صنعتی مرکز کے عوام معاشی بحالی کیلئے پر امید
ہفتہ رفتہ کے دوران ملکی تاریخ کے بہترین ٹرن آﺅٹ کے ساتھ 2013کے انتخابی نتائج اپنی تکمیل کے آخری مرحلے میں ہیں۔ ملک میں مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہونے جارہی ہے اور اس وقت پڑوسی اور دوست ممالک میاں نوازشریف سے پاکستان کے آئندہ وزیراعظم کے طورپر خیر سگالی کا اظہار کر رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام نے بم دھماکوں کی فضا میں ایک بڑے ٹرن آﺅٹ کے ساتھ ملک کے سابقہ حکمرانوں کی پالیسیوں کے خلاف اپنی رائے کااظہار کردیاگیا۔ اگر ایجنسیوں کی یہ خبر درست تھی کہ طالبان‘ مسلم لیگ ن‘ تحریک انصاف ‘ جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے یا ملک کی یہ چاروں سیاسی قوتیں طالبان کو عسکریت پسندی سے ہٹا کر قومی دھارے میں لانے کی خواہش مند تھیں تو الیکشن 2013 کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے یہ موقع آ گیاہے کہ اب ملک میں ایسی حکومت بنائی جائے تو پاکستان کے اندر دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے جنرل مشرف کی امریکہ نواز اس پالیسی کوپاکستان کے مفاد میں تبدیل کردیں۔ اس وقت مسلم لیگ ن کو قومی اسمبلی میں اتنی نشستیں حاصل ہوگئی ہیں کہ کم ازکم بیس پچیس آزاد ارکان قومی اسمبلی کے مزید دو دنوں کے اندر مسلم لیگ ن میں شامل ہوجانے کے بعد میاں نوازشریف ایسی حکومت تشکیل دے سکتے ہیں جو ملک کودہشت گردی کی فضا سے نجات دلا سکے۔ مسلم لیگ ن کو سندھ سے مسلم لیگ فنکشنل‘ نیشنل پاکستان پیپلزپارٹی اور بعض دیگر سیاسی قوتوں کی حمایت مل سکتی ہے تاکہ اسے ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی سے بلیک میل نہ ہونا پڑا ۔ البتہ مسلم لیگ ن ‘ سندھ میں اپنے اتحادیوں کو ساتھ ملا کر ایسی حکومت تشکیل نہیں دے سکتی جوپیپلزپارٹی یا ایم کیو ایم کو سندھ حکومت کیلئے ساتھ ملائے یا ان میں سے کسی کے ساتھ ملے بغیر بن سکتی ہو۔ سندھ حقیقی مینڈیٹ پیپلزپارٹی کے پاس ہے کہ پیپلزپارٹی کو 61نشستیں ملی ہیں۔ اگر وہاں پیپلزپارٹی ایم کیو ایم کو اپنا اتحادی بنالیتی ہے تو ان دونوں کی اکانوے نشستیں ہوجائیں گی اور یہ دونوں وہاں ایک مستحکم حکومت بناسکتی ہیں لیکن ‘ ان دونوں جماعتوںکی سندھ میں پہلے بھی حکومت رہی ہے اور ان دونوں کو سندھ حکومت کے ہوتے ہوئے میاں نوازشریف کی وفاقی حکومت ‘ کراچی کو ایک مرتبہ روشنیوں کاشہر کیسے بنا سکے گی۔ فیصل آباد میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی زیادہ ترنشستوں پرمسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے امیدواروں میں مقابلہ ہوا ہے اور فیصل آباد کے عوام کی اکثریت ملک میں اب ڈرون حملے نہیں چاہتی۔ انتخابات سے پہلے اور اب مسلم لیگ ن کی نناوے فیصد کامیابیوں کے بعد جو ریلیاں منعقد ہوئی ہیں ان میں وزیراعظم نوازشریف کے نعرے سننے میں آئے ہیں اور ان سے تقاضاکیاگیاہے کہ وہ امریکہ کو پاکستان کی معاشی اور سیاسی پالیسیوں سے دور رکھے۔ اس وقت ایک طرف امریکہ کے صدر باراک اوباما‘ افغانستان کے صدر حامد کرزئی اور بھارت کے وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کی طرف سے میاں نوازشریف کو مبارک دی جاچکی ہے لیکن دوسری طرف خطے کی عسکری قوتیں بھی ان سے امید لگائے ہوئے ہیں کہ وہ خطے کوامریکہ اور بھارت کے استعماری عزائم سے کس طرح نجات دلاتے ہیں۔میاں نوازسریف کو ڈورون حملوں کے خاتمہ اور خطے میں امریکی عسکریت کو ختم کرنے کیلئے سب سے زیادہ صوبہ خیبر پختونخواہ کی حکومت کے تعاون کی ضرورت ہے۔ ہر چند اس صوبے میں تحریک طالبان کی حکومت بننے کی صورت میں بھی انہیں طالبان کی عسکریت پسندی کے خلاف امریکی کردار کوختم کرکے طالبان کو قومی دھارے میں لانے میں مدد ملے گی لیکن جیسا کہ جمعیت علمائے اسلام کے سر براہ مولانا فضل الرحمن نے الیکشن 2013کے نتیجے میں مسلم لیگ ن کی کامیابی پر میاں نوازشریف سے ٹیلیفونک رابطہ میں اس خواہش کااظہار کیاہے کہ وہ چاہیںتو جمعیت مسلم لیگ ن کو کے۔پی میں حکومت بنانے کیلئے تعاون فراہم کرسکتی ہے۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں مسلم لیگ ن کے ایک سابق وزیراعلیٰ جو قومی اسمبلی کے رکن منتخب نہیں ہوئے ہیں البتہ انہیں اس صوبہ کی صوبائی اسمبلی کی رکنیت حاصل ہوگئی ہے‘ صوبہ کے ۔پی کے 9‘ ارکان اسمبلی نے ان سے رابطہ کرکے صوبہ میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنانے کی پیشکش کی ہے۔ اگر یہ 9ارکان مسلم لیگ ن میں شامل ہوجاتے ہیں تو اس اسمبلی میں مسلم لیگ ن‘ تحریک انصاف کے بعد دوسری بڑی سیاسی جماعت بن جائے گی جس کے ارکان کی تعداد 22ہوجائے گی۔ اس صوبہ میں جمعیت علمائے اسلام کے بھی کم ازکم پندرہ ارکان‘ مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کاارادہ رکھتے ہیں۔ اس صورت میں شیر پاﺅ کی قومی وطن پارٹی اورجماعت اسلامی میں سے کوئی ایک یادونوں کو وسیع ترقومی مفاد میں مسلم لیگ ن اپنی حکومت میں شامل کرلے تو اسے کے ۔پی اسمبلی میںپچاس فیصد سے زیادہ ارکان اسمبلی کی حمایت سے بننے والی مخلوط حکومت بنانے کا موقع مل سکتاہے اور چونکہ مرکز میں خود مسلم لیگ ن کی اپنی حکومت اقتدار میں ہوگی لہذا صوبہ کے ۔پی میں اس کااپنا وزیراعلیٰ ہوگا تو اس صوبہ سے وفاقی حکومت کوہر قسم کاتعاون ملے گا۔ اسلام آباداورپشاور میں ہم آہنگی رہے گی اور اس طرح طالبان سے حتمی مذاکرات کیلئے مرکزی حکومت کو صوبائی حکومت کا آئیڈیل تعاون مل سکے گا۔ تحریک انصاف کی قیادت بجائے خود خطے سے امریکہ کے اثر ورسوخ کاخاتمہ چاہتی ہے اور ان حالات میں اپوزیشن کاایک بڑا دھڑا حکومت کانام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں کوئی ایسا کردار اداکرنے میں مدد دے گا جس سے خطے میں اتحاد ی فوجوں کاکردار ختم کرنے کے ساتھ ساتھ کابل پر اس دوران بھارتی مفادات کے حصار کو توڑا جاسکے۔ بھارت کے وزیراعظم ڈاکٹر من موہن میاں نوازشریف کو دورہ بھارت کی دعوت دے چکے ہیں اور میاں نوازشریف نے ایک بیان میں کہاہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کومتاثر کئے بغیرڈرون حملوں کو بند کرانے میںکامیاب ہوجائیں گے ۔ اگر صوبہ کے ۔پی میں مسلم لیگ ن اپنی حکومت نہیں بناتی تو تحریک انصاف‘ مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحادی حکومت بنانے میں کامیابی ہوجاتی ہے تویہ اور بھی بہتر صورتحال ہوسکتی ہے۔ تحریک انصاف صوبہ کے۔پی میں اکثریتی پارٹی ہے۔ اسے اس وقت تک 34نشستیں مل چکی ہیں۔ صرف جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کرلیاجائے تو یہ تعداد41ہوجائے گی اور صوبائی اسمبلی کے13آزاد ارکان میں سے9ارکان تحریک انصاف میں شامل ہوجائےں تو تحریک انصاف جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر حکومت بناسکتی ہے۔ قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی ایم کیو ایم کے متحد ہوجانے سے اپوزیشن لیڈر لازمی طورپرپیپلزپارٹی سے ہوگا لیکن ان دونوں جماعتوں میںکوئی ایسا رکن قومی اسمبلی موجود نہیں ہے جو ملک کے جاندار اپوزیشن لیڈر کے طورپر ابھر کرسامنے آسکے لہذا آزاد ارکان کے علاوہ عمران خان کو جماعت اسلامی کے تین‘ مسلم لیگ ق کے دو‘ مسلم لیگ ضیاءشہید کے اعجاز الحق، عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید ‘ عوامی نیشنل پارٹی کے واحد رکن اسمبلی امیرحیدر خان ہوتی اور بلوچستان سے نیشنل پارٹی کے دو ارکان کی حمایت حاصل ہوجائے تو اس امر کا امکان ہے کہ قائد حزب اختلاف پیپلزپارٹی یاایم کیو ایم سے لئے جانے کے بجائے تحریک انصاف کے قائد عمران خان کو یہ ذمہ داری تفویض کی جاسکے‘ جو اس ملک کے وسیع تر مفاد میں ہوگی۔