بعض لوگ بعض الفاظ کا استعمال تسلسل و تواتر سے کرتے ہیں۔ شاید انہیں ایسے الفاظ استعمال کرنے میں بے حد مزہ آتا ہے اوروہ چسکے کے طور پر بعض الفاظ کو باربار زحمت دیتے ہیں۔ ایسے لوگ ان الفاظ سے ان کی مرضی یا منشا بھی نہیں پوچھتے۔ ہمیں ایک ہی لفظ کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہونیوالے لوگوں کے بارے میں یہ خیال آتا ہے کہ شاید انکی پاس کوئی اُردو نعت نہیں ہوتی یا پھر کسی خاص لفظ کے ساتھ انکی انسیت اتنا فروغ پا چکی ہوتی ہے کہ وہ اس لفظ سے ایک حرف بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتے شاید کچھ الفاظ کا صوتی تاثر ہی ایسا ہوتا ہے یا پھر ان الفاظ کے اندر ایسے زبردست معنی پوشیدہ ہوتے ہیں کہ بعض لوگوں کیلئے اس سے بہترین الفاظ استعمال کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ مثال کے طورپر ہمارے ایک دوست لازم و ملزوم کے الفاظ اپنی گفت گو میں کسی نہ کسی طرح لے آتے ہیں۔ ہم ذرا غور کریں تو ہمارے ملک میں لازم و ملزوم جیسے الفاظ کی شدید گنجائش ہے۔ یہ الفاظ کہیں نہ کہیں ہمارا تعاقب کررہے ہوتے ہیں۔ ہمارے بعض شعبوں میں بعض چیزیں لازم و ملزوم ہیں سیاست میں جلسے جلسوں ، شاعری میں مشاعرے۔ تعلیم میں امتحانات، پہلوانی میں کشتی، بجلی کے شعبہ میں لوڈشیڈنگ اور پولس میں وہی جو آپ سمجھتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے لازم و ملزوم میں تبدیلی بھی ہوسکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کسی سیاسی جلسے میں جائیں تو وہاں آپکو مشاعرے کا لطف و سرور آنے لگے اور آپ سیاسی جلسے میں شریک ہونیوالے لیڈر ان کو شاعر سمجھ کر ان پر داد کے ڈونگرے برسانے لگیں۔ ہمارے عمران خان صاحب نے حال ہی میں اسلام آباد میں ایک جلسہ کیا ہے‘ جسے ہم آسان اور مناسب الفاظ میں مشاعرہ کہہ سکتے ہیں۔ اب لوگوں کے پاس مشاعروں میںجانے کیلئے ایک تو وقت نہیں، دوسرے ، کچھ ذوق کی بھی بات ہوتی ہے۔ بہر حال وقت اپنا اپنا، ذوق اپنا اپنا کسی زمانے میں مشاعرے بھی اتنے ہی بڑے ہوتے تھے۔ جتنا بڑا جلسہ عمران خان صاحب نے کردکھایا ہے سیاسی جلسے کے لوازمات اور مشاعرے کے لوازمات میں کوئی فرق دکھائی نہیں دے رہاتھا۔ مشاعرے میں بھی سٹیج ہوتا ہے اور سٹیج پر شاعر رونق افروز ہوتے ہین اور سامے سامعین کیلئے کرسیاں ہوتی ہیں۔ بعض مشاعروں میں طرح مصرع بھی دیا جاتا ہے اور کسی خاص موضوع پر بھی طبع آزمائی کی دعوت دی جاتی ہے۔ عمران خان صاحب نے اسلام آباد کے اس مشاعرے میں ’’گذشتہ انتخابات میں دھاندلی‘‘ کو موضوع دیا تھا شیخ رشید صاحب ٹاک شوز کے بڑے دھنی شاعر ہیں کسی موضوع پر بند نہیں ہیں۔ قدرت کی طرف سے طبعیت رواں پائی ہے۔ غزل بھی کہتے ہیں، ہجو میں بھی یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ پابند نظمیں، آزاد نظمیں اور نثری نظمیں فی البدیہ کہنے کا ملکہ رکھتے ہیں اسلام آباد کے اس مشاعرے میں اُنکی غزل خاصی ماٹھی رہی۔پھر بڑے احترام سے سیاست کے مایہ ناز شاعر شاہ محمود قریشی صاحب کو دعوت سخن دی گئی۔ شاہ محمود قریشی اتنے منجھے ہوئے شاعر ہیں کہ انگریزی اردو کے الفاظ انکے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ مشاعرہ کسی چھت تلے ہوتو وہ چھت اُڑ جاتی ہے اور اوپن ائر میں ہورہا ہوتو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ڈائس سمیت خود ہوا یا خلا میں پرواز کرجائینگے سامعین نے شاہ صاحب کی غزل احتراماً سنی ورنہ پیاز کی طرح اس غزل میں سے بھی کچھ برآمد نہ ہوا۔ ہم مقطع تک منتظر رہے کہ شاہ صاحب ایک آدھ شعر ہی سے ہمیں پھڑکا اور تڑپا کر رکھ دینگے۔ امید پر دنیا قائم ہے اگلے مشاعرے میں سہی اب میر مشاعرہ جناب عمران خان کی باری تھی۔ انکے ابتدائی الفاظ سے یوں محسوس ہوا۔ جیسے وقت نماز آگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، جو شکر کرتا ہے، اسے میں زیادہ دیتا ہوں۔ عمران خان نے چار نشستوں کا مزید مطالبہ شاعرانہ انداز میں کیا ہے لوگ خان صاحب کے ایک شعر پر دم بخور رہ گئے ہیں جس میں انہوں نے ایک اخبار کے مالک سے نہ ڈرنے کا اچھوتا خیال پیش کیا ہے۔ آج تک سیاست میں ایسا خیال نہیں پیش کیا گیا لوگ خاطر جمع رکھیں۔ سیاست میں ایسے مشاعرے ہوتے رہیں گے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024