امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ پاکستان کو شدت پسندوں کیخلاف مزید اقدامات کرنا ہونگے‘ امریکی سرزمین پر پاکستان سے کسی بھی کامیاب دہشت گردی کے حملے کے خدشات لاحق ہیں۔ پاکستان کو جلد شمالی وزیرستان میں اپریشن کرنا ہو گا تاکہ خطے سے شدت پسندوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔ قندھار اپریشن کے ذریعے طالبان کی طاقت کو ختم کرنے کی کوشش کی جائیگی‘ نیویارک ٹائمز سکوائر کے واقعہ سے ثابت ہو گیا ہے کہ دہشت گردی اب بھی بڑا خطرہ ہے۔ واشنگٹن میں افغان صدر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ پاک آرمی نے گزشتہ سال دہشت گردی کیخلاف جو اقدامات اٹھائے اور وہ مزید اٹھانے کے خواہاں ہیں‘ یہ بات ہمارے لئے حوصلہ افزا ہے۔
ہمارے حکمرانوں کے لالچ اور بزدلی کی وجہ سے امریکہ اپنے مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کیلئے دہشت گردی کیخلاف جنگ افغانستان سے پاکستان میں کھینچ لایا جس کو وہ پھیلاتا چلا جا رہا ہے‘ اسکے ’’یہ بھی کرو‘ وہ بھی کرو اور مزید کرو‘‘ کے مطالبات ختم ہونے میںنہیں آرہے‘ جبکہ ہمارے عوام کے منتخب حکمران آمر پرویز مشرف کی طرح فون کالوں پر ہی ڈھیر ہوتے جا رہے ہیں۔ افغانستان میں جدید اسلحہ سے لیس امریکہ اور اسکے 41 اتحادی ممالک طالبان کیخلاف برسر پیکار ہیں‘ اسکے باوجود کامیابی نہیں مل رہی‘ اتحادیوں کی شکست وہاں پر واضح نظر آرہی ہے‘ وہ پاکستان کو بھی اس دلدل میں پھنسانا چاہتا ہے تاکہ پاک فوج کو کمزور کردیا جائے۔ اس میں ملکی دفاع کی طاقت ہی نہ رہے اور عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان کا ایٹمی اثر آسانی سے زائل کیا جا سکے۔ پاکستان کی تباہی اس کو ایٹمی اثاثوں سے محروم کرنا امریکہ اسرائیل اور بھارت پر مشتمل شیطانی اتحاد ثلاثہ کا مشترکہ ایجنڈہ ہے جسکی تکمیل کیلئے امریکہ پاکستان سے دوستی کی آڑ میں سب سے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
ہلیری کلنٹن کو امریکہ میں پاکستان کے شمالی علاقوں سے دہشت گردی کے حملے کا خطرہ ہے‘ کیا ایسے علاقے سے امریکہ پر حملوں کا کوئی امکان ہو سکتا ہے جہاں قدم قدم پر چیک پوسٹیں‘ سڑکوں پر ایف سی کا چوبیس گھنٹے گشت‘ گھر گھر تلاشی کا سلسلہ اوپر سے امریکی ڈرون حملے بے گناہ اور معصوم انسانوں کو بموں کے ذریعے کیڑے مکوڑوں کی طرح ہلاک ہو رہے ہوں۔ گزشتہ ماہ سٹریٹجک مذاکرات کیلئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی قیادت میں وفد امریکہ گیا تو امریکیوں نے جنرل کیانی سے شمالی وزیرستان میں اپریشن اور افغانستان میں طالبان کے ساتھ اپنی جنگ لڑنے کیلئے پاک فوج بھجوانے کا مطالبہ کیا‘ لیکن ہمارے آرمی چیف نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا یہ مطالبہ مسترد کر دیا۔ اس تناظر میں ٹائمز سکوائر نیویارک میں پکڑی گئی بارودی گاڑی‘ فیصل شہزاد کی گرفتاری اسکی طرف سے طالبان سے رابطوں اور شمالی وزیرستان میں تربیت حاصل کرنے کا مبینہ اعتراف اور امریکہ کی جانب سے پاکستان کے شمالی وزیرستان میں فوری اپریشن کے مطالبے سے ٹائمز سکوائر کے واقعہ کا پول کھل گیا اور واضح ہو گیا کہ امریکہ نے یہ ڈرامہ صرف پاکستان کو شمالی وزیرستان سمیت پنجاب تک فوجی اپریشن کا دائرہ بڑھانے کیلئے رچایا تاکہ اس سے ڈومور کے مزید تقاضے کئے جائیں۔ امریکہ افغانوں اور افغان سرزمین پر تو مکمل کنٹرول حاصل نہیں کر سکا‘ البتہ کٹھ پتلی افغان حکومت جو صرف کابل تک محدود ہے‘ اس پر امریکہ کا مکمل کنٹرول ہے۔ وہ پاکستان پر ڈرون حملوں اور اپریشن کا جواز یہ پیش کرتا ہے کہ افغانستان میں برسر پیکار طالبان پاکستان کے ان علاقوں میں پناہ لیتے ہیں۔ ہلیری نے اب یہ بھی کہا ہے کہ قندھار میں اپریشن کے ذریعے طالبان طاقت کو ختم کرنے کی کوشش کی جائیگی‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ بارود اور آہن کی بارش کریگا تو طالبان پھر پاکستان کا رخ کرینگے جسے امریکہ جواز بنا کر پاکستان میں جہاں چاہے گا‘ طالبان کی موجودگی ظاہر کرکے پاک فوج کو ان علاقوں میں اپریشن کیلئے مجبور کریگا۔ اگر امریکہ کی نیت میں فتور نہیں‘ تو وہ طالبان کے پاکستان فرار ہونے کے راستے مسدد کرنے کیلئے ڈیورنڈ لائن پر دیوار تعمیر کرے یا باڑ لگا دے لیکن اس نے پاک افغان سرحد پر قائم چوکیاں بھی ختم کر دیں جو اسکی بدنیتی کا بین ثبوت ہے۔
امریکہ پاکستان میں پائوں پسارتا چلا جا رہا ہے‘ پاکستان کے مفادات کیخلاف کام کرنیوالی اسکی مسلح بلیک واٹر اور ڈائن کارپ نامی نام نہاد سیکورٹی ایجنسیوں کے کارندے بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑیوں اور بلالائسنس اسلحہ کے پاکستان کے بڑے شہروں اسلام آباد‘ کراچی‘ لاہور اور پشاور میں کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں‘ اب ترقیاتی کاموں کے نام پر کوئٹہ میں قونصلیٹ کھولنے کی تیاری ہو رہی ہے‘ جہاں بھارت کی اسلحی اور مالی امداد سے علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ کوئٹہ میں یہ قونصلیٹ امریکی چھائونی کا کردار ادا کریگا‘ جہاں سے علیحدگی پسندوں کو اسلحہ اور ڈالروں کی فراہمی میں مزید آسانی ہو جائیگی۔ پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے‘ کسی کا باجگزار نہیں‘ اگر امریکہ پاکستان کی ترقی میں دلچسپی رکھتا ہے تو وہ حکومت پاکستان کے توسط سے یہ کام شروع کرے۔
عجب تماشا ہے کہ ایک طرف امریکی انٹیلی جنس واضح طور پر کہہ رہی ہے کہ ٹائمز سکوائر میں پاکستانی طالبان کے ملوث ہونے کا ثبوت نہیں ملا‘ جبکہ دوسری طرف ہلیری اور واشنگٹن پوسٹ پاکستانی طالبان کے ملوث ہونے کی اپنی راگنی الاپ رہے ہیں‘ جو امریکی وزیر خارجہ اور انٹیلی جنس کے درمیان تال میل کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی خواہش کو خبر بنا کر شائع کر دیا کہ پاکستان میں گرفتار شخص نے فیصل شہزاد کی معاونت کا اعتراف کرلیا‘ جبکہ ہمارے وزیر داخلہ ایسے ’’لوری پڈھاری‘‘ گروپ کا حصہ نظر آتے ہیں جنہیں بیان جاری کرتے ہوئے موقع کی نزاکت کا اندازہ ہی نہیں رہتا۔ ملک صاحب فرما رہے ہیں کہ کوئی باضابطہ گرفتاری نہیں ہوئی‘ امریکہ نے کچھ معلومات طلب کی تھیں‘ جو ہم فراہم کر رہے ہیں۔ جب امریکی انٹیلی جنس تحقیق کر چکی ہے کہ ٹائمز سکوائر میں پاکستانی طالبان ملوث نہیں تو باضباطہ اور ’’بے ضابطہ‘‘ گرفتاری کے حوالے سے ملک صاحب کے بیان کی کیا وقعت باقی رہ جاتی ہے؟ ایسا ہی ایک بیان وزیر خارجہ قریشی صاحب نے 5 مئی کو دیا کہ نیویارک بم کیس ڈرون حملوں کا ردعمل ہے‘ جو آبیل مجھے مار کے مترادف ہے۔ اگر حکومت کی جانب سے ایسے کمزور بیانات دیئے جائیں گے تو امریکہ کی جانب سے مزید اپریشن کے مطالبے ہی ہونگے۔
امریکہ کے شمالی وزیرستان پر اپریشن کے مطالبہ پر پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے کہا ہے کہ کسی ملک کے دبائو پر اپریشن نہیں کریںگے‘ ان کا یہ بیان روایتی یا خانہ پوری کے سوا کچھ نہیں ہے‘ جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ اپریشن بغیر دبائو اور اپنی مرضی سے کرینگے۔ سیاسی اور عسکری قیادت کو واضح سٹینڈ لیتے ہوئے امریکہ پر واضح کرنا چاہئے کہ نہ صرف وہ شمالی وزیرستان میں اپریشن نہیں کرینگے‘ بلکہ دہشت گردی کیخلاف اسکی جنگ میں مزید ساتھ بھی نہیں دے سکتے۔ اس لاحاصل جنگ میں پاک فوج کے اڑھائی ہزار فوجیوں سمیت اس تعداد سے کئی گنا زیادہ معصوم اور بے گناہ شہری مارے جا چکے ہیں۔ پاکستان کا چالیس ارب سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے‘ ملک بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں الگ آچکا ہے‘ ڈرون حملے میں جتنے افراد جاں بحق ہوتے ہیں‘ اتنے ہی اپنے پیاروں کا بدلہ لینے کیلئے خودکش بمبار بن جاتے ہیں۔ امریکہ سے ڈرتے رہیں گے تو تباہی و بربادی قوم کا مقدر بنی رہے گی‘ حکمران ایران کی طرح جرأت و ہمت کا مظاہرہ کریں‘ پاکستان کی فضائوں میں اڑنے والے ڈرون گرانے کا سلسلہ شروع کردیں‘ ایک دو ڈرون گریں گے تو امریکہ کی عقل ٹھکانے آجائیگی ‘ اسے بھاگتے بنے گی اور پاکستان کی ایک لاحاصل جنگ سے جان چھوٹ جائیگی۔ افغان غلام نے بھی دھمکی دی ہے کہ میرے ساتھ ٹھیک سلوک کرو ورنہ میں طالبان کے ساتھ مل جائونگا۔ خدا کرے افغانستان اور پاکستان کے حکمران ہوش میں آئیں اور انکل سام سے نجات حاصل کریں۔
ہمیش خان کے بعد دوسرے مفروروں کو بھی لایا جائے
اربوں روپے کے فراڈ کے الزام میں نیب کو مطلوب پنجاب بینک کے سابق سربراہ ہمیش خان جمعہ کی شام کو نیویارک سے آنیوالی پرواز سے لاہور پہنچ گئے اور تازہ ترین اطلاعات کیمطابق نیب کی عدالت سے ان کا چودہ روز کا ریمانڈ بھی مل گیا ہے۔
ہمیش خان چونکہ امریکی شہری ہیں اور امریکی حکومت نے انکی حوالگی کو مشروط کیا ہے کہ ان پر تشدد وغیرہ نہیں کیا جائیگا۔ سپریم کورٹ نے بھی ہدایت کی ہے کہ انکے ساتھ ناروا سلوک نہ کیا جائے۔ امریکہ سے ہمیش خان نے چند ہفتہ قبل جو بیانات دئیے تھے ان میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ حکومت پاکستان سے تعاون کرنے کیلئے تیار ہیں۔ ان پر تشدد نہ کیا جائے۔ پوری قوم اب اس بات کی منتظر ہے کہ ہمیش خان پنجاب بینک میں اربوں روپے کے ہونیوالے فراڈز کے بارے میں حقیقت بیانی سے کام لیں گے۔ ملک و قوم کے ڈوبے ہوئے سرمایہ کی بازیابی میں معاون ثابت ہونگے اور وطن عزیز سے محبت کی اچھی مثال پیش کرینگے۔ حکومت پاکستان نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر ہمیش خان کو امریکہ سے پاکستان لا کر بہت اچھا کام کیا ہے۔ اس سے بہت سے پردہ نشینوں کے نام بھی بے پردہ ہوں گے اور جو لوگ بھی ان فراڈز میں ملوث ہوں۔ انہیں خواہ وہ حکومت کے بااختیار حکام ہوں، ہر قیمت پر عدالت کے کٹہرہ میں لایا جائے۔ اسکے علاوہ بیرون ملک بہت سی شخصیات ہیں جو حکومت پاکستان کو بہت سے مقدمات میں مطلوب ہیں۔ ان سب کو پاکسان لایا جائے۔ جن میں سر فہرست سابق آمر جنرل (ر) پرویز مشرف اور انکے ساتھی بھی شامل ہیں۔ حکومت پاکستان ان کو بھی پاکستان واپس لائے اور عدالت میں پیش کرے تاکہ یہ لوگ اپنے کئے کی سزا پا سکیں۔ ریاستی اداروں کو یہ بھی کوشش کرنی چاہئے کہ جن لوگوں کے بیرون ممالک ناجائز اثاثہ جات موجود ہیں‘ وہ بھی پاکستان لائے جائیں۔
نقاب ’’فرانس کی آئینی عدالت کا فیصلہ‘‘
فرانس کی آئینی عدالت نے حکم دیا ہے کہ فرانس میں خواتین کے نقاب پہننے پر پابندی عائد نہیں کی جا سکتی۔ یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ واضح رہے کہ فرانس کی پارلیمنٹ نے خواتین کو نقاب پر پابندی کی قرارداد منظور کی تھی۔
فرانس کی آئینی عدالت نے پارلیمنٹ کی طرف سے نقاب پہننے پر پابندی عائد کرنے کے حکم کو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیکر ایک طرف اپنے آئین کی بنیادی حدود اور اسکے قانونی ڈھانچہ کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیا ہے دوسری طرف اپنے ملک کے معاشرے میں مذہبی تنگ نظری اور تعصب پر مبنی قوانین کو فروغ دینے کے رجحانات کو مسترد کر د یا ہے۔ فرانس کی آئینی عدالت کا تفصیلی فیصلہ تو ہمارے سامنے نہیں ہے مگر نقاب اوڑھنے پر پابندی کو ختم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ فاضل عدالت نے سکارف پر پابندی کو ہی مسترد کر دیا ہو گا کیونکہ نقاب سے چہرہ ڈھانپا جاتا ہے جبکہ سکارف سے چہرہ کھلا رہتا ہے۔ فرانس کی عدالت کے فیصلہ کے بعد امید ہے کہ یورپ کے کئی ممالک میں سکارف اور نقاب پر پابندی اب ختم ہو جائیگی۔ مذہبی تعصب اور تنگ نظری کی بنیاد پر یورپی ممالک میں بنیادی انسانی حقوق کو محدود کرنے کی جو جذباتی مہم شروع کی گئی تھی یقیناً یہ اب دم توڑ جائیگی اگرچہ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ان غیر مسلم ممالک کا مذہبی تعصب تو ختم نہیں ہو سکتا البتہ بنیادی انسانی حقوق کو مذہبی تعصبات کیو جہ سے ٹھیس نہیں پہنچے گی۔
گندم خریداری‘ کاشتکاروں کیلئے آسانی پیدا کی جائے
وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گندم کی خریداری میں کسی بھی بدعنوانی کو برداشت نہیں کیا جائیگا‘ چھوٹے کاشتکاروں کا مفاد عزیز ہے‘ کسی کو استحصال کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب خادم پنجاب کا کردار ادا کرتے نظر آرہے ہیں لیکن باردانہ کی تلاش میں پریشان حال کسانوں کے مسائل کا مداوا باقی ہے۔ آج غریب کسان اپنے باردانہ میں گندم لا کر دو تین دن گندم خریداری‘ سنٹروں کے باہر لمبی قطاروں میں گزارنے کے بعد اس کو سستے داموں فروخت کرکے گھروں کو جا رہا ہے کیونکہ گاڑیوں کے کرائے اور وقت کا ضیاع غریب کسان برداشت کرنے سے قاصر ہیں۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ موجودہ سسٹم کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت ٹیموں کو ہر کسان کے کھیتوں سے گندم اٹھانے کا اہتمام بھی کرے اور موقع پر اسکی رقم ادا کرنے کے منصوبے ترتیب دے کیونکہ پہلے منصوبوں میں من پسند اور اثر و رسوخ والے زمیندار نوازے جا رہے ہیں اور کمشن مافیا بھی کسی حد تک متحرک نظر آتا ہے۔ چھوٹا کسان طبقہ زبوں حالی کا شکار ہے‘ وہ اونے پونے داموں گندم فروخت کر رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ باردانہ فراہمی منصوبے میں سستی کرنے اور من پسند افراد کو نوازنے والوں کا احتساب کریں اور اس سسٹم میں موجود پیچیدگیوں کو دور کرکے اسکو عوام کیلئے سہل بنائیں۔
ہمارے حکمرانوں کے لالچ اور بزدلی کی وجہ سے امریکہ اپنے مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کیلئے دہشت گردی کیخلاف جنگ افغانستان سے پاکستان میں کھینچ لایا جس کو وہ پھیلاتا چلا جا رہا ہے‘ اسکے ’’یہ بھی کرو‘ وہ بھی کرو اور مزید کرو‘‘ کے مطالبات ختم ہونے میںنہیں آرہے‘ جبکہ ہمارے عوام کے منتخب حکمران آمر پرویز مشرف کی طرح فون کالوں پر ہی ڈھیر ہوتے جا رہے ہیں۔ افغانستان میں جدید اسلحہ سے لیس امریکہ اور اسکے 41 اتحادی ممالک طالبان کیخلاف برسر پیکار ہیں‘ اسکے باوجود کامیابی نہیں مل رہی‘ اتحادیوں کی شکست وہاں پر واضح نظر آرہی ہے‘ وہ پاکستان کو بھی اس دلدل میں پھنسانا چاہتا ہے تاکہ پاک فوج کو کمزور کردیا جائے۔ اس میں ملکی دفاع کی طاقت ہی نہ رہے اور عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان کا ایٹمی اثر آسانی سے زائل کیا جا سکے۔ پاکستان کی تباہی اس کو ایٹمی اثاثوں سے محروم کرنا امریکہ اسرائیل اور بھارت پر مشتمل شیطانی اتحاد ثلاثہ کا مشترکہ ایجنڈہ ہے جسکی تکمیل کیلئے امریکہ پاکستان سے دوستی کی آڑ میں سب سے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
ہلیری کلنٹن کو امریکہ میں پاکستان کے شمالی علاقوں سے دہشت گردی کے حملے کا خطرہ ہے‘ کیا ایسے علاقے سے امریکہ پر حملوں کا کوئی امکان ہو سکتا ہے جہاں قدم قدم پر چیک پوسٹیں‘ سڑکوں پر ایف سی کا چوبیس گھنٹے گشت‘ گھر گھر تلاشی کا سلسلہ اوپر سے امریکی ڈرون حملے بے گناہ اور معصوم انسانوں کو بموں کے ذریعے کیڑے مکوڑوں کی طرح ہلاک ہو رہے ہوں۔ گزشتہ ماہ سٹریٹجک مذاکرات کیلئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی قیادت میں وفد امریکہ گیا تو امریکیوں نے جنرل کیانی سے شمالی وزیرستان میں اپریشن اور افغانستان میں طالبان کے ساتھ اپنی جنگ لڑنے کیلئے پاک فوج بھجوانے کا مطالبہ کیا‘ لیکن ہمارے آرمی چیف نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا یہ مطالبہ مسترد کر دیا۔ اس تناظر میں ٹائمز سکوائر نیویارک میں پکڑی گئی بارودی گاڑی‘ فیصل شہزاد کی گرفتاری اسکی طرف سے طالبان سے رابطوں اور شمالی وزیرستان میں تربیت حاصل کرنے کا مبینہ اعتراف اور امریکہ کی جانب سے پاکستان کے شمالی وزیرستان میں فوری اپریشن کے مطالبے سے ٹائمز سکوائر کے واقعہ کا پول کھل گیا اور واضح ہو گیا کہ امریکہ نے یہ ڈرامہ صرف پاکستان کو شمالی وزیرستان سمیت پنجاب تک فوجی اپریشن کا دائرہ بڑھانے کیلئے رچایا تاکہ اس سے ڈومور کے مزید تقاضے کئے جائیں۔ امریکہ افغانوں اور افغان سرزمین پر تو مکمل کنٹرول حاصل نہیں کر سکا‘ البتہ کٹھ پتلی افغان حکومت جو صرف کابل تک محدود ہے‘ اس پر امریکہ کا مکمل کنٹرول ہے۔ وہ پاکستان پر ڈرون حملوں اور اپریشن کا جواز یہ پیش کرتا ہے کہ افغانستان میں برسر پیکار طالبان پاکستان کے ان علاقوں میں پناہ لیتے ہیں۔ ہلیری نے اب یہ بھی کہا ہے کہ قندھار میں اپریشن کے ذریعے طالبان طاقت کو ختم کرنے کی کوشش کی جائیگی‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ بارود اور آہن کی بارش کریگا تو طالبان پھر پاکستان کا رخ کرینگے جسے امریکہ جواز بنا کر پاکستان میں جہاں چاہے گا‘ طالبان کی موجودگی ظاہر کرکے پاک فوج کو ان علاقوں میں اپریشن کیلئے مجبور کریگا۔ اگر امریکہ کی نیت میں فتور نہیں‘ تو وہ طالبان کے پاکستان فرار ہونے کے راستے مسدد کرنے کیلئے ڈیورنڈ لائن پر دیوار تعمیر کرے یا باڑ لگا دے لیکن اس نے پاک افغان سرحد پر قائم چوکیاں بھی ختم کر دیں جو اسکی بدنیتی کا بین ثبوت ہے۔
امریکہ پاکستان میں پائوں پسارتا چلا جا رہا ہے‘ پاکستان کے مفادات کیخلاف کام کرنیوالی اسکی مسلح بلیک واٹر اور ڈائن کارپ نامی نام نہاد سیکورٹی ایجنسیوں کے کارندے بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑیوں اور بلالائسنس اسلحہ کے پاکستان کے بڑے شہروں اسلام آباد‘ کراچی‘ لاہور اور پشاور میں کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں‘ اب ترقیاتی کاموں کے نام پر کوئٹہ میں قونصلیٹ کھولنے کی تیاری ہو رہی ہے‘ جہاں بھارت کی اسلحی اور مالی امداد سے علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ کوئٹہ میں یہ قونصلیٹ امریکی چھائونی کا کردار ادا کریگا‘ جہاں سے علیحدگی پسندوں کو اسلحہ اور ڈالروں کی فراہمی میں مزید آسانی ہو جائیگی۔ پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے‘ کسی کا باجگزار نہیں‘ اگر امریکہ پاکستان کی ترقی میں دلچسپی رکھتا ہے تو وہ حکومت پاکستان کے توسط سے یہ کام شروع کرے۔
عجب تماشا ہے کہ ایک طرف امریکی انٹیلی جنس واضح طور پر کہہ رہی ہے کہ ٹائمز سکوائر میں پاکستانی طالبان کے ملوث ہونے کا ثبوت نہیں ملا‘ جبکہ دوسری طرف ہلیری اور واشنگٹن پوسٹ پاکستانی طالبان کے ملوث ہونے کی اپنی راگنی الاپ رہے ہیں‘ جو امریکی وزیر خارجہ اور انٹیلی جنس کے درمیان تال میل کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی خواہش کو خبر بنا کر شائع کر دیا کہ پاکستان میں گرفتار شخص نے فیصل شہزاد کی معاونت کا اعتراف کرلیا‘ جبکہ ہمارے وزیر داخلہ ایسے ’’لوری پڈھاری‘‘ گروپ کا حصہ نظر آتے ہیں جنہیں بیان جاری کرتے ہوئے موقع کی نزاکت کا اندازہ ہی نہیں رہتا۔ ملک صاحب فرما رہے ہیں کہ کوئی باضابطہ گرفتاری نہیں ہوئی‘ امریکہ نے کچھ معلومات طلب کی تھیں‘ جو ہم فراہم کر رہے ہیں۔ جب امریکی انٹیلی جنس تحقیق کر چکی ہے کہ ٹائمز سکوائر میں پاکستانی طالبان ملوث نہیں تو باضباطہ اور ’’بے ضابطہ‘‘ گرفتاری کے حوالے سے ملک صاحب کے بیان کی کیا وقعت باقی رہ جاتی ہے؟ ایسا ہی ایک بیان وزیر خارجہ قریشی صاحب نے 5 مئی کو دیا کہ نیویارک بم کیس ڈرون حملوں کا ردعمل ہے‘ جو آبیل مجھے مار کے مترادف ہے۔ اگر حکومت کی جانب سے ایسے کمزور بیانات دیئے جائیں گے تو امریکہ کی جانب سے مزید اپریشن کے مطالبے ہی ہونگے۔
امریکہ کے شمالی وزیرستان پر اپریشن کے مطالبہ پر پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے کہا ہے کہ کسی ملک کے دبائو پر اپریشن نہیں کریںگے‘ ان کا یہ بیان روایتی یا خانہ پوری کے سوا کچھ نہیں ہے‘ جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ اپریشن بغیر دبائو اور اپنی مرضی سے کرینگے۔ سیاسی اور عسکری قیادت کو واضح سٹینڈ لیتے ہوئے امریکہ پر واضح کرنا چاہئے کہ نہ صرف وہ شمالی وزیرستان میں اپریشن نہیں کرینگے‘ بلکہ دہشت گردی کیخلاف اسکی جنگ میں مزید ساتھ بھی نہیں دے سکتے۔ اس لاحاصل جنگ میں پاک فوج کے اڑھائی ہزار فوجیوں سمیت اس تعداد سے کئی گنا زیادہ معصوم اور بے گناہ شہری مارے جا چکے ہیں۔ پاکستان کا چالیس ارب سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے‘ ملک بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں الگ آچکا ہے‘ ڈرون حملے میں جتنے افراد جاں بحق ہوتے ہیں‘ اتنے ہی اپنے پیاروں کا بدلہ لینے کیلئے خودکش بمبار بن جاتے ہیں۔ امریکہ سے ڈرتے رہیں گے تو تباہی و بربادی قوم کا مقدر بنی رہے گی‘ حکمران ایران کی طرح جرأت و ہمت کا مظاہرہ کریں‘ پاکستان کی فضائوں میں اڑنے والے ڈرون گرانے کا سلسلہ شروع کردیں‘ ایک دو ڈرون گریں گے تو امریکہ کی عقل ٹھکانے آجائیگی ‘ اسے بھاگتے بنے گی اور پاکستان کی ایک لاحاصل جنگ سے جان چھوٹ جائیگی۔ افغان غلام نے بھی دھمکی دی ہے کہ میرے ساتھ ٹھیک سلوک کرو ورنہ میں طالبان کے ساتھ مل جائونگا۔ خدا کرے افغانستان اور پاکستان کے حکمران ہوش میں آئیں اور انکل سام سے نجات حاصل کریں۔
ہمیش خان کے بعد دوسرے مفروروں کو بھی لایا جائے
اربوں روپے کے فراڈ کے الزام میں نیب کو مطلوب پنجاب بینک کے سابق سربراہ ہمیش خان جمعہ کی شام کو نیویارک سے آنیوالی پرواز سے لاہور پہنچ گئے اور تازہ ترین اطلاعات کیمطابق نیب کی عدالت سے ان کا چودہ روز کا ریمانڈ بھی مل گیا ہے۔
ہمیش خان چونکہ امریکی شہری ہیں اور امریکی حکومت نے انکی حوالگی کو مشروط کیا ہے کہ ان پر تشدد وغیرہ نہیں کیا جائیگا۔ سپریم کورٹ نے بھی ہدایت کی ہے کہ انکے ساتھ ناروا سلوک نہ کیا جائے۔ امریکہ سے ہمیش خان نے چند ہفتہ قبل جو بیانات دئیے تھے ان میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ حکومت پاکستان سے تعاون کرنے کیلئے تیار ہیں۔ ان پر تشدد نہ کیا جائے۔ پوری قوم اب اس بات کی منتظر ہے کہ ہمیش خان پنجاب بینک میں اربوں روپے کے ہونیوالے فراڈز کے بارے میں حقیقت بیانی سے کام لیں گے۔ ملک و قوم کے ڈوبے ہوئے سرمایہ کی بازیابی میں معاون ثابت ہونگے اور وطن عزیز سے محبت کی اچھی مثال پیش کرینگے۔ حکومت پاکستان نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر ہمیش خان کو امریکہ سے پاکستان لا کر بہت اچھا کام کیا ہے۔ اس سے بہت سے پردہ نشینوں کے نام بھی بے پردہ ہوں گے اور جو لوگ بھی ان فراڈز میں ملوث ہوں۔ انہیں خواہ وہ حکومت کے بااختیار حکام ہوں، ہر قیمت پر عدالت کے کٹہرہ میں لایا جائے۔ اسکے علاوہ بیرون ملک بہت سی شخصیات ہیں جو حکومت پاکستان کو بہت سے مقدمات میں مطلوب ہیں۔ ان سب کو پاکسان لایا جائے۔ جن میں سر فہرست سابق آمر جنرل (ر) پرویز مشرف اور انکے ساتھی بھی شامل ہیں۔ حکومت پاکستان ان کو بھی پاکستان واپس لائے اور عدالت میں پیش کرے تاکہ یہ لوگ اپنے کئے کی سزا پا سکیں۔ ریاستی اداروں کو یہ بھی کوشش کرنی چاہئے کہ جن لوگوں کے بیرون ممالک ناجائز اثاثہ جات موجود ہیں‘ وہ بھی پاکستان لائے جائیں۔
نقاب ’’فرانس کی آئینی عدالت کا فیصلہ‘‘
فرانس کی آئینی عدالت نے حکم دیا ہے کہ فرانس میں خواتین کے نقاب پہننے پر پابندی عائد نہیں کی جا سکتی۔ یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ واضح رہے کہ فرانس کی پارلیمنٹ نے خواتین کو نقاب پر پابندی کی قرارداد منظور کی تھی۔
فرانس کی آئینی عدالت نے پارلیمنٹ کی طرف سے نقاب پہننے پر پابندی عائد کرنے کے حکم کو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیکر ایک طرف اپنے آئین کی بنیادی حدود اور اسکے قانونی ڈھانچہ کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیا ہے دوسری طرف اپنے ملک کے معاشرے میں مذہبی تنگ نظری اور تعصب پر مبنی قوانین کو فروغ دینے کے رجحانات کو مسترد کر د یا ہے۔ فرانس کی آئینی عدالت کا تفصیلی فیصلہ تو ہمارے سامنے نہیں ہے مگر نقاب اوڑھنے پر پابندی کو ختم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ فاضل عدالت نے سکارف پر پابندی کو ہی مسترد کر دیا ہو گا کیونکہ نقاب سے چہرہ ڈھانپا جاتا ہے جبکہ سکارف سے چہرہ کھلا رہتا ہے۔ فرانس کی عدالت کے فیصلہ کے بعد امید ہے کہ یورپ کے کئی ممالک میں سکارف اور نقاب پر پابندی اب ختم ہو جائیگی۔ مذہبی تعصب اور تنگ نظری کی بنیاد پر یورپی ممالک میں بنیادی انسانی حقوق کو محدود کرنے کی جو جذباتی مہم شروع کی گئی تھی یقیناً یہ اب دم توڑ جائیگی اگرچہ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ان غیر مسلم ممالک کا مذہبی تعصب تو ختم نہیں ہو سکتا البتہ بنیادی انسانی حقوق کو مذہبی تعصبات کیو جہ سے ٹھیس نہیں پہنچے گی۔
گندم خریداری‘ کاشتکاروں کیلئے آسانی پیدا کی جائے
وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گندم کی خریداری میں کسی بھی بدعنوانی کو برداشت نہیں کیا جائیگا‘ چھوٹے کاشتکاروں کا مفاد عزیز ہے‘ کسی کو استحصال کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب خادم پنجاب کا کردار ادا کرتے نظر آرہے ہیں لیکن باردانہ کی تلاش میں پریشان حال کسانوں کے مسائل کا مداوا باقی ہے۔ آج غریب کسان اپنے باردانہ میں گندم لا کر دو تین دن گندم خریداری‘ سنٹروں کے باہر لمبی قطاروں میں گزارنے کے بعد اس کو سستے داموں فروخت کرکے گھروں کو جا رہا ہے کیونکہ گاڑیوں کے کرائے اور وقت کا ضیاع غریب کسان برداشت کرنے سے قاصر ہیں۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ موجودہ سسٹم کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت ٹیموں کو ہر کسان کے کھیتوں سے گندم اٹھانے کا اہتمام بھی کرے اور موقع پر اسکی رقم ادا کرنے کے منصوبے ترتیب دے کیونکہ پہلے منصوبوں میں من پسند اور اثر و رسوخ والے زمیندار نوازے جا رہے ہیں اور کمشن مافیا بھی کسی حد تک متحرک نظر آتا ہے۔ چھوٹا کسان طبقہ زبوں حالی کا شکار ہے‘ وہ اونے پونے داموں گندم فروخت کر رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ باردانہ فراہمی منصوبے میں سستی کرنے اور من پسند افراد کو نوازنے والوں کا احتساب کریں اور اس سسٹم میں موجود پیچیدگیوں کو دور کرکے اسکو عوام کیلئے سہل بنائیں۔