سپیشل فورسز اور پولیس کے سینکڑوں جوان شہر کی گلیوں، ملحقہ علاقے اور جنگل میں گزشتہ چوبیس گھنٹے سے سرگرداں ہیں۔ ریڈیو فرانس کے ہربلیٹن مین عوام کو تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا جارہا ہے۔ ٹی وی چینلز پر کمشنر پولیس چیف اور علاقے کے میئر اب تک ہونے والی پراگرس کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ عام عوام اور سماجی تنظیموں کے ارکان بھی اپنی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ پولیس نے کسی بھی قسم کی معلومات کے لیے فری فون نمبر مختص کر دیے ہیں۔ شہریوں نے اپنی گاڑیوں کے شیشوں پر اشتہارات چسپاں کردیے ہیں۔ فرانس کے ایک چھوٹے سے شہر میں یہ سرگرمیاں کیوں ہو رہی ہیں؟
حکومت کے تمام ادارے کیوں متحرک ہو گئے ہیں؟
عوام میں کیوں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے ؟
وزیرداخلہ کو کیوں پل پل پراگرس سے باخبر رکھا جا رہا ہے ؟
یہ نہ کسی جمہوری آمر صدر کی آمد سے پہلے کی سرگرمیاں ہیں اور نہ ہی کسی ارب پتی سیاسی اپوزیشن لیڈر کی، نہ کسی غیر ملکی ان داتا کی آمد کی ہے اور نہ ہی نام نہاد دہشتگردی کے خلاف کسی اتحادی وائسرائے ہالبروک کی۔
یہ تمام سرگرمیاں صرف ایک بچے کے لیے ہورہی ہیں کہ جو پچھلے چوبیس گھنٹوں سے اپنے گھر سے غائب ہے۔ متاثرہ فیملی سے ہمدردی کرنے والوں کا جھمگٹا لگا ہوا ہے۔ لوگ بچے کی تصاویر لے کر انٹرنیٹ اور گاڑیوں کے شیشوں پر لگارہے ہیں۔ ہر شخص بچے کی تلاس میں ایسے دلچسپی لے رہا ہے کہ جیسے اس کا بچہ گم ہوگیا ہو اور یہ سب کچھ اس ملک میں ہورہا ہے کہ جس کے بارے میں ہمارے نام نہاد دانشور ہمیشہ بے حس، جذبات سے عاری، مشینی ذہن اور مادیت پرست معاشرے کے الفاظ استعمال کر کے اپنے قارئین سے داد وصول کرتے ہیں۔ ایک کمسن بچے کی گمشدگی اس بے حس اور مادیت پرست معاشرے کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سینکڑوں سپوت دن کے اجالوں اور رات کے اندھیروں میں بغیر کوئی قصور بتائے، بغیر کوئی الزام لگائے اٹھا لیے جاتے ہیں، غائب کردیے جاتے ہیں۔ لیکن ضعیف ماﺅں کے جوان بیٹوں، بوڑھے والدین کے بڑھاپے کے سہاروں، سہاگنوں کے سہاگ، بہنوں کے مان بھائیوں اور معصوم بچوں کے باپوں کی اچانک گمشدگی پرنہ آسمان ٹوٹا ہے اور نہ زمین پھٹتی ہے۔ پاکستان کے بیٹوں کی گمشدگی کی سازش میں سابقہ آمرانہ حکومت اور موجودہ جمہوری حکومت کی ماتحت لیکن شتر بے مہار ایجنسیاں شریک ہیں۔ وطن کے بیٹوں کو ڈالروں کے بدلے گونتا ناموبے بھجوانے کی دلالی کا اعتراف تو بگھوڑا مشرف کر چکاہے۔ آمروں کی وفادار ایجنسیوں کی سیف ہاﺅسز میں مظلوموں کو قید رکھنے میں حکومت وقت کی رضامندی شامل ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام پر جو اپنے آپ کو غیور ، غیرت مند، اور دردمند کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ درحقیقت ان کی اکثریت بے حس، بے ضمیر ، خود غرض اور منافق ہوچکی ہے جو قوم افغانستان، عراق ، اور فلسطین کے عوام پر ہونے والے مظالم پر لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر آجاتی ہے۔ اپنے پاکستانی بھائیوں کے اغوا اور گمشدگی پر خاموش بیٹھی ہے۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ مظلوم اور متاثرہ خاندان کی بوڑھی خواتین اور شیر خوار بچے دارالحکومت کی سڑکوں پر پولیس کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں، لاٹھی چارچ سہہ رہے ہیں اور غیور عوام جو اپنے لیڈروں کی آواز پر لاکھوں کی تعداد میں اکھٹے ہوجاتے ہیں ۔جو فلمی ستاروں کی جھلک دیکھنے کے لیے سڑکیں بلاک کر دیتے ہیں۔ جو ایک آمر صدام حسین کے لیے سینوں پر گولیاں کھاتے ہیں لیکن اپنے ہی پاکستانی بھائیوں کے اغوا اور گمشدگی پر ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ مظلوم خاندانوں کی بوڑھی اور ضعیف خواتین کوسڑکوں پر خوار دیکھ کر ان کی آنکھوں سے کوئی آنسو نہیں ٹپکا۔ بے حس، خوشامد پرست اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار عوام آنکھیں اور کان بند کر کے اپنی عیاشیوں اور خوشیوں میں بدمست پڑے ہیں۔ مظلوموں سے ہمدردی اور اظہار یکجہتی کے لیے ان کی کوئی موثر تعداد سڑکوں پر نہیں آتی۔ متاثرہ خاندانوں کی اخلاقی اور مالی امدادکا کوئی عملی مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آتا۔ سیاسی لیڈروں کی خوشنودی کے لیے یہی عوام عدالتوں پر حملہ کر دیتے ہیں ۔ سیاسی لیڈروں کی خوشنودی کے لیے یہی عوام کوڑے کھاتے اور پھانسی کے پھندے گلے میں ڈال لیتے ہیں۔ یہ عوام اسلام کے ٹھیکیداروں کے اشاروں پر قتل و غارت کا بازار گرم کردیتے ہیں۔ یہ عوام سیاسی مولویوں اور مذہبی بہروپیوں کے اشاروں پر ہڑتالیں کرتے اور دھرنے دیتے ہیں اور سینوں پر گولیاں کھاتے ہیں۔ یہ عوام بلوچی، سندھی، پنجابی مہاجراور پٹھان تو ہیں یہ عوام سنی، بریلوی، دیوبندی، شعیہ اور اہلحدیث تو ضرور ہیں مگر افسوس کہ انسان نہیں ہیں کیونکہ بہروپئے سیاستدانوں کے لیے ڈبہ پیروں کے لیے،خود ساختہ قائدین اور مذہبی ٹھیکیداروں کے لیے تو یہ سب کچھ نچھاور کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں لیکن انسانیت کے لیے ان کے پاس نہ وقت ہے اور نہ فرصت۔ ہمارے ملک کی این جی اوز اور ترقی یافتہ اور روشن خیال طبقہ مختاراں مائی جیسے ایشوزپرڈالروں کے لالچ میںتو آئے دن احتجاج کرتی ہیں لیکن مظلوم اور متاثرہ خاندانوں کے لیے ان کے منہ سے تسلی کے دو بول بھی نہیں نکلے۔ غیر ملکی آقاﺅں کے اشاروں پر دم ہلانے والی یہ این جی اوز ملکی مفاد کی پالیسیوں کے خلاف تو دارالحکومت میں مظاہرے کرسکتی ہیں لیکن گمشدہ افراد کے لیے نہیں۔
جامعہ حفصہ کی طالبات کے ہاتھوں بدنام زمانہ آنٹی شمیم کی چند گھنٹوں حراست پر پاکستانی صحافت کے سیکولر انتہا پسند اپنے بلوں سے نکل کر دموں پر کھڑے ہوکر واویلا شروع کردیتے ہیں کہ پاکستان کا معتدل معاشرہ خطرے میں ہے۔ لیکن سالوں سے لاپتہ افراد کے بارے میں لکھنے سے ان کے قلم کا نشہ ٹوٹنے لگتا ہے۔ سب سے زیادہ افسوس ہے حکومت وقت جمہوریت کی نام نہاد علمبردار پی پی پی کے لیڈروں پر اور رائے ونڈ کے محلات میں بیٹھ کر فرینڈلی اپوزیشن کا طوق پہنے مسلم لیگ ن کے عوامی رہنماﺅں پر جو اپنے اپنے مفاد اور اقتدار کے لئے تو سرکاری وسائل سے لاکھوں کے جلوس نکالتے ہیں لیکن لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ یکجہتی کے لئے گھروں سے باہر نہیں نکلتے۔ افسوس کہ پاک قوم کے غیور اور دردمند عوام، سیاستدانوں آمروں، ڈبہ پیروں، مذہبی ٹھیکیداروں، انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کے کہنے پر تو ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں گھروں سے نکل آتے ہیں۔ لیکن مظلوموں سے ہمدردی اور انسانیت کے لیے نہیں۔ اور پھر جب تین سال قبل اماوس کی اندھیری رات میں انصاف کا ترازو ہاتھ میں پکڑے عدل کے ایک علمبردار نے ان مظلوموں، بے سہاروں، اور بوڑھی ماﺅں کی التجا پر آمین کہتے ہوئے لاپتہ افراد کے بارے میں سوموٹو ایکشن لیا تو آمریت کے محل لرز اٹھے اور پھر جہاں پناہ نے چیف جسٹس آف پاکستان سے جو سلوک کیا پاکستان کی تاریخ میں ایک اور سیاہ باب کا اضافہ کر گیا۔
وکلاءعوام اور میڈیا کی انقلابی تحریک اور قربانیوں کے بعد چیف جسٹس بھی بحال ہو گئے۔ ڈکٹیٹر کو اقتدار ہی نہیں بلکہ پاکستان چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ جمہوری حکومت بھی آ گئی۔ فرینڈلی اپوزیشن بھی معرض وجود میں آ گئی۔ ق لیگ بھی ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ ایم کیو ایم اور مولانا فضل الرحمن اپنے اصولوں اور ضابطوں کی پابندی کرتے ہوئے اور اپنے اور اپنے خاندانوں کے وسیع تر مفاد کی خاطر مشرف کے اقتدار میں حصہ داری کے بعد پی پی پی کی حکومت میں حصہ دار بھی بن گئے۔ ذاتی دوست‘ ڈرائیور‘ وکیل اور خادم اعلیٰ حکومتی عہدوں سے مستفید ہوئے۔ سب کچھ بدلا ایوان اقتدار میں چہرے بھی بدلے لیکن نہ تو امریکی کاسہ لیسی کی پالیسیاں بدلیں اور نہ ہی لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی محرومیاں‘ ریاست کے اندر ریاست قائم کرتی ہوئی ایجنسیوں نے نہ اپنا وطیرہ بدلا اور نہ ہی ایوان اقتدار اور فرینڈلی اپوزیشن نے لاپتہ افراد کے لئے ان منہ زور گھوڑوں کو لگام ڈالنے کی بات کی۔ وزیر داخلہ رحمان ملک اپنے ہم وطن برٹش نیشنل بچے ساحل کے لئے تو دن رات ایک کر دیتے ہیں لیکن شاید حکومتی ایوانوں میں کوئی بااثر پاکستانی نہیں ہے جو اپنے پاکستانی نیشنل لاپتہ افراد کے لئے عملی اقدام کرے۔ کاش اسمبلیوں اور اعلیٰ ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے معصوم حسن شرجیل بھی لاپتہ ہوں۔ کاش خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے حسن شرجیل بھی اغوا ہوں تاکہ ان کو پتہ چلے کہ جب معصوم بچے والدین سے دور ہوتے ہیں تو کیا قیامتیں گزرتی ہیں۔ ماﺅں کے جگر کیسے کٹتے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب اٹھارویں ترمیم اور این آر او بھی ضروری ہیں لیکن ان سب سے زیادہ ضروری لاپتہ افراد کا معاملہ ہے۔ خدارا اس کیس کی روزانہ سماعت کریں اور بے گناہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرا کے نہ صرف ان کے خاندانوں کی دعائیں لیں بلکہ آئین اور قانون کی حکمرانی کا سکہ جمائیں۔
حکومت کے تمام ادارے کیوں متحرک ہو گئے ہیں؟
عوام میں کیوں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے ؟
وزیرداخلہ کو کیوں پل پل پراگرس سے باخبر رکھا جا رہا ہے ؟
یہ نہ کسی جمہوری آمر صدر کی آمد سے پہلے کی سرگرمیاں ہیں اور نہ ہی کسی ارب پتی سیاسی اپوزیشن لیڈر کی، نہ کسی غیر ملکی ان داتا کی آمد کی ہے اور نہ ہی نام نہاد دہشتگردی کے خلاف کسی اتحادی وائسرائے ہالبروک کی۔
یہ تمام سرگرمیاں صرف ایک بچے کے لیے ہورہی ہیں کہ جو پچھلے چوبیس گھنٹوں سے اپنے گھر سے غائب ہے۔ متاثرہ فیملی سے ہمدردی کرنے والوں کا جھمگٹا لگا ہوا ہے۔ لوگ بچے کی تصاویر لے کر انٹرنیٹ اور گاڑیوں کے شیشوں پر لگارہے ہیں۔ ہر شخص بچے کی تلاس میں ایسے دلچسپی لے رہا ہے کہ جیسے اس کا بچہ گم ہوگیا ہو اور یہ سب کچھ اس ملک میں ہورہا ہے کہ جس کے بارے میں ہمارے نام نہاد دانشور ہمیشہ بے حس، جذبات سے عاری، مشینی ذہن اور مادیت پرست معاشرے کے الفاظ استعمال کر کے اپنے قارئین سے داد وصول کرتے ہیں۔ ایک کمسن بچے کی گمشدگی اس بے حس اور مادیت پرست معاشرے کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سینکڑوں سپوت دن کے اجالوں اور رات کے اندھیروں میں بغیر کوئی قصور بتائے، بغیر کوئی الزام لگائے اٹھا لیے جاتے ہیں، غائب کردیے جاتے ہیں۔ لیکن ضعیف ماﺅں کے جوان بیٹوں، بوڑھے والدین کے بڑھاپے کے سہاروں، سہاگنوں کے سہاگ، بہنوں کے مان بھائیوں اور معصوم بچوں کے باپوں کی اچانک گمشدگی پرنہ آسمان ٹوٹا ہے اور نہ زمین پھٹتی ہے۔ پاکستان کے بیٹوں کی گمشدگی کی سازش میں سابقہ آمرانہ حکومت اور موجودہ جمہوری حکومت کی ماتحت لیکن شتر بے مہار ایجنسیاں شریک ہیں۔ وطن کے بیٹوں کو ڈالروں کے بدلے گونتا ناموبے بھجوانے کی دلالی کا اعتراف تو بگھوڑا مشرف کر چکاہے۔ آمروں کی وفادار ایجنسیوں کی سیف ہاﺅسز میں مظلوموں کو قید رکھنے میں حکومت وقت کی رضامندی شامل ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام پر جو اپنے آپ کو غیور ، غیرت مند، اور دردمند کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ درحقیقت ان کی اکثریت بے حس، بے ضمیر ، خود غرض اور منافق ہوچکی ہے جو قوم افغانستان، عراق ، اور فلسطین کے عوام پر ہونے والے مظالم پر لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر آجاتی ہے۔ اپنے پاکستانی بھائیوں کے اغوا اور گمشدگی پر خاموش بیٹھی ہے۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ مظلوم اور متاثرہ خاندان کی بوڑھی خواتین اور شیر خوار بچے دارالحکومت کی سڑکوں پر پولیس کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں، لاٹھی چارچ سہہ رہے ہیں اور غیور عوام جو اپنے لیڈروں کی آواز پر لاکھوں کی تعداد میں اکھٹے ہوجاتے ہیں ۔جو فلمی ستاروں کی جھلک دیکھنے کے لیے سڑکیں بلاک کر دیتے ہیں۔ جو ایک آمر صدام حسین کے لیے سینوں پر گولیاں کھاتے ہیں لیکن اپنے ہی پاکستانی بھائیوں کے اغوا اور گمشدگی پر ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ مظلوم خاندانوں کی بوڑھی اور ضعیف خواتین کوسڑکوں پر خوار دیکھ کر ان کی آنکھوں سے کوئی آنسو نہیں ٹپکا۔ بے حس، خوشامد پرست اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار عوام آنکھیں اور کان بند کر کے اپنی عیاشیوں اور خوشیوں میں بدمست پڑے ہیں۔ مظلوموں سے ہمدردی اور اظہار یکجہتی کے لیے ان کی کوئی موثر تعداد سڑکوں پر نہیں آتی۔ متاثرہ خاندانوں کی اخلاقی اور مالی امدادکا کوئی عملی مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آتا۔ سیاسی لیڈروں کی خوشنودی کے لیے یہی عوام عدالتوں پر حملہ کر دیتے ہیں ۔ سیاسی لیڈروں کی خوشنودی کے لیے یہی عوام کوڑے کھاتے اور پھانسی کے پھندے گلے میں ڈال لیتے ہیں۔ یہ عوام اسلام کے ٹھیکیداروں کے اشاروں پر قتل و غارت کا بازار گرم کردیتے ہیں۔ یہ عوام سیاسی مولویوں اور مذہبی بہروپیوں کے اشاروں پر ہڑتالیں کرتے اور دھرنے دیتے ہیں اور سینوں پر گولیاں کھاتے ہیں۔ یہ عوام بلوچی، سندھی، پنجابی مہاجراور پٹھان تو ہیں یہ عوام سنی، بریلوی، دیوبندی، شعیہ اور اہلحدیث تو ضرور ہیں مگر افسوس کہ انسان نہیں ہیں کیونکہ بہروپئے سیاستدانوں کے لیے ڈبہ پیروں کے لیے،خود ساختہ قائدین اور مذہبی ٹھیکیداروں کے لیے تو یہ سب کچھ نچھاور کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں لیکن انسانیت کے لیے ان کے پاس نہ وقت ہے اور نہ فرصت۔ ہمارے ملک کی این جی اوز اور ترقی یافتہ اور روشن خیال طبقہ مختاراں مائی جیسے ایشوزپرڈالروں کے لالچ میںتو آئے دن احتجاج کرتی ہیں لیکن مظلوم اور متاثرہ خاندانوں کے لیے ان کے منہ سے تسلی کے دو بول بھی نہیں نکلے۔ غیر ملکی آقاﺅں کے اشاروں پر دم ہلانے والی یہ این جی اوز ملکی مفاد کی پالیسیوں کے خلاف تو دارالحکومت میں مظاہرے کرسکتی ہیں لیکن گمشدہ افراد کے لیے نہیں۔
جامعہ حفصہ کی طالبات کے ہاتھوں بدنام زمانہ آنٹی شمیم کی چند گھنٹوں حراست پر پاکستانی صحافت کے سیکولر انتہا پسند اپنے بلوں سے نکل کر دموں پر کھڑے ہوکر واویلا شروع کردیتے ہیں کہ پاکستان کا معتدل معاشرہ خطرے میں ہے۔ لیکن سالوں سے لاپتہ افراد کے بارے میں لکھنے سے ان کے قلم کا نشہ ٹوٹنے لگتا ہے۔ سب سے زیادہ افسوس ہے حکومت وقت جمہوریت کی نام نہاد علمبردار پی پی پی کے لیڈروں پر اور رائے ونڈ کے محلات میں بیٹھ کر فرینڈلی اپوزیشن کا طوق پہنے مسلم لیگ ن کے عوامی رہنماﺅں پر جو اپنے اپنے مفاد اور اقتدار کے لئے تو سرکاری وسائل سے لاکھوں کے جلوس نکالتے ہیں لیکن لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ یکجہتی کے لئے گھروں سے باہر نہیں نکلتے۔ افسوس کہ پاک قوم کے غیور اور دردمند عوام، سیاستدانوں آمروں، ڈبہ پیروں، مذہبی ٹھیکیداروں، انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کے کہنے پر تو ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں گھروں سے نکل آتے ہیں۔ لیکن مظلوموں سے ہمدردی اور انسانیت کے لیے نہیں۔ اور پھر جب تین سال قبل اماوس کی اندھیری رات میں انصاف کا ترازو ہاتھ میں پکڑے عدل کے ایک علمبردار نے ان مظلوموں، بے سہاروں، اور بوڑھی ماﺅں کی التجا پر آمین کہتے ہوئے لاپتہ افراد کے بارے میں سوموٹو ایکشن لیا تو آمریت کے محل لرز اٹھے اور پھر جہاں پناہ نے چیف جسٹس آف پاکستان سے جو سلوک کیا پاکستان کی تاریخ میں ایک اور سیاہ باب کا اضافہ کر گیا۔
وکلاءعوام اور میڈیا کی انقلابی تحریک اور قربانیوں کے بعد چیف جسٹس بھی بحال ہو گئے۔ ڈکٹیٹر کو اقتدار ہی نہیں بلکہ پاکستان چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ جمہوری حکومت بھی آ گئی۔ فرینڈلی اپوزیشن بھی معرض وجود میں آ گئی۔ ق لیگ بھی ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ ایم کیو ایم اور مولانا فضل الرحمن اپنے اصولوں اور ضابطوں کی پابندی کرتے ہوئے اور اپنے اور اپنے خاندانوں کے وسیع تر مفاد کی خاطر مشرف کے اقتدار میں حصہ داری کے بعد پی پی پی کی حکومت میں حصہ دار بھی بن گئے۔ ذاتی دوست‘ ڈرائیور‘ وکیل اور خادم اعلیٰ حکومتی عہدوں سے مستفید ہوئے۔ سب کچھ بدلا ایوان اقتدار میں چہرے بھی بدلے لیکن نہ تو امریکی کاسہ لیسی کی پالیسیاں بدلیں اور نہ ہی لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی محرومیاں‘ ریاست کے اندر ریاست قائم کرتی ہوئی ایجنسیوں نے نہ اپنا وطیرہ بدلا اور نہ ہی ایوان اقتدار اور فرینڈلی اپوزیشن نے لاپتہ افراد کے لئے ان منہ زور گھوڑوں کو لگام ڈالنے کی بات کی۔ وزیر داخلہ رحمان ملک اپنے ہم وطن برٹش نیشنل بچے ساحل کے لئے تو دن رات ایک کر دیتے ہیں لیکن شاید حکومتی ایوانوں میں کوئی بااثر پاکستانی نہیں ہے جو اپنے پاکستانی نیشنل لاپتہ افراد کے لئے عملی اقدام کرے۔ کاش اسمبلیوں اور اعلیٰ ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے معصوم حسن شرجیل بھی لاپتہ ہوں۔ کاش خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے حسن شرجیل بھی اغوا ہوں تاکہ ان کو پتہ چلے کہ جب معصوم بچے والدین سے دور ہوتے ہیں تو کیا قیامتیں گزرتی ہیں۔ ماﺅں کے جگر کیسے کٹتے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب اٹھارویں ترمیم اور این آر او بھی ضروری ہیں لیکن ان سب سے زیادہ ضروری لاپتہ افراد کا معاملہ ہے۔ خدارا اس کیس کی روزانہ سماعت کریں اور بے گناہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرا کے نہ صرف ان کے خاندانوں کی دعائیں لیں بلکہ آئین اور قانون کی حکمرانی کا سکہ جمائیں۔