے ہری جھنڈی دکھا دی رپورٹ نہیں کی۔ اس تربیتی کیمپ میں فوجی ٹرینرز کھلاڑیوں کی فٹنس جانچیں گے تو اس کا مطلب صاف ظاہر ہے سخت قسم کی ورزشیں ہوں گی۔ اب معلوم نہیں ہمارے یہ میڈیا اور اشتہارات کی بدولت بنے سنورے، سجے سجائے، نازک اندام کھلنڈرے کھلاڑی یہاں کس طرح اپنی فٹنس ثابت کریں گے۔ ان کی پھرتیاں اور فٹنس دیکھنی ہو تو بیرون ملک دوروں میں یا شادی بیاہ کی تقریبات میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ کئی ایک تو کیٹ واک اور ڈریس شو میں بھی اپنی فٹنس ثابت کرتے پھرتے ہیں۔ عملی تربیت کے اس عمل سے گزرنا ان کے لیے مشکل امر ہو گا اور کہیں ایسا نہ ہو کہ قوم کو ان اپنے کرکٹروں کی حالت دیکھ کر بچوں کی مشہور نظم:
’’5 چوہے جو گھر سے نکلے کرنے چلے شکار‘‘
یاد آ جائے۔ جس میں ایک ایک کرکے سارے ادھر اُدھر ہو جاتے ہیں۔ بہر حال ابھی تو ابتدا ہے ہماری دعائیں کھلاڑیوں کے ساتھ ہیں۔ جو بے چارے نازوں کے پلے اس نامہرباں موسم میں کاکول میں سخت جان آرمی والوں کے ہتھے چڑھ گئے ہیں اور اپنی فٹنس ثابت کر رہے ہیں…
…٭…٭…٭…٭…٭…
ہائیڈرو منصوبے: پاکستانی حکام کی سستی کے باعث بھارت ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے-
کام کوئی بھی ہو ہمارے حکام کی روایتی سستی اگر انہیں لے نہیں ڈوبتی تو کم از کم اس میں اتنی تاخیر ضرور کرا دیتی ہے کہ اس کا بڑا نقصان ہمیں ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کشن گنگا اور راتلے کے منصوبوں پر پاکستان نے بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث عالمی عدالت میں جانے کا فیصلہ کیا تھا مگر اس پر ایک سال ہونے کو ہے عمل نہیں کیا گیا۔ ہمارے حکمران بھارت سے دوستی اور تجارت کی بھنگ پی کر لمبی تان کر سو رہے ہیں اور پانی و بجلی کی قلت کا رونا عوام رو رہے ہیں۔ بھارت تو چاہتا بھی یہی ہے کہ ہم اپنی تباہی و بربادی سے بے نیاز ہو کر اس کی جھوٹی دوستی اور خسارے کی تجارت میں مشغول رہیں اور وہ آسانی سے سندھ طاس معاہدے کی طرح مزید لولے لنگڑے معاہدے کرکے پاکستان کو کشمیر سے ملنے والے باقی رہے سہے پانی سے بھی محروم کر دے۔ پہلے ہی وہ اس پانی کا 40فیصد سے زیادہ حصہ پی چکا ہے اور باقی 60 فیصد پہ اس کی نظر ہے جبکہ ہم اس کی ان مکارانہ چالبازیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے اس سے حسن ظن رکھے ہوئے ہیں۔ ہے یہ کوئی کرنے والی بات…
…٭…٭…٭…٭…٭…
کراچی میں قائداعظم کی جائے پیدائش کے باہر گندگی کے ڈھیر۔
ویسے تو سندھ حکومت کی اپنی مصروفیات بھی بہت ہیں، وزیراعلیٰ سے لے کر عام وزراء تک ہروقت کہیں نہ کہیں مصروف رہتے ہیں۔ ایسے میں کراچی جو سندھ کا دارلحکومت ہے اسکی صورت حال بد سے بدتر ہونی ہی ہے۔ اب سچ پوچھیں توحقیقت یہ ہے کہ کیا کراچی،کیا ٹنڈواللہ یار، کیا گھوٹکی ، کیا حیدر آباد پورے سندھ میں صفائی کی صورتحال کی کہانیاں یوں بکھری ہیں جسطرح ہر گلی اورمحلے میں کچرا بکھرا ہواہے۔ نہ سڑک کا پتہ چلتا ہے نہ نالے کا، سب برابر کچرا کنڈی بنے ہوئے ہیں۔ باقی سب کا تو گلہ نہیںمگر یہ جو وزیر مینشن کراچی ہے یہ کوئی عام جگہ نہیں یہ کسی وزیر یا مشیر کی رہائشگاہ نہیں جہاں قدم قدم پر خاکروب اور پولیس والے لش پش کرتے نظر آئیں۔ یہ قائداعظم جنکی بدولت یہ ملک حاصل ہوا، انکی جائے پیدائش کے اردگرد گندگی کے ڈھیر دیکھ کر تو ہر پاکستانی کا سر شرم سے جھک جانا چاہیے، کیا علاقے کے باسیوں اور بلدیاتی نمائندوں کے دل میں ذرا بھر بھی بابا ئے قوم کی رہائشگاہ کے تقدس کا خیال نہیں آتا۔ جس شخص کی بدولت ہمیں رہنے کو گھر ملا ہم اپنے گھروں کا کچرا اس عظیم شخصیت کی آخری آرام گاہ کے باہر پھینکتے ہوئے ذرا بھی نہیں شرماتے، کیا ہم بحیثیت قوم اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ اپنے محسنوں کی عظمت و عزت کا بھی خیال نہیں رکھتے۔ اب اگر ٹی وی چینلز پرشور کے بعد حکومت سندھ نے صفائی کا حکم دے بھی دیا تو کیا فائدہ۔ جو سبکی ہونی تھی وہ تو بحیثیت قوم ہماری ہو چکی۔
…٭…٭…٭…٭…٭…
لاہور میں ڈیوٹی چیک کرنے کیلئے خاکروبوں کو کڑے پہنانے کا فیصلہ
کام چوری کی عادت ہمارے ہاں عام ہے۔اس کو برا بھی سمجھا نہیں جاتا۔ دوران کار کسی بھی سرکاری دفتر چلے جائیں یوں لگتا ہے جیسے کسی کو کوئی کام نہیں سب آرام سے بیٹھے گپیں ہانکتے، سگریٹ پیتے یا پھر ادھر ادھر ٹہلتے نظر آئیں گے۔ یہی صورتحال لاہور میں صفائی پر مامور عملے کی بھی ہے بلکہ اصل صورتحال اس سے بھی زیادہ خراب ہے۔ سرکاری عملہ صفائی نے اپنی جگہ کام کے لیے افغان مہاجر لڑکوںکو معمولی معاوضے پر رکھا ہوا ہے جو گھروں سے کوڑا جمع کرتے ہیں اور چھوٹی موٹی وارداتوں کے علاوہ دہشت گردوں کے لیے ریکی میں بھی ملوث پائے گئے ہیں اور یہ سرکاری عملہ صفائی خود کسی اور جگہ جا کر دوسری ملازمت کرتا پھرتا ہے۔ اب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ صفائی کے عملے کو الیکٹرونک کڑے پہنائے جائیں گے تاکہ ان کے اوقات کار میں ڈیوٹی کی نگرانی ہو کہ کون کہاں کام کر رہا ہے۔ اب اس پر خاکروبوں نے بھی ببانگ دھل اعلان کیا ہے کہ وہ ایسا کوئی کڑا نہیں پہنیں گے جس سے ان کی کام چوری پکڑی جائے اور ان کی نیک نامی پر حرف آئے۔ اگر کڑے پہنانے ہیں تو افسر سے لیکر عام چپڑاسی تک ہر محکمہ میں سب کو پہنائے جائیں کیونکہ اس کام چوری کے اس حمام میں سب ننگے ہیں…
…٭…٭…٭…٭…٭…