رفیق غوری ۔۔۔
الحمدللہ! آجکل میڈیا وہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا بالکل آزاد ہے یا اپنے آزاد ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ کچھ لوگ تو اسے مادر پدر آزاد بھی کہتے ہیں مگر سرِدست ہم اس بحث میں پڑے بغیر اس بات پر غور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کچھ پرائیویٹ ٹی۔وی چینلوں میں مذاکروں کے دوران سے مہمان اٹھ کر چلے کیوں جاتے ہیں؟ بات کو زیادہ پھیلانے کی بجائے ہم آغاز وقوعہ بے نظیر بھٹو کے ایک مذاکرے میں سے روتے ہوئے اٹھ کر چلے جانے والے اور پھر بڑی تگ و دو کے بعد مرحومہ کو واپس لانے سے بات شروع کرتے ہیں۔ اسکے بعد تو اس کام میں گویا ریکارڈ ہی ٹوٹ گئے۔ ابھی گزشتہ دنوں ہی سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے ٹیلنٹڈ کزن جناب ممتاز علی بھٹو بھی محترم عباس اطہر کی باتوں کا جواب دینے کی بجائے لائن چھوڑ گئے۔ خیر ممتاز علی بھٹو صاحب تو پہلے بھی ایک آدھ مرتبہ ایسا کرکے جا چکے ہیں۔ یہی نہیں جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں ان کے ترجمان بلکہ آج بھی ترجمان میجر جنرل راشد قریشی بھی ایک آدھ مرتبہ ایسے ہی کر چکے ہیں۔ ٹی وی پروگراموں میں مہمانوں کے ایک دوسرے کے ساتھ تلخ ہو جانے، گالم گلوچ کرنے اور کبھی کبھار گتھم گتھا ہو جانے کے واقعات قارئین کے ذہن میں آرہے ہوں گے۔ مگر یہاں سوال یہ پیداہوتا ہے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ کس کے ایماءپر کیا یا کرایا جارہا ہے؟ یہی صورتحال رہی یا ہمارے لچھن یہی رہے تو مستقبل میں بات کرنے صرف اپنی کرنے، دوسرے کا زاویہ نگاہ سننے والا شاید کوئی بھی نہیں رہے گا۔ ہم احتیاطاً جنرل(ر) پرویز مشرف کے خطاب نہ کرنے کی بات یہاں نہیں کر رہے۔ مگر ہمارے تو منتخب صدور بھی پارلیمنٹ میں خطاب کرنے کیلئے(ماضی میں) تشریف لائے تو انہیں بھی بات کرنے نہ دی گئی۔ وہ بھی بات نہ کرسکے۔ منتخب سابق صدر فاروق احمد لغاری کو گولغاری گو کے نعرے سننے پڑے۔جنرل (ر) پرویز مشرف کی تو چھوڑیئے ان کی تو بات ہی الگ ہے۔ مگر ہمیں بحیثیت قوم اس بات کا جائزہ اب بھی لے لینا چاہئے کہ جب ایوان صدر میں موجود شخص پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے بھی خطاب نہیں کرسکتا اور ارکان پارلیمنٹ ہی نہیں، ایک آدھ رکن پارلیمنٹ ہی نہیں اپوزیشن لیڈر کی نشست پر کھڑے ہو کر جب کوئی سابق وزیراعظم اور پارلیمنٹ کے اراکین بھی بات نہ سنیں تو شاید ہمیں احساس کرلینا چاہئے، محسوس کرنا چاہئے، جائزہ لینا چاہئے کہ کل کیا ہوگا؟ صدراور وزیراعظم کے منصب پر براجمان کوئی شخصیت بھی اپنی بات نہ کرسکے۔ تو اس کے ذہن میں ہی نہیں ہم جیسے لوگوں کو بھی خیال آتا ہے کہ کافی لوگ سوچ رہے ہیں....ع
”بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی“
اور ہمیں صدور، سنیٹرز اور اراکین پارلیمنٹ و اسمبلی کو بھی اس پر غور کرنا چاہئے کہ....ع
جیسی اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
راقم نے ذاتی طور پر بھی کئی مواقع پر سوالوں، جوابوں کی نشستوں میں ایسے ہوتے دیکھا ہے کہ بلانے والے جواب دینے کی بجائے میزبان ہونے کے باوجود مہمانوں کو تنہا چھوڑ کر تشریف لے جاتے رہے ہیں۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ اسکا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہاں کہاں سے غلط ہوا ہے، کون کون جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور کون کون لیت و لعل سے کام لے رہا ہے۔ اس کا جائزہ لے لینا چاہئے کہ ایسا ہی رہا تو ہمارا کل کیسا ہوگا۔اقتدار میں ہونے کے سبب تو ان معاملات سے ہٹ کر کچھ لوگ اپنا دھیان دوسری اطراف کرسکتے ہیں، رکھ سکتے ہیں مگرجب چار دن کی چاندنی کے بعد اندھیری رات ہو جائے تو پھر اور ہی منظر ہوتا ہے اسلئے سوچ لینا چاہئے....
شرافت کا تقاضا ہے کہو اورصنم
تم تو ویسے ہی خفا ہو لو اور سنو
الحمدللہ! آجکل میڈیا وہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا بالکل آزاد ہے یا اپنے آزاد ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ کچھ لوگ تو اسے مادر پدر آزاد بھی کہتے ہیں مگر سرِدست ہم اس بحث میں پڑے بغیر اس بات پر غور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کچھ پرائیویٹ ٹی۔وی چینلوں میں مذاکروں کے دوران سے مہمان اٹھ کر چلے کیوں جاتے ہیں؟ بات کو زیادہ پھیلانے کی بجائے ہم آغاز وقوعہ بے نظیر بھٹو کے ایک مذاکرے میں سے روتے ہوئے اٹھ کر چلے جانے والے اور پھر بڑی تگ و دو کے بعد مرحومہ کو واپس لانے سے بات شروع کرتے ہیں۔ اسکے بعد تو اس کام میں گویا ریکارڈ ہی ٹوٹ گئے۔ ابھی گزشتہ دنوں ہی سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے ٹیلنٹڈ کزن جناب ممتاز علی بھٹو بھی محترم عباس اطہر کی باتوں کا جواب دینے کی بجائے لائن چھوڑ گئے۔ خیر ممتاز علی بھٹو صاحب تو پہلے بھی ایک آدھ مرتبہ ایسا کرکے جا چکے ہیں۔ یہی نہیں جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں ان کے ترجمان بلکہ آج بھی ترجمان میجر جنرل راشد قریشی بھی ایک آدھ مرتبہ ایسے ہی کر چکے ہیں۔ ٹی وی پروگراموں میں مہمانوں کے ایک دوسرے کے ساتھ تلخ ہو جانے، گالم گلوچ کرنے اور کبھی کبھار گتھم گتھا ہو جانے کے واقعات قارئین کے ذہن میں آرہے ہوں گے۔ مگر یہاں سوال یہ پیداہوتا ہے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ کس کے ایماءپر کیا یا کرایا جارہا ہے؟ یہی صورتحال رہی یا ہمارے لچھن یہی رہے تو مستقبل میں بات کرنے صرف اپنی کرنے، دوسرے کا زاویہ نگاہ سننے والا شاید کوئی بھی نہیں رہے گا۔ ہم احتیاطاً جنرل(ر) پرویز مشرف کے خطاب نہ کرنے کی بات یہاں نہیں کر رہے۔ مگر ہمارے تو منتخب صدور بھی پارلیمنٹ میں خطاب کرنے کیلئے(ماضی میں) تشریف لائے تو انہیں بھی بات کرنے نہ دی گئی۔ وہ بھی بات نہ کرسکے۔ منتخب سابق صدر فاروق احمد لغاری کو گولغاری گو کے نعرے سننے پڑے۔جنرل (ر) پرویز مشرف کی تو چھوڑیئے ان کی تو بات ہی الگ ہے۔ مگر ہمیں بحیثیت قوم اس بات کا جائزہ اب بھی لے لینا چاہئے کہ جب ایوان صدر میں موجود شخص پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے بھی خطاب نہیں کرسکتا اور ارکان پارلیمنٹ ہی نہیں، ایک آدھ رکن پارلیمنٹ ہی نہیں اپوزیشن لیڈر کی نشست پر کھڑے ہو کر جب کوئی سابق وزیراعظم اور پارلیمنٹ کے اراکین بھی بات نہ سنیں تو شاید ہمیں احساس کرلینا چاہئے، محسوس کرنا چاہئے، جائزہ لینا چاہئے کہ کل کیا ہوگا؟ صدراور وزیراعظم کے منصب پر براجمان کوئی شخصیت بھی اپنی بات نہ کرسکے۔ تو اس کے ذہن میں ہی نہیں ہم جیسے لوگوں کو بھی خیال آتا ہے کہ کافی لوگ سوچ رہے ہیں....ع
”بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی“
اور ہمیں صدور، سنیٹرز اور اراکین پارلیمنٹ و اسمبلی کو بھی اس پر غور کرنا چاہئے کہ....ع
جیسی اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
راقم نے ذاتی طور پر بھی کئی مواقع پر سوالوں، جوابوں کی نشستوں میں ایسے ہوتے دیکھا ہے کہ بلانے والے جواب دینے کی بجائے میزبان ہونے کے باوجود مہمانوں کو تنہا چھوڑ کر تشریف لے جاتے رہے ہیں۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ اسکا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہاں کہاں سے غلط ہوا ہے، کون کون جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور کون کون لیت و لعل سے کام لے رہا ہے۔ اس کا جائزہ لے لینا چاہئے کہ ایسا ہی رہا تو ہمارا کل کیسا ہوگا۔اقتدار میں ہونے کے سبب تو ان معاملات سے ہٹ کر کچھ لوگ اپنا دھیان دوسری اطراف کرسکتے ہیں، رکھ سکتے ہیں مگرجب چار دن کی چاندنی کے بعد اندھیری رات ہو جائے تو پھر اور ہی منظر ہوتا ہے اسلئے سوچ لینا چاہئے....
شرافت کا تقاضا ہے کہو اورصنم
تم تو ویسے ہی خفا ہو لو اور سنو