محمد اسلم لودھی ۔۔۔
پاکستان میں جب بھی مارشل لا نافذ ہوا اس میں جرنیلوں کی بجائے سیاست دانوں کی حماقتیں زیادہ شامل رہی ہےں۔ کیا یہ بات افسوسناک نہیں کہ وہ سیاست دان جنہوں نے قائداعظم کی قیادت میں پاکستان حاصل کرنے کےلئے توکامیاب جدوجہد کی لیکن باہمی رسہ کشی کے باعث دس سال تک ملک کو آئین بھی نہ دے سکے۔ اسی دھینگا مستی کو دیکھ کر نہرو نے کہا تھا کہ میں اتنے لباس نہیں بدلتا جتنی پاکستان میں حکومتیں بدل جاتی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ پاکستان میں حقیقی ترقی کی بنیاد اور تمام بڑے منصوبوں پر عملی طور پر کام ایوب دور میں ہی شروع ہوا۔ بے شک تاریخ انہیں آمر کی حیثیت سے یاد کرتی ہے لیکن میری نظر میں وہ تمام پاکستانی حکمرانوں سے بہتر اور محب وطن انسان تھے اور قوم ہمیشہ ان کی خدمات کو سراہتی رہے گی۔ ملک دولخت ہونے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے پہلے سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا اور 1973 کا متفقہ آئین دینے کا کارنامہ انجام دیا لیکن اپنے ہی بنائے آئین میں ترمیموں کے خود ساختہ پیوند لگانے شروع کر دیئے۔ پھر انہوںنے سات سینئر جرنیلوں کو ریٹائر کرنے کے بعد آرمی چیف کی حیثیت سے ایک ایسے جنرل (محمد ضیاالحق) کا انتخاب کیا جن کا سیاست سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ جنرل ضیاالحق کی سادگی‘ انکساری اور عاجزی کو دیکھ کر بھٹو انہیں بینڈ ماسٹر کے لقب سے پکارا کرتے تھے بلکہ کابینہ اجلاسوں میں وزراءکا رویہ بھی ہمیشہ توہین آمیز ہوتا۔ لیکن جب ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو کامیاب کروانے کے لئے 1977ءکے الیکشن میں ریکارڈ ساز دھاندلی کر کے عوام کے غیض و غضب کو آواز دی تو پورا ملک شدید ترین ہنگاموں کی لپیٹ میں آ گیا حتیٰ کہ حالات اس قدر مخدوش ہو گئے کہ فوج کے پاس تختہ الٹنے کے سوا چارہ نہ رہا۔ تاریخ شاہد ہے کہ بھٹو حکومت کے خاتمے پر ملک بھر میں یوم تشکر منایا گیا۔ بعد میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے ادوار بھی قابل رشک کارکردگی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا بلکہ ایوان اقتدار ہمیشہ سازشوں کی آماج گاہ بنا رہا یعنی 1988 سے 1997 تک دو مرتبہ بے نظیر اور دو ہی مرتبہ نوازشریف برسر اقتدار آئے لیکن یہ دونوں نہ تو خود کو جمہوری حکمران ثابت کر سکے اور نہ ہی ان کے دور عوامی خدمت کے اعتبار سے مثالی قرار پائے۔ لوٹ مار اور کرپشن کے الزامات پر دونوں کی حکومتوں کو معطل کیا جاتا رہا۔ بالاخر 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے نہ صرف مارشل لا لگایا بلکہ جنرل ضیاالحق کی طرح ضمیر فروش سیاست دانوں کو بیساکھیاں بنا کر کامیابی سے 9 سال حکومت بھی کی اور گارڈ آف آنر لے کر اس ملک سے رخصت ہوئے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مارشل لا کوئی بھی ہو سیاست دان نہ صرف خود مارشل لا کے اسباب پیدا کرتے ہیں بلکہ بیساکھیاں فراہم کر کے اسے طول دینے کا باعث بھی بنتے ہیں جبکہ عوام نہایت خوشدلی سے مارشل لا کو اس لئے قبول کر لیتے ہیں کہ اقتدار ملنے کے بعد کسی بھی سول حکمران نے عوام کی بہتری کے لئے کچھ نہیں کیا بلکہ ہر سویلین دور میں لوٹ مار‘ اقربا پروری کا بازار ہی گرم رہا۔ سچ تو یہ ہے کہ جمہوریت کبھی بھی اس ملک میں نہیں آئی بلکہ ہمیشہ جمہوریت کے نام پر عوام کو بیوقوف بنایا جاتا رہا ہے۔ میری رائے میں فوجی حکمرانوں کے ادوار سویلین حکمرانوں کی نسبت ہزار گنا زیادہ بہتر‘ معیشت کے لئے سازگار اور عوام کے لئے فائدہ مند ثابت ہوئے۔ اب پیپلز پارٹی کو برسراقتدار آئے دو سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے اس عرصے کے دوران کوئی ایک اقدام بھی عوام کے حق میں نہیں اٹھایا جا سکا بلکہ بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں پے درپے اضافوں سے عوام کی قوت خرید اور برداشت کا کچومر ہی نکال دیا گیا ہے۔ اب اگر مارشل لا لگا تو اس کی تمام تر ذمہ داری موجودہ حکمرانوں کے سر ہوگی ۔
پاکستان میں جب بھی مارشل لا نافذ ہوا اس میں جرنیلوں کی بجائے سیاست دانوں کی حماقتیں زیادہ شامل رہی ہےں۔ کیا یہ بات افسوسناک نہیں کہ وہ سیاست دان جنہوں نے قائداعظم کی قیادت میں پاکستان حاصل کرنے کےلئے توکامیاب جدوجہد کی لیکن باہمی رسہ کشی کے باعث دس سال تک ملک کو آئین بھی نہ دے سکے۔ اسی دھینگا مستی کو دیکھ کر نہرو نے کہا تھا کہ میں اتنے لباس نہیں بدلتا جتنی پاکستان میں حکومتیں بدل جاتی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ پاکستان میں حقیقی ترقی کی بنیاد اور تمام بڑے منصوبوں پر عملی طور پر کام ایوب دور میں ہی شروع ہوا۔ بے شک تاریخ انہیں آمر کی حیثیت سے یاد کرتی ہے لیکن میری نظر میں وہ تمام پاکستانی حکمرانوں سے بہتر اور محب وطن انسان تھے اور قوم ہمیشہ ان کی خدمات کو سراہتی رہے گی۔ ملک دولخت ہونے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے پہلے سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا اور 1973 کا متفقہ آئین دینے کا کارنامہ انجام دیا لیکن اپنے ہی بنائے آئین میں ترمیموں کے خود ساختہ پیوند لگانے شروع کر دیئے۔ پھر انہوںنے سات سینئر جرنیلوں کو ریٹائر کرنے کے بعد آرمی چیف کی حیثیت سے ایک ایسے جنرل (محمد ضیاالحق) کا انتخاب کیا جن کا سیاست سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ جنرل ضیاالحق کی سادگی‘ انکساری اور عاجزی کو دیکھ کر بھٹو انہیں بینڈ ماسٹر کے لقب سے پکارا کرتے تھے بلکہ کابینہ اجلاسوں میں وزراءکا رویہ بھی ہمیشہ توہین آمیز ہوتا۔ لیکن جب ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو کامیاب کروانے کے لئے 1977ءکے الیکشن میں ریکارڈ ساز دھاندلی کر کے عوام کے غیض و غضب کو آواز دی تو پورا ملک شدید ترین ہنگاموں کی لپیٹ میں آ گیا حتیٰ کہ حالات اس قدر مخدوش ہو گئے کہ فوج کے پاس تختہ الٹنے کے سوا چارہ نہ رہا۔ تاریخ شاہد ہے کہ بھٹو حکومت کے خاتمے پر ملک بھر میں یوم تشکر منایا گیا۔ بعد میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے ادوار بھی قابل رشک کارکردگی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا بلکہ ایوان اقتدار ہمیشہ سازشوں کی آماج گاہ بنا رہا یعنی 1988 سے 1997 تک دو مرتبہ بے نظیر اور دو ہی مرتبہ نوازشریف برسر اقتدار آئے لیکن یہ دونوں نہ تو خود کو جمہوری حکمران ثابت کر سکے اور نہ ہی ان کے دور عوامی خدمت کے اعتبار سے مثالی قرار پائے۔ لوٹ مار اور کرپشن کے الزامات پر دونوں کی حکومتوں کو معطل کیا جاتا رہا۔ بالاخر 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے نہ صرف مارشل لا لگایا بلکہ جنرل ضیاالحق کی طرح ضمیر فروش سیاست دانوں کو بیساکھیاں بنا کر کامیابی سے 9 سال حکومت بھی کی اور گارڈ آف آنر لے کر اس ملک سے رخصت ہوئے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مارشل لا کوئی بھی ہو سیاست دان نہ صرف خود مارشل لا کے اسباب پیدا کرتے ہیں بلکہ بیساکھیاں فراہم کر کے اسے طول دینے کا باعث بھی بنتے ہیں جبکہ عوام نہایت خوشدلی سے مارشل لا کو اس لئے قبول کر لیتے ہیں کہ اقتدار ملنے کے بعد کسی بھی سول حکمران نے عوام کی بہتری کے لئے کچھ نہیں کیا بلکہ ہر سویلین دور میں لوٹ مار‘ اقربا پروری کا بازار ہی گرم رہا۔ سچ تو یہ ہے کہ جمہوریت کبھی بھی اس ملک میں نہیں آئی بلکہ ہمیشہ جمہوریت کے نام پر عوام کو بیوقوف بنایا جاتا رہا ہے۔ میری رائے میں فوجی حکمرانوں کے ادوار سویلین حکمرانوں کی نسبت ہزار گنا زیادہ بہتر‘ معیشت کے لئے سازگار اور عوام کے لئے فائدہ مند ثابت ہوئے۔ اب پیپلز پارٹی کو برسراقتدار آئے دو سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے اس عرصے کے دوران کوئی ایک اقدام بھی عوام کے حق میں نہیں اٹھایا جا سکا بلکہ بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں پے درپے اضافوں سے عوام کی قوت خرید اور برداشت کا کچومر ہی نکال دیا گیا ہے۔ اب اگر مارشل لا لگا تو اس کی تمام تر ذمہ داری موجودہ حکمرانوں کے سر ہوگی ۔