گزشتہ دو دہائیوں میں دنیا نے مصنوعی ذہانت (AI) ٹیکنالوجیز میں حیرت انگیز ترقی دیکھی ہے کیونکہ یہ شعبہ بہت سی تکنیکی اختراعات کا سنگ بنیاد بن گیا ہے جو ہماری زندگی کے متعدد پہلوؤں کو براہ راست متاثر کر رہا ہے۔۔ اس تکنیکی انقلاب کے ساتھ خاص طور پر دہشت گرد گروپوں کی طرف سے ان ٹیکنالوجیز کے بدنیتی پر مبنی استعمال سے متعلق نئے چیلنجز سامنے آئے ہیں۔ اگرچہ مصنوعی ذہانت انسانی سلامتی اور فلاح و بہبود کو بہتر بنانے کی بے پناہ صلاحیت رکھتی ہے لیکن بدنیتی پر مبنی افراد یا اداروں کے ہاتھ میں یہ ایک خطرناک آلے میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے جس سے قومی اور بین الاقوامی سلامتی دونوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ایک حالیہ رپورٹ میں ایک مصری ماہر نے دہشت گرد گروپوں کی طرف سے مصنوعی ذہانت کے استعمال سے منسلک خطرات کو ظاہر کیا ہے۔ ماہر نے ان آلات اور تکنیکوں کا جائزہ لیا ہے جن کا یہ گروپ دہشت گردی کے خطرے کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ماہر نے متنبہ کیا کہ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے حفاظتی حکمت عملیوں پر عمل کرنا ضروری ہے۔سائبر سیکیورٹی اور سائبر کرائم ایڈوائزر ڈاکٹر محمد محسن رمضان نے کہا ہے کہ سب سے نمایاں خطرات میں پروپیگنڈا اور بھرتی کرنا بھی شامل ہے۔ اس میں دہشتگرد مصنوعی ذہانت کا استعمال کرکے خودکار طریقے سے ویڈیو بنانے کی مشین کے ذریعے مواد تیار کر سکتے اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور بھرتی کرنے کے لیے مخصوص پروپیگنڈہ مواد تخلیق کرسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ سائبر اٹیکس کے لیے اے آئی مالویئر تیار کرنے کے قابل بنا دیتی ہے۔ اسی طرح اس سے سروس سے انکار (DDoS) کے حملے کو بہتر بنایا جا سکتا ہے جو ٹارگٹ سسٹم کو زیادہ مؤثر طریقے سے متاثرکرتا ہے۔ اے آئی روبوٹ اور ڈرون کا استعمال بھی بہتر بناتی ہے جہاں مصنوعی ذہانت سے لیس ڈرون حملے درست کارروائیاں انجام دینے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ اے آئی دہشت گردی کے مشن کو براہ راست انسانی مداخلت کے بغیر انجام دینے کے لیے خود مختار نظام تیار کرنے ، ڈیٹا اکٹھا کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے کے قابل بنا سکتی ہے۔ دہشت گرد گروپوں کو کھلے عام اے آئی استعمال کرکے ٹارگٹ افراد کو ٹریک کرتے ہیں اور ان کی نقل و حرکت کی درست نگرانی کر سکتے ہیں۔انسداد دہشتگردی کی حکمت عملیوں کے حوالے سے ڈاکٹر محسن رمضان نے بتایا کہ ان حکمت عملیوں میں مصنوعی ذہانت سے تعاون یافتہ حملوں کا پتہ لگانے کے نظام کو تیار کرنا شامل ہے تاکہ مشکوک سرگرمیوں کا پتہ لگایا جا سکے اور حملوں کا ان کے ہونے سے پہلے ہی سامنا کیا جا سکے۔ اسی رطح ڈیجیٹل دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے حکومتوں اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کے درمیان بین الاقوامی تعاون کو مضبوط کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح دہشت گردی کو روکنے کے لیے سخت قانون سازی کا نفاذ بھی بہتر حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔ڈاکٹر محسن نے اپنے بیانات کا اختتام یہ کہتے ہوئے کیا کہ مصنوعی ذہانت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک نئے چیلنج کی نمائندگی کر رہی ہے کیونکہ یہ دہشت گرد گروہوں کے حملوں کی تاثیر کو بڑھانے کا ایک ذریعہ بن سکتی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم سائبر سکیورٹی کے نظام کو مضبوط بنا کر اور اس شعبے میں تعاون کے لیے موثر بین الاقوامی حکمت عملی تیار کر کے اس چیلنج کا مقابلہ کریں۔اگرچہ مصنوعی ذہانت جیسی یہ ٹیکنالوجیز انسانی ارتقاء کے لیے حیرت انگیز امکانات پیش کرتی ہیں تاہم دہشت گرد گروپوں کی جانب سے اے آئی کے استعمال کے خدشے کے تناظر میں بین الاقوامی سلامتی کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے مضبوط اور زیادہ جدید ترین حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے۔
دہشت گردوں کی جانب سے اے آئی کے ذریعے پروپیگنڈا اور بھرتیاں، نئے خطرات کا انتباہ
Mar 16, 2025 | 16:19