نائب صوبیدارپر مقدمہ فوجی عدالت میں چلے گا یا سول کورٹ میں فیصلہ ہم کرینگے : جسٹس جواد
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ بی بی سی+ آن لائن) سپریم کورٹ میں 35لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج ہو سکتی ہے جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس میں کہا کہ سپریم کورٹ فیصلہ کرے گی کہ لاپتہ افراد کیس میں نامزد نائب صوبیدار کا فوجی ٹرائل ہو گا یا سول عدالت واپس لایا جائے گا۔ بی بی سی کے مطابق پاکستان کے اٹارنی جنرل اسلم بٹ نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ پولیس سول جرائم میں ملوث فوجیوں کیخلاف ایف آئی آر تو درج کر سکتی ہے لیکن کیا ان فوجیوں کے خلاف مقدمہ سول عدالتوں میں چل سکتا ہے یا نہیں وہ حکومت سے مشاورت کے بعد عدالت کو بتائیں گے۔ اٹارنی جنرل فوجیوں کا سول عدالتوں میں مقدمہ چلنے سے متعلق حکومتی مؤقف 26 مئی کو عدالت میں داخل کروائیں گے۔ اٹارنی جنرل اسلم بٹ نے بتایا کہ سول جرائم میں ملوث افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کیے جانے میں کوئی ابہام نہیں۔ عدالتِ عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کے اس بیان کو ناکافی قرار دیتے ہوئے انہیں ہدایت کی کہ وہ حکومت سے مشاورت کے بعد عدالت کو یہ بھی بتائیں کہ آیا فوجی اہلکار کے خلاف اگر فوجی عدالت میں بھی مقدمہ درج ہو اور سول عدالت میں بھی، تو کون سی عدالت اس مقدمے کو سننے کا حق رکھتی ہے؟ عدالت نے مزید پوچھا کہ کیا سول جرائم کے خاتمے کے لیے سول عدالتی نظام (سی آر پی سی) کا اطلاق فوجی افسروں پر بھی ہوتا ہے یا نہیں؟ ان سوالات کے اٹھانے کی نوبت اس لیے آئی ہے کہ فوجی حکام ایک فوجی اہلکار کے خلاف مقدمہ فوجی عدالت میں ہی چلانے پر اصرار کر رہے ہیں۔ پاکستانی فوج کے نائب صوبیدار امان اللہ کے خلاف یاسین شاہ نامی شہری کو غیر قانونی حراست میں رکھنے پر پولیس نے سپریم کورٹ کے حکم پر ایف آئی آر درج کر لی تھی تفتیش کے دوران ہی فوجی حکام نے امان اللہ کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کر دی تھی۔ فوجی حکام نے اس مقدمے کی تفتیش کرنے والی سوات کی سول انتظامیہ کو ایک خط کے ذریعے اس معاملے کی تفتیش یا مقدمے کی کارروائی آگے بڑھانے سے بھی منع کر دیا تھا۔ جمعرات کے روز سماعت کے دوران عدالت نے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم سے بھی پوچھا کہ ان کی رائے میں اگر مقدمہ سول عدالت کے بھی پاس ہو اور فوجی عدالت بھی اس کی سماعت کرنا چاہے تو کون سا فورم مناسب ہوگا؟ انعام الرحیم نے عدالت کو بتایا کہ سابق اٹارنی جنرل منیر اے ملک اس سوال کے جواب میں فاضل عدالت کو بتا چکے ہیں کہ اس صورت میں وفاقی حکومت کا پہلا استحقاق ہے کہ وہ مقدمے کی سماعت کرے یا اس کا فیصلہ کرے۔ ثناء نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل خیبر پی کے عبد اللطیف آفریدی سے حاضر سروس فوجی حکام کے خلاف مقدمہ چلانے کے بارے میں مزید تین سوالوں کے جواب طلب کر لئے۔ عدالت نے سوال کیا ہے کہ کیا جرم کرنے والے فوجی کا مقدمہ عام عدالت میں چلے گا یا فوجی عدالت میں؟کون سا قانون عدالت کو فوجی مقدمہ صوابدیدی اختیار کے تحت فوجی عدالت منتقل کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ کیا عدالت کسی فوجی کے خلاف مقدمہ کو فوجی عدالت منتقل کرنے کی درخواست منظور کرنے کی پابند ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ فوج نے یہ سوچتے ہوئے درخواست کی کہ یہ ان کا کام ہے وہ فیصلہ کریں کہ کیس کس فورم پر چلے گا۔ ایڈووکیٹ جنرل خیبر پی کے کا کہنا تھا کہ آرمی اتھارٹی کی درخواست اس وقت آئی جب ملزم نائب صوبیدار امان اﷲ آرمی حکام کے زیر حراست تھا۔ لطیف یوسفزئی کا کہنا تھا کہ میری اطلاع کے مطابق آرمی اتھارٹیز کے پاس یہ کیس بہت آگے نکل چکا ہے۔ کیس آرمی اتھارٹیز کے پاس حتمی مرحلہ میں ہے کئی گواہوں کے بیان ریکارڈ کر لئے گئے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیا کہ کیا ملوث افراد کے خلاف کورٹ مارشل ہو رہا ہے آپ یہ کہہ کر فارغ ہو گئے کہ ہم نے بندے فوج کو دیئے۔ صوبہ بھی تو اپنے اختیارات استعمال کرے معاملہ اب آپ کے ہاتھ سے آرمی اتھارٹیز کے پاس چلا گیا اب یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ یہ کیس واپس آپ کے پاس آئے گا یا و ہیں رہے گا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حاضر سروس اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج ہو سکتی ہے۔ یہ سوال جواب طلب ہے کہ ٹرائل فوجی عدالت میں چلایا جائے گا یا سول عدالت میں جو بھی مجسٹریٹ فوجی اہلکاروں کو فوجی حکام کے حوالے کر سکے۔ اس حوالے سے بھی قواعد ہونے چاہیں۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ اگر کوئی مجسٹریٹ فوجی اہلکار کا مقدمہ منتقل کرتا ہے تو اس کیلئے قواعد ہونے چاہئیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر خود کو کمانڈنٹ کا ماتحت نہ سمجھیں بلکہ وہ اپنا دماغ استعمال کرتے ہوئے قانون کے مطابق میرٹ پر کارروائی کریں۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ اگر ملزم کو فوجی حکام کے حوالے کرنے کا فیصلہ قانون کے مطابق نہ ہوا تو مقدمے کی ساری کارروائی ختم ہو جائے گی۔