بجٹ کی تیاری پاکستان اور پاکستان سے باہر شروع ہو چکی ہے۔ صاف بات ہے فیڈرل بورڈ آف ریونیو تو مجبور ہے کہ اندر والوں کے احکامات بھی مانے اور باہر والوں کے مشوروں کو حکم کا درجہ دے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دنوں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سربراہ نے طویل چھٹی کی درخواست دے دی تھی لیکن وزیراعظم کے اقتصادی مشیر ان کے گھر منانے پہنچ گئے اور بالآخر انہیں طویل چھٹی کے ارادے مکمل نہ کرنے کی یقین دہانی کرنی پڑی۔
وزیراعظم کے سابق اقتصادی مشیر اور سینئر شوکت ترین نے صرف اسی لئے استعفیٰ دے دیا تھا کہ انہیں معلوم تھا کہ آئندہ بجٹ میں حکومت کیا کرنے جا رہی ہے اور عوام کا دستور ہے کہ جو کوئی بجٹ پیش کرتا ہے توپوں کا رخ بھی ادھر کر دیتی ہے اس لئے وہ تو بہت اچھی اننگ کھیل کر چوکے چھکے لگا کر سکون کی دنیا میں واپس آگئے لیکن اب فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور حکومت پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معیشت کی موجودہ صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے حقیقت پسندانہ عوام اور بزنس فرینڈلی بجٹ پیش کرے جو قطعاً مشکل کام نہیں ہے اگر فیڈرل بورڈ آف ریونیو تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے۔ اس مقصد کے لئے FPCCI اور مختلف ایسوسی ایشنز اور چیمبرز کے نمائندوں کی بجٹ تجاویز کانفرنسیں چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں رکھی جائیں جہاں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سربراہ بجٹ بنانے والوں کے ساتھ مل کر تمام تجاویز کو نوٹ کریں اور اعتراضات کا تسلی بخش جواب دیں۔
یکم جولائی سے شروع ہونے والے نئے مالی بجٹ میں VAT (ویلیو ایڈڈ ٹیکس) کا نفاذ یقینی سمجھا جا رہا ہے کیونکہ ورلڈ بنک اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے برملا اظہار کیا ہے کہ حکومت پاکستان کو VAT نافذ کرنا پڑے گا یعنی عام لفظوں میں ہم نے اپنی معیشت گروی رکھ دی ہے۔ FBR کے حکام اگر تفصیل سے بزنس کمیونٹی سے مذاکرات کریں تو شاید فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو بھی IMF کی ڈکٹیشن سے نجات مل جائے کیونکہ اس ڈکٹیشن کے نیجے میں عوام کا بدترین معاشی استحصال ہو رہا ہے اور بلاجواز بجلی، گیس اور پانی سمیت ہر چیز کی قیمت میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ IMF کو تو معلوم ہے کہ پاکستان میں مہنگائی پھیلانے کیلئے صرف توانائی کے شعبوں پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ لادنے کی ضرورت ہے اور اگر پھر بھی کوئی کسر باقی رہ جائے تو پھر VAT کا بوجھ لاد دیا جائے تاکہ پاکستان میں معاشی بدامنی پیدا ہوا جائے، معاشی سرگرمیوں میں رکاوٹ پیدا ہو اور مخالف ممالک بازی لے جائیں۔
وزیراعظم کے سابق اقتصادی مشیر اور سینئر شوکت ترین نے صرف اسی لئے استعفیٰ دے دیا تھا کہ انہیں معلوم تھا کہ آئندہ بجٹ میں حکومت کیا کرنے جا رہی ہے اور عوام کا دستور ہے کہ جو کوئی بجٹ پیش کرتا ہے توپوں کا رخ بھی ادھر کر دیتی ہے اس لئے وہ تو بہت اچھی اننگ کھیل کر چوکے چھکے لگا کر سکون کی دنیا میں واپس آگئے لیکن اب فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور حکومت پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معیشت کی موجودہ صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے حقیقت پسندانہ عوام اور بزنس فرینڈلی بجٹ پیش کرے جو قطعاً مشکل کام نہیں ہے اگر فیڈرل بورڈ آف ریونیو تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے۔ اس مقصد کے لئے FPCCI اور مختلف ایسوسی ایشنز اور چیمبرز کے نمائندوں کی بجٹ تجاویز کانفرنسیں چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں رکھی جائیں جہاں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سربراہ بجٹ بنانے والوں کے ساتھ مل کر تمام تجاویز کو نوٹ کریں اور اعتراضات کا تسلی بخش جواب دیں۔
یکم جولائی سے شروع ہونے والے نئے مالی بجٹ میں VAT (ویلیو ایڈڈ ٹیکس) کا نفاذ یقینی سمجھا جا رہا ہے کیونکہ ورلڈ بنک اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے برملا اظہار کیا ہے کہ حکومت پاکستان کو VAT نافذ کرنا پڑے گا یعنی عام لفظوں میں ہم نے اپنی معیشت گروی رکھ دی ہے۔ FBR کے حکام اگر تفصیل سے بزنس کمیونٹی سے مذاکرات کریں تو شاید فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو بھی IMF کی ڈکٹیشن سے نجات مل جائے کیونکہ اس ڈکٹیشن کے نیجے میں عوام کا بدترین معاشی استحصال ہو رہا ہے اور بلاجواز بجلی، گیس اور پانی سمیت ہر چیز کی قیمت میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ IMF کو تو معلوم ہے کہ پاکستان میں مہنگائی پھیلانے کیلئے صرف توانائی کے شعبوں پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ لادنے کی ضرورت ہے اور اگر پھر بھی کوئی کسر باقی رہ جائے تو پھر VAT کا بوجھ لاد دیا جائے تاکہ پاکستان میں معاشی بدامنی پیدا ہوا جائے، معاشی سرگرمیوں میں رکاوٹ پیدا ہو اور مخالف ممالک بازی لے جائیں۔