سب سے بڑے بنک فراڈ کیس (9 ارب روپے) کے اہم ترین ملزم ہمیش خاں کو سپریم کورٹ کے حکم پر قومی احتساب بیورو کی تحویل میں امریکہ سے پاکستان لایا گیا ہے۔ ریمانڈ لے لیا گیا ہے۔ عدالت عظمٰی کے حضور پیش کر دیا جائے گا۔ مقدمہ چلے گا۔ توقع کی جا رہی ہے اتنے بڑے جرم کے اہم حقائق پوری طرح منظرعام پر آئیں گے۔ کھلے اور چھپے ہوئے مجرموں کے نام طشت ازبام ہونگے۔ کون کتنا قصوروار اور کتنی سزا کا مستحق ہے۔ سب واضح ہو جائے گا۔ اہم ترین بات یہ ہے مقدمے کی کارروائی کے دوران اور ملک کی سب سے بڑی عدالت انصاف کے فیصلے کی روشنی میں جو چہرے بے نقاب ہونگے اور جس نوعیت کے جرم کی حقیقت کھلے گی۔ وہ آئندہ کے لئے ایک بڑی نظیر اور عبرت کی مثال کا کام دے گی۔ بینک فراڈ اور ملتے جلتے مالی سکینڈل اتنے آسان نہیں رہیں گے۔ بڑے ریاستی اور سیاسی عہدوں پر جائز یا ناجائز شخصیتوں کے لئے مالی فوائد حاصل کرنے کی خاطر دوسروں کو آلہ کار بنانے کا رواج بری طرح متاثر ہو گا۔ ہمیش خاں کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ وہ چوتھے فوجی ڈکٹیٹر کا ذاتی دوست ہے۔ اس دور کے پنجاب کے حکمرانوں کے ساتھ بھی اس کے تعلقات تھے۔ اسے بنک آف پنجاب کا سربراہ مقرر کرنے کی سٹیٹ بنک آف پاکستان کی جانب سے مخالفت کی گئی تھی۔ اس کے باوجود وقت کے اہم ترین حکومتی عناصر کے ساتھ دوستی کی بدولت بنکنگ کے شعبے میں اتنے بڑے منصب پر پہنچ گیا۔ ظاہر ہے اس کے بعد اس نے اپنے سرپرستوں کی خواہشات کی تکمیل کرنا تھی۔ اس کی خاطر غیر قانونی ذرائع کو استعمال میں لانا تھا۔ سو اس نے سب کیا۔ 9 ارب روپے کا قرضہ دینے کے عوض پچاس کروڑ روپے اپنی جیب میں ڈالے۔ یہ ایک فراڈ کیس کی کہانی ہے۔ معلوم نہیں اس کے علاوہ کیا ہوا ہو گا اور کتنی رقم مزید بٹوری ہو گی۔ یہ سب چھپا نہیں رہنا چاہئے۔ ہمارے یہاں بڑے لوگوں کے جرائم پر ہمیشہ پردہ ڈالا جاتا رہا ہے۔ وہ غیر معمولی اثر اور حکومتی رسوخ کی وجہ سے قانون کی گرفت میں کم آئے ہیں۔ اسی بنا پر انتہائی بڑے پیمانے پر بدعنوانی اور لوٹ مار کا بازار ہمیشہ گرم رہا ہے۔ ہمارے ملک میں صحیح معنوں میں کسی کا احتساب نہیں ہوا۔ اس وقت جو ہم آزاد عدلیہ کی نعمت سے سرفراز ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ بغیر کسی کا لحاظ اور پرواہ کئے ہوئے ایک سے بڑھ کر ایک ملزم کو اپنی جناب طلب کر رہا ہے خواہ وہ کتنے بڑے عہدے پر ہو یہ سلسلہ اگر اپنے بہترین نتائج تک جاری رہا تو پاکستان میں قانون کی حکمرانی کے پھریرے لہرانے شروع ہو جائیں گے۔ احتساب کا عمل ثمر آور ثابت ہو گا اور پاکستان کو جو رشوت ستانی اور اعلیٰ ترین عہدیداروں کی بدعنوانیوں کی وجہ سے بدنام کیا جاتا ہے اس کینسر سے نجات حاصل کرنے میں بڑی حد تک مدد ملے گی۔ لہٰذا پاکستان سے فرار ہو جانے والے ہمیش خاں کو اعلیٰ عدالتی نظام کے تحت امریکہ سے وطن لا کر جو عمدہ اور قابل تقلید مثال قائم کی گئی ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ اب مقدمہ اس طرح چلے کہ ہر ایک کے ساتھ انصاف ہو اور انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔ ہمیش خان کا جو بھی موقف ہے۔ وہ اپنے دفاع میں جو کچھ کہے گا۔ اس سے بھی عدالت کے ساتھ پوری قوم واقف ہو گی۔ انصاف کے تقاضے پورا ہونے میں کسر نہ رہے گی۔ اور جیسا کہ توقع کی جا رہی ہے کئی پردہ نشینوں کے نام ظاہر ہونگے۔ ان کا جرم بھی واضح ہو گا۔ اس کے بھی مثبت اثرات ملک کے نظام انصاف پر پڑیں گے۔ بہترین روایات قائم ہونگی۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو ہمیش خاں پر چلنے والا مقدمہ ہماری تاریخ کا ایک TEST CASE بن جائے گا.... اس کی نظیر تادیر پیش کی جاتی رہے گی۔ فراڈ کے ایک نہیں کئی دروازے بند ہونگے۔ اس سکینڈل نے کئی ناموں کو تو شروع میں ہی ملزموں کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ مشرف دور کا ایک اٹارنی جنرل موجودہ عہد کا ایک وفاقی وزیر اور اس شخص پر جس نے چوٹی کے ماہر آئین کی حیثیت سے ہر فوجی ڈکٹیٹر کو آئین کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دینے کی راہ دکھائی پر الزام ہے کہ انہوں نے 9 ارب روپے کا قرضہ حاصل کرنے والی کمپنی حارث سٹیل انڈسٹریز کے مالکان سے کروڑوں روپے کی رشوت وصول کی تاکہ مقدمے کا فیصلہ ان کے حق میں ہو۔ ایک صحافی نے بھی 35 لاکھ روپیہ لیا۔ جو اس نے واپس جمع کرا دیا ہے۔ یہ تو وہ نامی گرامی لوگ ہیں جو مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ”شہرت“ حاصل کر گئے ہیں۔ یہ کارروائی اختتام کو پہنچی تو کس کس کا بھیانک جرم سامنے آئے گا قوم یہ دیکھنے اور سننے کے لئے منتظر ہے کہ اسے کس کس نے لوٹا اور کتنا لوٹا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38