قومی اسمبلی نے تحفظ پاکستان آرڈیننس مجریہ 2014 میں مزید 120 روز کی توسیع کیلئے قرارداد گذشتہ روز کثرت رائے سے منظور کر لی۔ اپوزیشن نے اجلاس کی اس کارروائی سے احتجاجاً واک آئوٹ کیا اور کالا قانون نامنظور کے نعرے لگائے۔ جے یو آئی کے ارکان نے آرڈیننس کی مخالفت کے باوجود واک آئوٹ میں حصہ نہیں لیا۔
اگرچہ وفاقی وزیر زاہد حامد کی جانب سے متذکرہ آرڈیننس کی معیاد میں توسیع سے متعلق قرارداد پیش کرنے کا یہ جواز پیش کیا گیا کہ حکومت اپوزیشن کی مشاورت سے سینیٹ میں یہ آرڈیننس متفقہ طور پر منظور کرانا چاہتی ہے تاہم اسمبلی کے اجلاس کی موجودگی میں کسی آرڈیننس کے نفاذ میں توسیع حاصل کرنا پارلیمانی جمہوری روایات سے مطابقت نہیں رکھتا بالخصوص اس حوالے سے کہ اپوزیشن اس آرڈیننس کی سخت مخالفت اور مزاحمت کرتے ہوئے اس آرڈیننس کو کشمیریوں کیخلاف نافذ کئے گئے پوٹا اور ٹاڈا جیسے بھارتی کالے قوانین کے مترادف قرار دے رہی ہے۔ حکومت کو امن و امان کے حوالے سے ایسا کوئی آرڈیننس جاری کرنے اور برقرار رکھنے سے گریز کرنا چاہئے جس سے انسانی حقوق کے تحفظ کی آئینی شقوں کی موجودگی میں انسانی حقوق پر زد آنے کا اندیشہ لاحق ہو۔ اگرچہ اس آرڈیننس کا نفاذ سپریم کورٹ میں زیر سماعت لاپتہ افراد کے کیس کے تناظر میں ہُوا ہے جس کے ذریعے شہریوں کو ایجنسیوں کی جانب سے لاپتہ کرنے کا قانونی جواز نکالنے کی کوشش کی گئی ہے تاہم اس قانون کا عملی طور پر اطلاق کراچی میں جاری ٹارگٹڈ اپریشن پر ہو رہا ہے جس کے ذریعے رینجرز اور پولیس اہلکاروں کو دوران اپریشن کسی بھی مشتبہ شخص یا افراد کو حراست میں لیکر اس کے معاملات کی چھان بین کرنے اور گولی تک مارنے کے قانونی اختیارات حاصل ہو گئے ہیں۔ اصل ضرورت قانون پر قانون جاری کرنے کی نہیں، مروجہ قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرانے کی ہے جس میں حکومتی انتظامی مشینری قطعی ناکام نظر آتی ہے۔ اس تناظر میں اگر حکومت قومی اسمبلی میں تحفظ پاکستان آرڈیننس میں توسیع کی قرارداد لانے سے پہلے اپوزیشن اور دوسرے سٹیک ہولڈرز سے یہ مشاورت کر لیتی کہ اس آرڈیننس کو نافذ العمل رکھا جائے یا نہیں تو یہ زیادہ مناسب ہوتا۔ اگر حکومت اس آرڈیننس پر قومی اتفاق رائے حاصل کرنا چاہتی ہے تو یہ مقصد اپوزیشن کو مزید ناراض کر کے حاصل نہیں ہو سکتا جبکہ انسداد دہشت گردی سے متعلق مروجہ قوانین کو حقیقی معنوں میں عملی جامہ پہنانے کی صورت میں اس آرڈیننس کے نفاذ کا جواز ہی باقی نہیں رہے گا۔ اس لئے بہتر ہے کہ حکومت اس قانون کو زبردستی مسلط کرنے کے عزم سے رجوع کرلے جس کے بارے میں انسانی حقوق کے منافی کالے قانون کا تاثر پختہ ہو رہا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38