شیرخدا کی عدالت کا مثالی فیصلہ
حافظ محمد اسحاق جیلانی
دارالخلافہ کے انسپکٹر جنرل آف پولیس نے صبح سویرے امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مجلس میں حاضر ہو نے کی اجازت چاہی ۔ اس کے ہمراہ لوگوں کا ایک بڑا ہجوم تھا اور پو لیس کے چار آدمی ایک شخص کو حراست میں لئے ہوئے تھے۔ جس کے دونوں ہاتھ خون آلود تھے اورداہنے ہاتھ میں چھری تھی جس سے خون کے قطرے ٹپک رہے تھے اور ان سب کے پیچھے ایک لاش تھی جو خون میں نہائی ہوئی تھی اور پولیس کے کچھ آدمی اٹھا ئے ہوئے ل ارہے تھے ۔ پورامجمع زور زور سے قصاص کا مطالبہ کر رہا تھا۔ گرفتار شدہ شخص کے چہرہ کا رنگ زرد تھا۔ پیر لڑکھڑا رہے تھے اور انتہائی بے چینی و پریشانی کے عالم میں تھا۔ جسم کانپ رہا تھا۔ منظر حد درجہ خوفناک اور المناک تھا۔ جو دیکھتا ٹھہر جاتا اور قاتل کے خلاف اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتا اوراس کو پھانسی دیئے جانے کا مطالبہ کرتا۔ امیرالمومنین کی مجلس میں پہنچ کر پولیس کے سر براہ نے بیان کیا کہ امیرالمومنین ہم نے اس گرفتار شدہ شخص کو مقتول کے قریب اس حالت میں کھڑا ہوا دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں چھری سے خون کے قطرے ٹپک رہے تھے اور مقتول کے جسم سے خون بہہ رہا تھا اور وہ وفات پاچکا تھا۔ ہم نے اس جائے حادثہ پر اس شخص کے سوا کسی اور کو نہیں دیکھا۔ اس لئے ہمیں ذرہ برابر بھی شبہ نہیں ہے کہ اس گرفتار شدہ شخص کے علاوہ کسی اور نے قتل کا ارتکاب کیا ہے۔ ہمیں ابتدائی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ مقتول متوسط درجہ کا آدمی تھا اوراس کی نہ کسی سے دشمنی تھی اور نہ کسی سے مطالبہ تھا ۔ وہ اپنے گھر جارہا تھا۔ ممکن ہے کہ کسی بات پر جو ہم معلوم نہ کر سکے۔ اس شخص سے جھگڑا ہو گیا اور اس نے شدت غضب سے بے قابو ہو کر اس پرحملہ کرکے قتل کردیا۔ امیرالمو منین نے گرفتار کئے ہوئے شخص سے دریافت کیا کہ تم نے اس آدمی کو قتل کیا ہے۔ اس نے قتل کا اعتراف کیا مگر قتل اس کے اسباب حالات اور تفصیلات کے بارے میں ایک لفظ نہ کہا بلکہ اس نے اپنا منہ بند کر لیا اور قتل کے اقرار کے سوا کوئی لفظ منہ سے نہ نکالا۔ امیرالمو منین اور ان کی مجلس کے کچھ اعیان اور پولیس کے آدمیوں نے پوری جدوجہد کی کہ ملزم قتل کی تفصیلات بیان کرے کہ اس نے اسے قتل کیوں کیا ہے؟ مگر اس کی زبان خاموش رہی۔ امیرالمومنین سیدنا حضرت علی ؓ نے ان ظاہری دلیلوں اور ملزم کے اعتراف کی بنا پر قصاص کے طور پر ملزم کو قتل کر دینے کا حکم دیا مگر کہا کہ اسے جیل لے جائو۔ عصرکی نماز کے بعد اس فیصلہ پر عمل کیا جائے گا اور اسے مجمع عام میں قتل کر دیا جائے گا۔ پولیس کے آدمی اس آدمی کو لے کر چلے ہی تھے کہ مجمع میں سے ایک شخص نکلا اوراس نے پولیس والوں کو ٹھہر جانے کے لئے کہا۔ پھر امیرالمو منین کی جانب بڑھا اور بلندآواز سے پکار کر کہا کہ : ’’امیرالمونین! قاتل یہ نہیں ہے یہ آدمی بالکل بے قصور ہے دراصل قتل میں نے کیاہے ۔‘‘
میں وہ شخص ہو ں کہ میری ماں نے میرا نام شیر رکھا ہے میری صورت جنگل میں رہنے والے شیر کی طرح خوفناک ہے‘‘۔
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت علی ؓ میں اٹھارہ ایسی صفات ہیں جو کسی اورصحابی میں نہیں ہیں۔ جس جگہ قرآن مجید میں آیا ہے ترجمہ: اے لوگو! ایمان لائو وہاں یہ سمجھنا چاہیے کہ حضرت علی ؓ ان ایمان والوں کے امیر و شریف ہیں۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ جس دن میر ی آنکھوں میں آقا و مو لیؐ نے اپنا لعاب دہن اقدس لگایا تھا اور علم عطا فرمایا تھا اس دن سے نہ میری آنکھیں دکھنے آئیں اور نہ میرے سر میں درد ہوا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ آپس میں کہا کرتے تھے کہ ہم اہل مدینہ میں حضرت علی ؓ سب سے زیادہ معاملہ فہم ہیں۔ جلیل القدر تابعی حضرت مسروق ؓ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام کا علم اب حضرت علی، حضرت عمر، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ تک محدود رہ گیا ہے۔ حضرت حسن ؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت علی ؓ بصرہ تشریف لائے تو ابن الکواء اور قیس بن عبادہ ؓ نے کھڑے ہوکر دریافت کیا بعض لوگ کہتے ہیں کہ رسولؐ نے آپ سے وعدہ فرمایا تھا کہ میرے بعد تم خلیفہ ہوگے۔ یہ بات کہاں تک سچ ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ بات بالکل غلط ہے۔ جب میں نے سب سے پہلے حضورؐ کی نبوت کی تصدیق کی تو اب آپ پر جھوٹ کیوں تراشوں ؟ اگر حضورؐ نے مجھ سے اس قسم کا کو ئی وعدہ کیا ہوتا تو میں حضرت ابو بکر و حضرت عمر ؓ کو منبر پر کیو ں کھڑا ہونے دیتا میں ان دونوں کو قتل کر ڈالتا خواہ میرا ساتھ دینے والا کوئی بھی نہ ہوتا۔ یہ سب جانتے ہیں کہ رسول کریمؐ کی وفات اچانک نہیں ہوئی بلکہ آپ چند روز بیمار رہے اور جب آپ کی بیماری نے شدت اختیارکی اور موذن نے حسب معمول آپ کو نماز پڑھانے کے لئے بلایا تو آپ نے حضرت ابوبکر ؓ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا اور انہوں نے نماز پڑھائی او ر حضورؐ نے مشاہدہ فرمایا۔