تحریک انصاف، (ق) لیگ کے رہنماؤں کا ملنا صفر جمع صفر برابر صفر ہے: رانا ثناء
لاہور (خصوصی نامہ نگار) صوبائی وزیر قانون و بلدیات رانا ثناء اللہ خان نے کہا ہے کہ تحریک انصاف والوں کے پاس کوئی نہیں بچا اور ق لیگ والوں سے ملنے آنے والا کوئی نہیں اس لئے دونوں جماعتوں کے رہنمائوں کا ملنا صفر جمع صفر برابر صفر ہے، تحریک انصاف والے انتخابی نظام میں اصلاحات نہیں چاہتے بلکہ انکی نیت کچھ اور ہے اور یہ اس بہانے سے کچھ اور کرنا چاہتے ہیں، جمہوریت کیلئے میڈیا کی آزادی ناگزیر ہے اور میڈیا کے کسی بھی گروپ پر پابندی نہیں لگنی چاہیے، اگر ایک میڈیا گروپ نے آٹھ گھنٹے غلط انداز اپنایا تو 22روز سے دوسرے ٹی چینلز جو کچھ کر رہے ہیں کیا وہ انداز ٹھیک ہے؟، اپوزیشن متفق ہو تو قومی اداروں کے احترام اور میڈیا کی آزادی کے لئے قرارداد لانے کو تیار ہیں، جن لوگوں نے انہیں بلندی پر پہنچایا انکے لئے اسمبلی کا پلیٹ فارم استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پنجاب اسمبلی کیفے ٹیریا میں آج جمعہ سے شروع ہونے والے اجلاس کے حوالے سے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ ریاستی ادارے اور ایک میڈیا گروپ کے درمیان اختلافات کو ختم کروانے کیلئے حکومتی سطح پر ثالثی کیلئے کام ہو رہا ہے۔ اس موقع پر رانا ثناء اللہ خان نے کہا کہ رواں سیشن میں پارلیمانی سال کے 100دن مکمل کئے جائینگے۔ اجلاس میں پانچ بل، سٹینڈنگ کمیٹیز کی رپورٹس‘ قانون سازی کے علاوہ امن و امان اور آئندہ بجٹ کے حوالے سے عام بحث کے لئے بزنس ایڈوائزری کمیٹی میں اپوزیشن سے طے کیا جائے گا اسکے علاوہ معمول کا بزنس بھی نمٹایا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اسلام آباد میں جو خطاب کیا وہ ایک قومی لیڈر کے شایان شان نہیں، ایک لیڈر کو زیب نہیں دیتا کہ وہ ایک خفیہ ایجنسی کے حق میں مداح سرائی کرے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف خیبر پی کے میں ناکامی سے بوکھلا گئی ہے اور اب ایسا لگتا ہے کہ یہ (ق) لیگ کے بعد کسی کالعدم تنظیم کے پاس بیٹھے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے جلسے میں جانے والوںکو پانچ سو روپے فی کس اور لنچ بکس دیا گیا۔ جس طرح تحریک انصاف کا اسلام آباد کا جلسہ ناکام رہا اسی طرح فیصل آباد میں بھی انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہی کہ تحریک انصاف کا ایجنڈا ہے کیا، کیونکہ وہ بات دھاندلی کی کرتے ہیں اور تقریر کسی اور مسئلے پرکرتے ہیں، بات وہ انتخابی نظام میں اصلاحات کی کرتے ہیں اور ملاقات (ق) لیگ سے کرتے ہیں جن کا انتخابات میں کوئی حصہ ہی نہیں۔ اگر وہ اصلاحات چاہتے ہیں تو پارلیمنٹ میں بل لے کر آئیں کیا ڈی چوک میں جلسوں سے یہ مسئلہ حل ہوگا۔ ریاستی ادارے کسی فرد واحد کے نہیں بلکہ پوری قوم کے ہیں اسی طرح میڈیا ہائوسز بھی پوری قوم ہیں اور قوم میڈیا کی آزادی چاہتی ہے۔ کچھ لوگ اس صورتحال سے فائدہ اٹھاکر ملک کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور افواہیں پھیلا رہے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کی یوم شہداء پر تقریر کے بعد کراچی میں سیاسی اور عسکری قیادت کا ایک میز پر بیٹھ کر ملک کے مسائل حل کرنے کیلئے فیصلوں سے ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کو ریگولیٹ ہونا چاہیے لیکن میڈیا پر کسی طرح کا بھی قدغن نہیں لگنا چاہئے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کراچی میں نواز شریف کے ساتھ میز پر علی بابا نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر تھے اور سیاسی افہام و تفہیم کیلئے سب کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں بی بی سی ڈاٹ کام کے مطابق رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ ضلع جھنگ میں 68 وکلا کے خلاف توہین مذہب کی ایف آئی آر درج ہونا اتنی بڑی بات نہیں ہے۔ پولیس کے مطابق یہ مقدمہ فرقہ وارانہ کشیدگی سے بچنے کے لئے مجبوراً درج کرنا پڑا۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’یہ فرسٹ انفارمیشن (ابتدائی اطلاع) رپورٹ ہوتی ہے، ہم نے اس کو کچھ اور سمجھ لیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جس کے خلاف مقدمہ درج ہوا وہ ملزم نہیں مجرم ہے، اگر یہ مقدمہ درج ہوا ہے تو تحقیقات میں غلط ثابت ہو سکتا ہے۔ صوبائی وزیر قانون نے اس خیال کا اظہار بھی کیا کہ یہ مقدمہ تحقیقات کے دوران ہی خارج ہو جائے گا۔