کراچی آپریشن، وزیراعظم کی برہمی اور وزیراعلیٰ سندھ کی ذمہ داری

کراچی میں امن و امان کی صورتحال پر وزیراعظم نوازشریف کی زیرصدارت ایک اور اجلاس گذشتہ روز منعقد کیا گیا جس میں وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، سابق صدرمملکت آصف علی زرداری، چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیرالسلام اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد اور ایم کیو ایم کے دیگر نمائندے بھی اجلاس میں موجود تھے۔
اجلاس کے دوران وزیراعظم نوازشریف نے گذشتہ اجلاسوں میں اپنے جاری کئے گئے چھ احکامات میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہ ہونے پر تشویش اور برہمی کا اظہار کیا لیکن افسوس ناک پہلو ہے کہ گذشتہ اجلاسوں کے دوران وزیراعظم کی طرف سے جاری کئے گئے احکامات میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کراچی کے حالات قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور ایف سی کے کنٹرول میں نہیں آ رہے۔ وزیراعظم کو اس مرتبہ اجلاس کے دوران جس طرح معلوم ہوا ہے کہ انکے احکامات کو نظرانداز کر کے ان پر عملدرآمد نہیں کیا گیا اگر وہ اس تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے حالیہ اجلاس کے دوران جاری کئے گئے احکامات اور تجاویز کو اپنے ذہن میں رکھیں اور کراچی جب تک نہ آ سکیں کراچی کے حالات کی بہتری کیلئے ان تجاویز اور احکامات پر عملدرآمد کے حوالے سے رپورٹ حاصل کرتے رہیں اور متعلقہ حکام، منتخب نمائندوں اور دیگر ذمہ داران جن کو اختیارات اور ذمہ داریاں تفویض کی گئی ہیں ان سے بازپرس کرتے رہیں تاکہ کراچی کے حالات میں بہتری آ سکے وگرنہ کراچی کے حالات مسلسل ابتری کا شکار چلے آ رہے ہیں۔
گو آپریشن کے فیصلے کے بعد حالات میں کچھ بہتری آئی ہے مگر اسے اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ آج بھی کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، بھتہ مافیا اور دیارغیر سے بیٹھ کر بھتہ مافیا کراچی کے صنعت کاروں، ڈاکٹرز، انجینئرز اور دیگر معاشرتی ترقی میں کردار ادا کرنیوالے افراد کو ٹیلی فون کے ذریعے ہراساں کر رہے ہیں اور انکے کارندے کراچی میں موجود ہیں جو آسانی سے بھتہ وصول کر کے اس رقم میں سے اپنا حصہ رکھ کر باقی ماندہ رقم کو بینکوں کے ذریعے دیارغیر منتقل کر دیتے ہیں۔
کراچی میں آج بھی کشت و خون کی ہولی جاری ہے۔ روزانہ کراچی میں پانچ سے چھ افراد کے اوسطاً ناحق قتل ہو جانے اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات سے اخبارات بھرے پڑے ہوتے ہیں۔
کراچی میں آپریشن کے حوالے سے ایم کیو ایم کے بھی کچھ نہ کچھ تحفظات سامنے آتے رہتے ہیں جس پر قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور بالخصوص پولیس کو بھی شدید تحفظات ہوتے ہیں۔ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے تحفظات بلاشبہ ایم کیو ایم کے تحفظات اور سوچ کے برعکس ہوتے ہیں لیکن اس صورتحال کو بھی سلجھانے کی ضرورت ہے تاکہ صحیح معنوں میں آپریشن بغیر کسی رکاوٹ اور تمیز کے قانون کیمطابق جاری رہ سکے۔ کراچی کے اعلیٰ پولیس حکام جن میں سی سی ٹی او کراچی بھی شامل ہیں وہ متعدد مرتبہ اس بات کا انکشاف اور اعتراف کر چکے ہیں کہ غیررجسٹرڈ سمز کی وجہ سے لاقانونیت بڑھ رہی ہے۔ اس ضمن میں پی ٹی اے کو صوبائی محکمہ داخلہ اور وفاقی وزارت داخلہ کیساتھ باہم متحرک کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس مسئلے پر فوری طور پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے سربراہان اور خوش آئند بات ہے کہ پاک فوج کے سربراہ کے ہمراہ آن بورڈ لانا ایک اچھا فیصلہ ہے جس سے یقینی طور پر تمام سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور ہو جانے چاہئیں اور اسکے ساتھ ہی تمام سیاسی جماعتوں جن کے بارے میں مسلح ونگز رکھنے کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں اور ماضی کے سالوں میں سپریم کورٹ اپنے ریمارکس میں کہہ چکی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگز موجود ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی سرگرمیوں کو قانون کے دائروں میں رکھیں تاکہ کسی کو بھی کراچی میں ہونیوالے آپریشن پر تحفظات محسوس نہ ہو سکیں۔ اس طرح سے آپریشن بلاتشخیص اور قانون کیمطابق بلاتمیز جاری ہو سکے گا جس سے کراچی کے حالات بہتری کی طرف گامزن ہوں گے۔ بہتری آنے سے کراچی کے عوام سکھ کا سانس لے سکیں گے اور ملک کی معیشت پر بھی اسکے دور رس مثبت اثرات مرتب ہونگے۔
قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور سیاسی جماعتوں دونوں کو اپنی کوتاہیاں ترک کر کے خلوص نیت سے کراچی آپریشن کو کامیاب بنانے کی ضرورت ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کو وزیراعظم نے آپریشن کا کپتان قرار دیا ہے، وزیراعلیٰ سندھ اپنی بھرپور توانائیاں صرف کریں اور اس کا عملی مظاہرہ کریں۔ سب سے اہم ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے، انکی طرف سے بھرتی جانے والی معمولی سی عدم توجہی آپریشن کی ناکامی کا سبب بن سکتی ہے۔ آخر اب تک آپریشن کے ثمرات برآمد کیوں نہیں ہو سکے، اس بارے میں سوچنا سب سے پہلا اور بنیادی کام ہے تو وزیراعلیٰ سندھ کا ہی ہے۔