گو کہ خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی مملکت میں شہریوں اور یہاں برسرروزگار غیر ملکیوں کی دنیا کی بہترین طبی سہولیات میسر ہیں۔ اداروں میں حکومت نے اس بات کو لازم کر دیا ہے کہ ہر کارکن کی طبی انشورنس ہو، یہ علیحدہ بات ہے کہ انشورنس کمپنیاں اپنے معاہدے کے تحت کسطرح کی سہولیات پہنچاتی ہیں۔ جدہ میں چند درد مند پاکستانی ڈاکٹرز نے مفت طبی کیمپ کا اجراءکیا۔ جس میں پاکستان قونصلیٹ نے ان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا اور انہیں مفت طبی کیمپ کیلئے قونصیلٹ میں جگہ فراہم کی، جدہ کے فورم کی تقلید کرتے ہوئے پاکستانی ڈاکٹرز نے مکہ المکرمہ‘ طائف اور مدینہ المنورہ میں بھی ضرورت مند افراد کیلئے اس طرح کے طبی کیمپ لگائے، نہ صرف یہ بلکہ ان کی تقلید کرتے ہوئے بنگلہ دیش اور ہندوستان کے ڈاکٹرز نے بھی اسطرح کے مفت کیمپ لگانے شروع کر دئیے ہیں گزشتہ دنوں پاکستان ویلفیئر فورم نے اپنا 100واں مفت کیمپ لگایا‘ جس میں پاکستان قونصیلٹ کے افسران بھی شرکت کی، نئے آنے والے قونصل جنرل عبدالسالک خان نے پاکستان ویلفئیر سوسائٹی (PWS) کو 100واں مفت طبی کیمپ لگانے اور چوتھی سالگرہ کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ آپ اگر یہاں مستحق پاکستانیوں کےلئے ایک ہسپتال کا منصوبہ شروع کریں تو اس سلسلے میں قونصلیٹ آپ سے ہر طرح کا تعاون کرے گا۔ یہاں ہزاروں ایسے پاکستانی رہ رہے ہیں جو کسی طرح کی بھی طبی سہولت سے محروم ہیں اور اس کیمپ سے اگر10% لوگوں کی بھی آپ مدد کرسکیں تو وہ بہت بڑا کام ہو گا۔ وہ پاکستان قونصلیٹ کے ہال میں پاکستان ویلفئیر سوسائٹی کے زیراہتمام منعقد ہونے والے 100واں مفت طبی کیمپ اور سوسائٹی کی چوتھی سالگرہ کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ سوسائٹی کے ارکان خدمت خلق کے جذبہ کے تحت کام کر رہے ہیں یہ حقیقی معنوں میں کارخیر اور ان کے لئے صدقہ جاریہ ہے۔ قونصل جنرل نے ویلفیئر سوسائٹی کی تمام ٹیم کو مبارکباد دیتے ہوئے ان کے کام کو سراہا اور اپنے بھرپور تعاون کی یقین دھانی کرائی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے قونصلیٹ کی عمارت کا حال دیکھ کر افسوس ہو کہ یہ پاکستان کا سب سے بڑا قونصل خانہ ہے۔ عبدالسالک خان نے کہا کہ میری کوشش ہو گی میں اپنی ملازمت کی مدت کے دوران ہی اس کو ایک باوقار عمارت بنا سکوں اور اس کے لئے ایک کمیٹی بنا دی ہے جس نے کام شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں الفاظ کی حد تک یقین نہیں رکھتا بلکہ میں عملی آدمی ہوں اور وہ کہتا ہوں جو کر سکوں۔ قونصل جنرل نے کہا کہ میں آپ کی تعریف اس لئے کر رہا ہوں کہ آپ نے بھی جو کہا وہ کر کے دکھایا ہے۔ انہوں نے سوسائٹی کے عہدیداروں اور میڈیکل اور نان میڈیکل ممبران کے اس خدمت کے جذبہ کو سراہا اور انہیں قومی ہیرو قرار دیا۔ واضح رہے کہ قونصل جنرل عبدالسالک خان نے حال ہی میں اس عہدے کی ذمہ داری اُٹھائی ہے اور اس سے قبل وہ چین میں قونصل جنرل کی خدمات انجام دے رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگ بے لوث خدمت کررہے ہیں اگر میرے اور میری بیگم کے لائق بھی کوئی کام اس کیمپ سے متعلق ہو تو ہماری ڈیوٹی لگائیں چاہے وہ فہرستیں مرتب کرنے کا ہی ہو۔
PWS کے صدر ڈاکٹر خلیل الرحمن نے قونصل جنرل اور تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ الحمداللہ آج ہم نے 100واں مفت طبی کیمپ لگایا ہے اور یہ ہمارے لئے بڑی خوشی کی بات ہے کہ 2006ئ میں اس سوسائٹی کو اور فری میڈکل کیمپ کو چار سال ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سوسائٹی میں ڈاکٹرز کے ساتھ ساتھ ہمارے دوسرے ساتھیوں کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔ ڈاکٹر خلیل الرحمن نے بتایا کہ طبی کیمپ کے علاوہ سوسائٹی ہیلتھ سیمینار بھی منعقد کرتی ہے جس میں لوگوں کو مختلف بیماریوں اور ان سے بچنے کےلئے اقدامات سے آگاہ کیا جاتا ہے اس کے علاوہ طلبا کےلئے کیریئر پلاننگ سیمنار بھی منعقد کئے جاتے ہیں۔ قبل ازیں ڈاکٹر سرمد نے نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے PWS کا مختصر تعارف پیش کیا۔ اس موقع پر ایجوکیشن کمیٹی کے چیئرمین مقبول احمد تاج کو ان کی مستقل وطن واپسی پر سوسائٹی کی طرف سے ان کی خدمات کے اعتراف میں ایک اعزازی شیلڈ بھی دی گئی۔ تقریب میں قونصل جنرل نے سوسائٹی کی سالگرہ کا کیک کاٹا۔ تلاوت محمد نواز جنجوعہ نے کی جبکہ محسن علوی نے نعت رسول پڑھی۔
مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے ؟؟؟؟
یہ تھا عنوان اس دلچسپ تقریری مقابلے کا جو گزشتہ دنوں پاکستان انٹرنیشنل سکول انگریزی سیکشن نے شعبہ اردو کے زیراہتمام منعقد ہوا گو کہ اس وقت دنیا بھر میں اور خاص طور پر وطن عزیز میں مفلسی اپنے عروج پر ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جو کروڑ پتی ہے، انکے ہاں نہ کوئی تخلیق ہے نہ مزاح، راتوں کی نیندین حرام ہیں، دل کے مراض ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔ موضوع سنتے ہی ہمارہ دل بھی چاہا کہ یہ بچوںکا کام نہیں، مگر مباحثہ سنکر اور دیکھ کر یہ احساس ہوا کہ گو کہ سکول انگریزی سیکشن ہے مگر بچوں میں جس قدر اعتماد اور دلائل تھے، اگر وہ تقاریر لکھ انکے کسی بڑے نے بھی دی ہوں مگر انکی ادائیگی اور اعتماد و دلائل نے یہ تاثر ختم کر دیا کہ یہ موضوع بڑوں کیلئے ہے۔ تقریب کے مہمان خصوصی پاکستان قونصلیٹ کے پریس قونصل طارق خان تھے جنہوںنے تقریر تو نہ کی، اگر کرتے تو وہ موضوع کو کچھ یوں کہتے ہیں ”مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتا ہے“ (مٹا نہیں دیتی) اس موقع پر سکول کے لنک آفسیراکمل سعید بمعہ اپنی اہلیہ موجود تھے، مصنفین میں طارق خان، مقامی اخبار کے نیوز ایڈیٹر معروف صحافی ابصار سید‘ سکول کے سینئر اساتذہ افضل، بیگم صبوحی‘ سکول کوآرڈینیٹر بیگم وجہیہ تھیں۔ تقریب کی نظامت شعبہ اردو کی صدر معلمہ غزالہ حبیب تھیں مباحثہ کے ابتداءمیں سکول کی پرنسپل سحر کامران نے کہا کہ کسی بھی معیاری درسگاہ کی ذمہ داری طلباءکو محض نصابی تعلیم دینا نہیں بلکہ انکی تربیت بھی انہیں معاشرے کا فعال‘ کامیاب اور مثالی رکن بنانا بھی ہے۔ موضوع کے مواقفت میں دنیال، مومل ندیم، نعمان زبیری، یسری اشتیاق، حنا فاطمہ، وفاءمظفر، حبا شکیل، نمرہ فاطمہ، عائشہ علی، ثناءفاروقی، ملیحہ آفتاب، سعود اعظم، افصاحہ عبدالغفار، جبکہ مخالفت میں نوین ذولقرنین، سحرش اسد، مناہل سیف اللہ، فاطمہ خالد، فرجاد نعیم، ماہا ارشد، احسن سعید عثمانی، فرازا خرم، علینہ حسن، حفضہ خان، محمد علی عمران اور جنید ارشد تھے ، مباحثہ کے آخر میں سکول آڈیٹوریم سے قرار داد پر رائے لی گئی تو قرار داد کی حمائت میں ایک ہاتھ نہ اٹھا ، اور بھر پور تالیوںمیں قرار داد کو رد کیا گیا۔ مباحثہ کے نتائیج کا اعلان کرتے ہوئے پہلے نمبر علی عمران، دوسرے نمبر پر نمرہ فاطمہ اور تیسرے نمبر پر سعود اعظم اور حفضہ خان کا اعلان کیا گیا ۔چوتھے نمبر آنے والے فراز خرم، اور جنید اشرف کو بھی انعامات دئے گئے ۔ مباحثہ کے آخر میںسحرکامران نے اپنے خطاب میںکہا کہ طلباءاور طالبات کے مدلل دلائل سنکر اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ ہماری نئی نسل کی سوچ مثبت ہے ، انہوںنے کہا اقتصادی اور معاشی استحکام کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا مگر احساسات تہذیباورت اقدار کو معاشی حالات سے مربوط کردیا غلط ہے ایک طالبہ نے خوب کہا کہ مفلسی میں چاند بھی روٹی نظر آتا ہے مگر چاند دیکھنے کی خواہش نہیں ہوتی یہ غلط ہے ۔حس لطافت ایک جذبہ ہے جو ہر انسان میںہوتا ہے انہوں نے کہا نمرہ فاطمہ نے کہا کہ غریب تاج محل نہیں بنا سکتا مگر سوال یہ کہ کیا محبت کیلے تاج محل کا بنانا ضروری ہے ۔ انہوںنے کہاتمام تخلیقات ان لوگوںنے کی جنکی مفلسی کے قصے مشہو ر ہیںتلخیوںکا خالق ساحر لدھیانوی، کبھی کبھی میرے دل میںخیا ل آتا ہے نہ لکھتا، شہرہ آفاق بلندیوں پر پہنچنے والا مائیکل جیکسن،تھیوری آف ریالٹی کا خالق آئین سٹائین،باکسنگ کا بے تاج بادشاہ محمد علی کلے،ابراہیم لنکن،مارکو پولو،احسان دانش نے اپنی کامیابیوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ مفلسی کامیابی اور ارتقاءمیں حائل نہیں ہوتی ، ساغر صدیقی کی زندگی کی کسمپرسی کی جھلک شاعری میں موجود ہے مگر انکی تخلیقات نے اکیڈمی کی شکل اختیار کی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مفلسی حس لطافت کو نہیں مٹاسکتی، تقریب کے منصف معروف صحافی ابصار سید نے اپنے خطاب میں کہا کہ بچوں کے دلائل ، اعتماد کو دیکھ کر لگتا ہے بلکہ مجھے یقین ہے ہمارا کل کا وزیر اعظم ، صدر اسی اسکول سے ہوگا۔
جدہ میں مختلف مذاہب کے لوگوں کا قبول اسلام ۔
وہ لوگ قابل تحسین ہیں ، اور انکی جتنی حوصہ افزائی کی جائے کم ہے جو اسلئے مسلمان نہیں بلکہ انکے والدین مسلمان تھے ، بلکہ اسلئے مسلمان ہیں کہ وہ اپنی خواہش پر سمجھ بوجھ کر مسلمان ہیں، یہ حقیقت ہے کہ وہ نو مسلم جو تعلیم حاصل کرکے اسلام کی طرف راغب ہوتے ہیں وہ اسلامی تعلیمات اور عمل میں ان لوگوں سے زیادہ بہتر مسلمان ہوتے ہیں جو پیدائشی مسلمان ہیں۔دعوت اسلام دینے والے بھی قابل تحسین ہوتے ہیں، گزشتہ دنوں جدہ میںایک تقریب حفظ الرحمان سوہاروی اکیڈمی نے نو مسلم افراد کیلئے منعقد کی گئی جو یہاں آکر دینی تعلیم حاصل کرکے اسلام کی طرف راغب ہوئے ، یہ بات مزید قابل ستائیش ہے کہ جس محسن اسلام نے انہیں اسلام کی طرف راغب کیا وہ خود چند سال پہلے ہندوستا ن کا ایک کرسچن تھا۔ وہ شیخ سلمان ہیں جنکا اسلام قبول کرنے سے قبل نام تھا ۔ انہوںنے اپنی تقریر میں بتایا کہ وہ کسطرح ، نہ مساعد حالات میں اسلامی کتب پڑھکر اسلام کی طرف راغب ہوئے ، وہ جب کچھ سال پہلے سعودی عرب آئے تو انہیں اسلام سے مزید رغبت پیدا ہوئی ،انہوںنے اپنی بیگم کو ہندوستان لکھا کہ میں اسلام قبول کرنا چاہ رہا ہوں، انکی بیگم کا جواب آیا کہ اگر ملازمت ، پیسے کی لالچ میں اسلام قبول کررہے ہو تو واپس ہندوستان آجاﺅ ، اگر دل سے اسلام رضاکارآنہ ایسا کررہے ہو تو ضرور کرو،مجھے بھی سمجھاﺅ میںبھی تمھارے ساتھ اسلام قبول کرونگی،شیخ سلمان ، جنکا غیر مسلم نام رتنا راجو تھا نے بتا یا کہ الحمداللہ وہ اپنے والدین کو بھی اسلام کے دائرہ اختیار میںلائے انہوںنے یہاں عربی اور اردو سیکھی جس سے وہ نابلد تھے ۔ تقریب میں لکشمن راﺅ ( اسلامی نام عبدالکریم ،جیتندراء( حمزہ ) ، ویکنتاء راﺅ ( عیسی )،روی کمار ( رفیق احمد ) ،جوزف ( یوسف) ، رجاناء( ابوبکر ) ، پروین کمار ( سراج الدین)سنبو ناتھ ( شکیل احمد ) ، مارکس انوسینٹ (احمد) ،سبسطیان پاسلاء( اسماعیل ) نے اسلام کی دعوت قبول کی ، ان میں سے چند نے اظہار رائے کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں ایک انجانہ سا سکون جب ملا جب وہ عمرہ کی ادائیگی کیلئے خانہ خدا گئے ۔یہ ادارہ جناب بحجت ایوب نجمی کی کاوشوںکا نتیجہ ہے جو مسلسل اسلامی کتب، احادیث، قران مجید کے تلاوت ، اور تراجم کی سی ڈیز مفت تقسیم کرکے بے پناءثواب حاصل کرتے ہیں ( اللہ تعالی انہیں اسکا اجر دیگا ) شیخ سلمان کا تبلیغی کام جاری ہے ، انہوںنے تلگو زبان میں قران مجید کا ترجمہ کیا ہے ، جو ہندوستان میں تقسیم کیا ہے اور اب تک ایک سو سے زائد لوگ اسلام قبول کرچکے ہیں۔ جدہ میں کچھ خواتین نے بھی اسلام قبول کیا ہے جنکے لئے یہ ادارہ تقریب آئیندہ ماہ منعقد کرے گا۔ نو مسلم افراد کو تقریب میں تحائف بھی پیش کئے گئے ۔
PWS کے صدر ڈاکٹر خلیل الرحمن نے قونصل جنرل اور تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ الحمداللہ آج ہم نے 100واں مفت طبی کیمپ لگایا ہے اور یہ ہمارے لئے بڑی خوشی کی بات ہے کہ 2006ئ میں اس سوسائٹی کو اور فری میڈکل کیمپ کو چار سال ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سوسائٹی میں ڈاکٹرز کے ساتھ ساتھ ہمارے دوسرے ساتھیوں کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔ ڈاکٹر خلیل الرحمن نے بتایا کہ طبی کیمپ کے علاوہ سوسائٹی ہیلتھ سیمینار بھی منعقد کرتی ہے جس میں لوگوں کو مختلف بیماریوں اور ان سے بچنے کےلئے اقدامات سے آگاہ کیا جاتا ہے اس کے علاوہ طلبا کےلئے کیریئر پلاننگ سیمنار بھی منعقد کئے جاتے ہیں۔ قبل ازیں ڈاکٹر سرمد نے نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے PWS کا مختصر تعارف پیش کیا۔ اس موقع پر ایجوکیشن کمیٹی کے چیئرمین مقبول احمد تاج کو ان کی مستقل وطن واپسی پر سوسائٹی کی طرف سے ان کی خدمات کے اعتراف میں ایک اعزازی شیلڈ بھی دی گئی۔ تقریب میں قونصل جنرل نے سوسائٹی کی سالگرہ کا کیک کاٹا۔ تلاوت محمد نواز جنجوعہ نے کی جبکہ محسن علوی نے نعت رسول پڑھی۔
مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے ؟؟؟؟
یہ تھا عنوان اس دلچسپ تقریری مقابلے کا جو گزشتہ دنوں پاکستان انٹرنیشنل سکول انگریزی سیکشن نے شعبہ اردو کے زیراہتمام منعقد ہوا گو کہ اس وقت دنیا بھر میں اور خاص طور پر وطن عزیز میں مفلسی اپنے عروج پر ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جو کروڑ پتی ہے، انکے ہاں نہ کوئی تخلیق ہے نہ مزاح، راتوں کی نیندین حرام ہیں، دل کے مراض ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔ موضوع سنتے ہی ہمارہ دل بھی چاہا کہ یہ بچوںکا کام نہیں، مگر مباحثہ سنکر اور دیکھ کر یہ احساس ہوا کہ گو کہ سکول انگریزی سیکشن ہے مگر بچوں میں جس قدر اعتماد اور دلائل تھے، اگر وہ تقاریر لکھ انکے کسی بڑے نے بھی دی ہوں مگر انکی ادائیگی اور اعتماد و دلائل نے یہ تاثر ختم کر دیا کہ یہ موضوع بڑوں کیلئے ہے۔ تقریب کے مہمان خصوصی پاکستان قونصلیٹ کے پریس قونصل طارق خان تھے جنہوںنے تقریر تو نہ کی، اگر کرتے تو وہ موضوع کو کچھ یوں کہتے ہیں ”مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتا ہے“ (مٹا نہیں دیتی) اس موقع پر سکول کے لنک آفسیراکمل سعید بمعہ اپنی اہلیہ موجود تھے، مصنفین میں طارق خان، مقامی اخبار کے نیوز ایڈیٹر معروف صحافی ابصار سید‘ سکول کے سینئر اساتذہ افضل، بیگم صبوحی‘ سکول کوآرڈینیٹر بیگم وجہیہ تھیں۔ تقریب کی نظامت شعبہ اردو کی صدر معلمہ غزالہ حبیب تھیں مباحثہ کے ابتداءمیں سکول کی پرنسپل سحر کامران نے کہا کہ کسی بھی معیاری درسگاہ کی ذمہ داری طلباءکو محض نصابی تعلیم دینا نہیں بلکہ انکی تربیت بھی انہیں معاشرے کا فعال‘ کامیاب اور مثالی رکن بنانا بھی ہے۔ موضوع کے مواقفت میں دنیال، مومل ندیم، نعمان زبیری، یسری اشتیاق، حنا فاطمہ، وفاءمظفر، حبا شکیل، نمرہ فاطمہ، عائشہ علی، ثناءفاروقی، ملیحہ آفتاب، سعود اعظم، افصاحہ عبدالغفار، جبکہ مخالفت میں نوین ذولقرنین، سحرش اسد، مناہل سیف اللہ، فاطمہ خالد، فرجاد نعیم، ماہا ارشد، احسن سعید عثمانی، فرازا خرم، علینہ حسن، حفضہ خان، محمد علی عمران اور جنید ارشد تھے ، مباحثہ کے آخر میں سکول آڈیٹوریم سے قرار داد پر رائے لی گئی تو قرار داد کی حمائت میں ایک ہاتھ نہ اٹھا ، اور بھر پور تالیوںمیں قرار داد کو رد کیا گیا۔ مباحثہ کے نتائیج کا اعلان کرتے ہوئے پہلے نمبر علی عمران، دوسرے نمبر پر نمرہ فاطمہ اور تیسرے نمبر پر سعود اعظم اور حفضہ خان کا اعلان کیا گیا ۔چوتھے نمبر آنے والے فراز خرم، اور جنید اشرف کو بھی انعامات دئے گئے ۔ مباحثہ کے آخر میںسحرکامران نے اپنے خطاب میںکہا کہ طلباءاور طالبات کے مدلل دلائل سنکر اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ ہماری نئی نسل کی سوچ مثبت ہے ، انہوںنے کہا اقتصادی اور معاشی استحکام کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا مگر احساسات تہذیباورت اقدار کو معاشی حالات سے مربوط کردیا غلط ہے ایک طالبہ نے خوب کہا کہ مفلسی میں چاند بھی روٹی نظر آتا ہے مگر چاند دیکھنے کی خواہش نہیں ہوتی یہ غلط ہے ۔حس لطافت ایک جذبہ ہے جو ہر انسان میںہوتا ہے انہوں نے کہا نمرہ فاطمہ نے کہا کہ غریب تاج محل نہیں بنا سکتا مگر سوال یہ کہ کیا محبت کیلے تاج محل کا بنانا ضروری ہے ۔ انہوںنے کہاتمام تخلیقات ان لوگوںنے کی جنکی مفلسی کے قصے مشہو ر ہیںتلخیوںکا خالق ساحر لدھیانوی، کبھی کبھی میرے دل میںخیا ل آتا ہے نہ لکھتا، شہرہ آفاق بلندیوں پر پہنچنے والا مائیکل جیکسن،تھیوری آف ریالٹی کا خالق آئین سٹائین،باکسنگ کا بے تاج بادشاہ محمد علی کلے،ابراہیم لنکن،مارکو پولو،احسان دانش نے اپنی کامیابیوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ مفلسی کامیابی اور ارتقاءمیں حائل نہیں ہوتی ، ساغر صدیقی کی زندگی کی کسمپرسی کی جھلک شاعری میں موجود ہے مگر انکی تخلیقات نے اکیڈمی کی شکل اختیار کی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مفلسی حس لطافت کو نہیں مٹاسکتی، تقریب کے منصف معروف صحافی ابصار سید نے اپنے خطاب میں کہا کہ بچوں کے دلائل ، اعتماد کو دیکھ کر لگتا ہے بلکہ مجھے یقین ہے ہمارا کل کا وزیر اعظم ، صدر اسی اسکول سے ہوگا۔
جدہ میں مختلف مذاہب کے لوگوں کا قبول اسلام ۔
وہ لوگ قابل تحسین ہیں ، اور انکی جتنی حوصہ افزائی کی جائے کم ہے جو اسلئے مسلمان نہیں بلکہ انکے والدین مسلمان تھے ، بلکہ اسلئے مسلمان ہیں کہ وہ اپنی خواہش پر سمجھ بوجھ کر مسلمان ہیں، یہ حقیقت ہے کہ وہ نو مسلم جو تعلیم حاصل کرکے اسلام کی طرف راغب ہوتے ہیں وہ اسلامی تعلیمات اور عمل میں ان لوگوں سے زیادہ بہتر مسلمان ہوتے ہیں جو پیدائشی مسلمان ہیں۔دعوت اسلام دینے والے بھی قابل تحسین ہوتے ہیں، گزشتہ دنوں جدہ میںایک تقریب حفظ الرحمان سوہاروی اکیڈمی نے نو مسلم افراد کیلئے منعقد کی گئی جو یہاں آکر دینی تعلیم حاصل کرکے اسلام کی طرف راغب ہوئے ، یہ بات مزید قابل ستائیش ہے کہ جس محسن اسلام نے انہیں اسلام کی طرف راغب کیا وہ خود چند سال پہلے ہندوستا ن کا ایک کرسچن تھا۔ وہ شیخ سلمان ہیں جنکا اسلام قبول کرنے سے قبل نام تھا ۔ انہوںنے اپنی تقریر میں بتایا کہ وہ کسطرح ، نہ مساعد حالات میں اسلامی کتب پڑھکر اسلام کی طرف راغب ہوئے ، وہ جب کچھ سال پہلے سعودی عرب آئے تو انہیں اسلام سے مزید رغبت پیدا ہوئی ،انہوںنے اپنی بیگم کو ہندوستان لکھا کہ میں اسلام قبول کرنا چاہ رہا ہوں، انکی بیگم کا جواب آیا کہ اگر ملازمت ، پیسے کی لالچ میں اسلام قبول کررہے ہو تو واپس ہندوستان آجاﺅ ، اگر دل سے اسلام رضاکارآنہ ایسا کررہے ہو تو ضرور کرو،مجھے بھی سمجھاﺅ میںبھی تمھارے ساتھ اسلام قبول کرونگی،شیخ سلمان ، جنکا غیر مسلم نام رتنا راجو تھا نے بتا یا کہ الحمداللہ وہ اپنے والدین کو بھی اسلام کے دائرہ اختیار میںلائے انہوںنے یہاں عربی اور اردو سیکھی جس سے وہ نابلد تھے ۔ تقریب میں لکشمن راﺅ ( اسلامی نام عبدالکریم ،جیتندراء( حمزہ ) ، ویکنتاء راﺅ ( عیسی )،روی کمار ( رفیق احمد ) ،جوزف ( یوسف) ، رجاناء( ابوبکر ) ، پروین کمار ( سراج الدین)سنبو ناتھ ( شکیل احمد ) ، مارکس انوسینٹ (احمد) ،سبسطیان پاسلاء( اسماعیل ) نے اسلام کی دعوت قبول کی ، ان میں سے چند نے اظہار رائے کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں ایک انجانہ سا سکون جب ملا جب وہ عمرہ کی ادائیگی کیلئے خانہ خدا گئے ۔یہ ادارہ جناب بحجت ایوب نجمی کی کاوشوںکا نتیجہ ہے جو مسلسل اسلامی کتب، احادیث، قران مجید کے تلاوت ، اور تراجم کی سی ڈیز مفت تقسیم کرکے بے پناءثواب حاصل کرتے ہیں ( اللہ تعالی انہیں اسکا اجر دیگا ) شیخ سلمان کا تبلیغی کام جاری ہے ، انہوںنے تلگو زبان میں قران مجید کا ترجمہ کیا ہے ، جو ہندوستان میں تقسیم کیا ہے اور اب تک ایک سو سے زائد لوگ اسلام قبول کرچکے ہیں۔ جدہ میں کچھ خواتین نے بھی اسلام قبول کیا ہے جنکے لئے یہ ادارہ تقریب آئیندہ ماہ منعقد کرے گا۔ نو مسلم افراد کو تقریب میں تحائف بھی پیش کئے گئے ۔