توانائی بحران کا عفریت منہ پھاڑے کھڑا ہے، کرپشن کا جن سب کچھ ہڑپ کرجانے کے موڈ میں دکھائی دیتا ہے، مہنگائی کا طوفان ہر بساط لپیٹ دینے کے چکر میں نظر آتا ہے،دہشت گردی اور عدم تحفظ کے احساس کی بلا ایسے گلے پڑی ہے کہ جان ہی نہیں چھوڑ رہی۔ کون سا مسئلہ ہے جو اس ملک میں درپیش نہیں ہے؟ اسپتالوں میں بروقت ڈاکٹر ملتے ہیں نہ پوری اور اصل ادویہ دستیاب ہوتی ہیں، تعلیمی اداروں سے تعلیم کے ساتھ ساتھ اساتذہ بھی غائب ہوتے جارہے ہیں، تھانے مظلوم کی داد رسی کی بجائے ظالم کو مزید ظلم پر ابھارنے کا باعث ہیں۔ملوں اور کارخانوں میں پیداوار کیلئے گیس بجلی نہیں تو مزدوروں کیلئے روزگار بھی نہیں۔ملک میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے وسائل کی کمی ہے اور افرادی قوت بے یقینی کی صورتحال سے دوچار باہر کی جانب دیکھنے پر مجبور ہے۔ ملکی ادارے مستحکم نہیں ہیں، معیشت تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی ہے، قانون کی عمل داری کا نام و نشان تک دکھائی نہیں دیتا اورحلف اٹھاکر ذمہ داریاں سنبھالنے والے ہی آئین کی دھجیاں بکھیرنے کا باعث ہیں۔ یہ ہے دراصل ملکی صورتحال کا خلاصہ!یقینااس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس وقت پاکستان اور پاکستان کی مرکزی اور تمام صوبائی حکومتیں جن مسائل اور جن چیلنجز میں گھری ہوئی ہیں، ان کی سنگینی پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ سوال پوچھا جاتا ہے کہ اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ یقینا سب ذمہ دار ہیں لیکن ملک چلانے والے یا ملک چلانے کی دوڑ میں شامل تمام سیاستدان اس صورتحال کے زیادہ ذمہ دار ہیں؟ دوسری جانب یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ عوام کے اصل نمائندوں کو جب بھی حکومت ملی توآمریت کے چرکوں سے پاکستان زخم زخم تھا۔ آخری مرتبہ تو انتہا ہی ہوگئی کہ نو برس کے تھکا دینے والے انتظار کے بعد 2008ء میں عوامی نمائندوں کو حکومت ملی تو وطن عزیز کا چپہ چپہ زخموں سے چور تھا۔ 2008ء کے عام انتخابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ، بلوچستان اور مرکز، مسلم لیگ نون نے سب سے بڑے صوبے پنجاب اورعوامی نیشنل پارٹی نے خیبر پختونخواہ میں جن حالات میں حکومت کی ہے۔ وہ کسی کارنامے سے کم نہیں، یہ سیاسی جماعتوں کا ہی "جگرا" تھا کہ انہوں نے ناگفتہ بہ حالات میں ملک کی تمام اکائیوں اور تمام سٹیک ہولڈرز کو اکٹھے لے کر چلنے کی بھرپور کوشش کی ۔اس کے بعد سال 2013ء کے عام انتخابات کے نتیجے میںپاکستان پیپلز پارٹی کو سندھ میں پانچویںمرتبہ، مسلم لیگ نون کو پنجاب میں چھٹی مرتبہ، تحریک انصاف کو کے پی کے میں اور ڈاکٹر عبدالمالک کو بلوچستان میں پہلی مرتبہ حکومتیں بنانے کا موقع ملا۔اس وقت ملک کی تقریبا تمام کی تمام سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی حوالے سے اقتدار میں ہیں، کہیں براہ راست تو کہیں حکومتی اتحاد کا حصہ بن کر۔
اس وقت ملکی مسائل جیسے بھی ہیں ، ان سے باہر نکلنے کیلیٔے ضروری ہے کہ وہ تمام سیاسی جماعتیں جو اس ملک میں اقتدار میں ہیں یا کبھی نہ کبھی اقتدار میں رہ چکی ہیں، وہ اپنے ماضی کاپوری دیانتداری اور باریک بینی سے جائزہ لیںکہ ماضی میں اُن سے وہ کیا غلطیاں سرزد ہوئیں، جن کے باعث غیر جمہوری قوتوں کو ملک پر اپنا ایجنڈا مسلط کرنے اور ملک کی اساس کو کمزور کرنے کا موقع ملتا رہا۔ماضی کی ان غلطیوں کو سامنے رکھتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو آئندہ کا لائحہ عمل اور پالیسیاں مرتب کرنی چاہئیں۔ جن محاذوں پرسیاسی جماعتیں اب تک کامیاب نہیں ہوسکیں، کیا ان پر مزید کام کرنے کی ضرورت نہیں؟ یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ ان محاذوں پر ناکام ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟ بالخصوص اس ملک سے ناخواندگی، بیروزگاری، جہالت، امن و امان کی خراب صورتحال، بھوک اور افلاس کا خاتمہ برسوں سے خواب ہے۔اس خواب کو تعبیر دینے کیلئے جدوجہد تیز کرنے ضرورت ہے۔ پاکستان کو اس وقت مفاہمت اور مصالحت کی سیاست کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر پاکستان بحیثیت ملک اور پاکستانی بحیثیت قوم آگے نہیں بڑھ سکتے، اور یہی بات سیاسی رہنماؤں اور قوم کو واضح انداز میں باور کرانے کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتیں اب بار بار مخصوص عناصر،’’کارنرز‘‘اور استعمار کے ایجنٹوں کے ہاتھوں شکار ہونا افورڈ نہیں کرسکتیں۔ اس لیے سیاسی جماعتوں کو زیادہ پختگی اور بلوغت کامظاہرہ کرنا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کوایسی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر آئندہ جمہوریت کو پٹری سے اتارنے کی کوئی سازش یا کوشش کی جائے تو تمام غیر جمہوری قوتوںکو منہ کی کھانی پڑے۔ سیاسی جماعتوں کو اپنے عوامی رابطوں کو بھی بڑھانا ہوگا۔ عوام سے مسلسل رابطہ رکھنے سے ناصرف عوام تک براہ راست پارٹی کا پیغام اور مختلف ایشوز پر پارٹی کا موقف پہنچایا جاسکتا ہے، بلکہ انہیں مختلف ایشوز پر حکومت کی پالیسیوں پر قائل بھی کیا جاسکتا ہے اور غیر جمہوری عناصر کے منفی پراپیگنڈے کا توڑ بھی کیا جاسکتا ہے۔ ایک الیکشن جیتنے کے بعد پانچ سال انتظار کرنے کی بجائے سیاسی جماعتوں کوفوراً اگلے انتخابات کی تیاری شروع کردینی چاہیے۔ حکومتیں یہ تیاری عوام کی فلاح و بہبود، ترقیاتی کاموں، بہتر پالیسیوں اور عوام کے ساتھ قریبی رابطوں سے کرتی ہیں۔ عوام کی فلاح و بہبود کیلئے مرکزی اور صوبائی حکومتیں مشکل ترین حالات کے باوجود جو کچھ کررہی ہیں ، اس سے کہیں زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنے اور سیاسی جماعتوں میںبھی نوجوان خون شامل کرنے کی ضرورت ہے۔اس طرح بھی نوجوانوں میں پائی جانے والی مایوسی ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ افسوس ناک طور پر سیاسی جماعتوں کے اندر مشاورت کا عمل وسیع اور باقاعدہ نہیں ہے، حالانکہ پارٹی ارکان کے انفرادی تجربے، خیالات کے تنوع اور ذاتی دانش کو قومی مسائل کے حل کیلئے اجتماعی کوشش میں بدلاجاسکتا ہے۔
قارئین کرام! پرویز مشرف کی اقتدار کے ایوانوں سے رخصتی کے بعد سے سیاستدان اپنی کارکردگی کے حوالے سے مسلسل تنقید کی زد پر ہیں، لیکن سیاسی جماعتوں کو اس تنقید سے پریشان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ سیاسی جماعتیں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر اقتدار میں آتی ہیں، اس لیے سیاسی جماعتوں سے توقع اور امید بھی زیادہ بہتر کارکردگی کی ہی لگالی جاتی ہے اور یہ کچھ غلط یا ناجائز بھی نہیں۔ سیاستدانوں کو صرف یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ایک آمر تنقید سے گھبرا کر غلطی پہ غلطی کیے چلا جاتا ہے، جبکہ جمہوری حکومتیں اپنی غلطیوں سے سیکھتی ہیں۔ اس وقت ملک اگر مسائل کے انبار میں گھرا ہوا ہے تو سیاستدانوں کو تنقید سے گھبراکر غلطیاں کرنے کی بجائے ان مسائل کو حل کرنے کا چیلنج قبول کرنا چاہیے تاکہ آمرانہ اور جمہوری حکومتوں میں کچھ فرق تو نظر آئے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024