اگر انتظامیہ برا نہ مانے تو عدلیہ اس کی بڑی بہن ہے اس لئے کہ کائنات میں عدل پہلے پیدا ہوا ہے اور انتظام بعد میں کوئی بھی معاشرہ ہو وہاں کا انتظام اگر عدل کے مطابق نہیں تو وہ انتظام نہیں عوام سے انتقام ہے۔ ہمیں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے اس بیان سے بڑی خوشی ہوئی کہ انہوں نے کہا کہ عدلیہ اور انتظامیہ میں تصادم نہیں ہو گا۔ یہ تو ایک بیان ہے پھر بھی کتنا خوش کن ہے۔ اگر اس پر عمل بھی ہو جائے تو یہ کس قدر خوش آئند ہو گا۔ آج ملک زوال کے جس گھڑے پر کھڑا ہے اور اس کے گرنے کا اندیشہ ہے اس کا علاج اسی میں ہے کہ انتظام عدل کے سائبان تلے چلے تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں بیان اور عمل میں ٹکراﺅ ہے جس کی وجہ سے 62سال سے عدل اور نظام میں تصادم ہے۔ اس ملک میں ترقی ماکوس اس وقت ہوتی رہے گی جب تک عدلیہ اور انتظامیہ میں کوئی فرق ہی نہیں رہے گا۔ عدلیہ اور انتظامیہ کا ایک ہونا بالکل ایسے ہے جیسے دو بہنوں کو ایک مرد کے نکاح میں دے دیا جائے۔ اگر عدلیہ واقعتہً عدلیہ ہو اور آزاد ہو تو انتظامیہ خود بخود اس کے زیرسایہ رہے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ انتظامیہ عدلیہ کو جواب دہ ہے بشرطیکہ عدلیہ اور انتظامیہ میں ملی بھگت نہ ہو۔ صد شکر ہے کہ عوام اور وکیلوں نے بل کم کر کے عدالت عظمیٰ کو تو آزاد کر دیا ہے اور اب یہ نہیں کہ انتظامیہ عدلیہ کو ڈکٹیٹ کرے دراصل عدلیہ ایک خدائی حکم ہے جس کی اطاعت سب پر لازم ہے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ قوم ان افراد کو عدل کی کرسی پر بٹھائے جو اس کرسی کا حق ادا کریں۔ اگر آج قوم یہ تہیہ کر لے کہ رشوت دے کر عدلیہ سے کام نہیں لینا تو ملک میں ایک آزاد عدلیہ جنم لے سکتی ہے اس لئے کہ اسلام نے رولنگ دی ہے کہ رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اس میں جب تک ہم اپنی سنہری تاریخ کو نہیں دھرائیں گے یہاں کوئی مثبت انقلاب نہیں آ سکے گا۔ اگر حضرت عمرؓ جیسے خلیفہ راشد کو عدلیہ طلب کر سکتی ہے اور وہ عدالت میں حاضر ہو سکتے ہیں تو کہئے ہماری انتظامیہ کو عدالت میں حاضر ہونے سے کونسا نظام معنے ہے۔ دنیا کو جمہوریت اور عدالت اسلام نے دی ہے وگرنہ تاریخ اٹھا کر دیکھئے تو اسلام سے پہلے اس دنیا میں صرف مطلق العنان بادشاہت تھی۔ گورے کالوں پر ہر ستم ڈھاتے تھے۔ انسان کی قدر جانور سے بھی بدتر تھی۔ ظلم کے نئے نئے طریقے ایجاد کئے جاتے تھے۔ حرا کی تنہائیوں میں سے ایک ہستی برآمد ہوئی جس کے پاس نور ہدایت کی شمع تھی۔ اس نے آ کر انسانیت کو بتایا کہ ساری انسانیت برابر ہے۔ قوم کا لیڈر اس کا خادم ہے ایسے خادم تو اب بھی ہمارے پاس ہیں مگر انہیں قریب سے جا کر دیکھئے کیا وہ خادم لگتے ہیں؟ یہ شاہانہ شان و شوکت یہ مال و دولت اور یہ بات بات پر بیرون وطن کے دورے کیا۔ قوم کے خادم ایسے ہی ہوتے ہیں اور کیا لیڈر بننے کےلئے دولت جزولاینفک ہے؟ وزیراعظم نے اگر کہا ہے کہ عدلیہ اور انتظامیہ میں کوئی تصادم نہیں تو 8000 لٹیروں کی لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں صدر آصف علی زرداری نے اپنے اختیارات کی قربانی دے کر انہیں سارے اختیارات دے دیے ہیں اب ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں اس لئے وہ خوبصورت بیانات دے کر خوبصورت عمل بھی پیش کریں۔ خدا کا شکر ہے کہ اس وقت تک عدلیہ اور انتظامیہ میں کوئی تصادم نہیں مگر اس ملک کے اندر اور باہر ایسے عناصر بکثرت پائے جاتے ہیں جو اس مشن میں جتے ہوئے ہیں کہ کس طرح عدلیہ اور انتظامیہ میں ٹکراﺅ پیدا کیا جائے۔ پاکستان کی عدلیہ کو ملکی خود مختاری کا بھی نوٹس لینا چاہئے جسے داخلہ و خارجہ وزارتوں کی نااہلی کے باعث امریکہ روند رہا ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024