آ گ کون بجھائے گا ؟

Mar 16, 2025

ناصر نقوی۔۔۔ جمع تفریق

 دنیا کا اصول ہے کہ جب اور جہاں آ گ لگے اسے بجھانے والے سب سے پہلے مالکان ہوتے ہیں، یہ آ گ لگائی جائے یا کسی غلطی سے لگے، کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ کیسے لگی؟ پہلے اسے بجھانے کی فکر اس لیے لاحق ہوتی ہے کہ کہیں مال کے ساتھ کوئی قیمتی جان ضائع نہ ہو جائے، دنیا کے مختلف واقعات کا اگر جائزہ لیا جائے تو ایک سے زیادہ جگہ ایسی کہانی ملے گی کہ اس میں کوئی عام آدمی یا فائر فائٹر جل کر راکھ ہو گیا۔ لیکن ایسی بھی داستانیں ملیں گی کہ لوگ صرف انسانیت کے نام پر خود جھلس گئے اور بے رحم آ گ کا شکار لوگوں کو بچا لیا، ان دونوں صورتوں میں آ پ سر توڑ کوشش کر کے یہ بھی نہیں جان سکیں گے کہ دوسروں کی آ گ میں راکھ بن جانے اور اپنا ہاتھ پاؤں، چہرہ جھلسانے والوں میں سے کسی نے بھی خود کو مشکل میں ڈالنے سے پہلے یہ پوچھا ہو کہ آگ کیسے لگی؟ غلطی سے لگی یا یہ حادثہ ہے ؟کلمہ گو تو یہ جانتا ہے کہ کسی ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے برابر ہے لیکن دنیا بھر کے واقعات دیکھیں تو ایک سے زیادہ ایسے آ دم زادے ملیں گے جو کلمہ گو نہ ہوتے ہوئے بھی یہ جانتے تھے کہ احترام آ دمیت کے تقاضے کے تحت مشکل میں پھنسی زندگی کی مدد کی جائے، آ گ گھر، دکان، گلی محلے اور شہر میں لگے تو پریشانی مختلف ہے لیکن اگر آگ ،،ریاست،، میں لگ جائے یا لگانے کی کوشش کی جائے تو پھر ہم آ پ ہی نہیں، سب کے سب کے لیے خطرے کی گھنٹی بج جاتی ہے۔ کیونکہ ریاست نہ بچی تو بھلا سیاست کیسے بچے گی؟ سیاست بھسم ہو گئی تو پھر ،،مسند اقتدار،، کا راستہ ایسی بھول بھلیوں میں گم ہو جائے گا کہ اس کے خواب بھی دکھائی نہیں دیں گے، اداروں کی تباہی ہوئی تو کون جانے کس کا مستقبل روشن اور کتنوں کا اندھیروں میں ڈوب جائے گا؟ ایسے حالات قوموں کے لیے مشکل ترین ہوا کرتے ہیں لیکن اگر قوم تمام تر مصلحتوں اور مفادات سے بالاتر ہو کر متحد ہو جائے تو پھر وہ سب کے چھکے چھڑا دیتی ہے، الحمدللہ۔۔ پاکستانی قوم کا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ آ فت آ سمانی ہو یا زمینی، دشمن اپنی صفوں کی کالی بھیڑیں ہوں یا مکار اور دھوکے باز ہمسائے، اس نے ہر مشکل گھڑی کو قومی یکجہتی سے فتح یابی میں تبدیل کر دیا ہے،، لمحہ موجود،، میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ایسے ہی نامساعد حالات کا سامنا ہے،، چھپا دشمن،، ملکی اور غیر ملکی سہولت کاروں کی مدد سے اسلامی دنیا کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کو غیر مستحکم کرنے کی سازش میں سرگرم ہے، اسے اندازہ نہیں کہ مشکل لمحات میں پاکستانیوں کا جذبہ حریت اور زیادہ مضبوط ہو کر دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اس دھرتی ماں کی بنیادوں کو ہمارے بزرگوں نے اپنے خون سے سینچا ہے اور آ ج بھی قوم کا بچہ ،بڑا ،بوڑھا اس پر نثار ہونے کو تیار ہے۔
 پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت نے ہمیشہ ملکی استحکام، ترقی اور خوشحالی کے لیے قومی ترجیحات کو مقدم رکھا، ہمیں 80ء کی دہائی سے اس ،،چھپے دشمن،، نے سکون سے بیٹھنے نہیں دیا ہے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ ہم نے بھی 80۔ہزار قیمتی جانوں کا نذرانہ دینا تو قبول کر لیا مگر دہشت گردوں کو اپنی سرزمین پر پلنے اور پروان چڑھنے نہیں دیا۔ پاکستان اپنے آ ئین اور اپنے اصولی موقف پر ڈٹ کر کھڑا ہے اور دنیا بھر میں امن کا خواہاں ہے۔ ایٹمی طاقت اور میزائل ٹیکنالوجی میں منفرد مقام رکھنے کے باوجود اس کی سرگرمیاں کسی بھی سطح پر جارحانہ نہیں، پھر بھی دشمن کی نظر بد کی پہچان رکھتا ہے۔ جعفر ایکسپریس کو درہ بولان میں،، ہائی جیک،، کر کے معصوم عورتوں ،بچوں اور بزرگوں کو یر غمال بنایا گیا۔ پوری دنیا نے اس کی مذمت کی ، پاک فورسز نے جس حکمت عملی کا مظاہرہ کر کے یر غمالیوں کو بحفاظت بازیاب کراتے ہوئے تمام،، ہائی جیکرز ،،کو جہنم واصل کیا وہ اپنی مثال آ پ ہے، دہشت گردی کی یہ نئی آ گ کس نے لگائی؟ اس کا مقصد کیا ہے اور اسے کون بجھائے گا؟ یکے بعد دیگرے دہشت گردی کا واقعات کے بعد پاکستانیوں کی زبان پر یہی سوال ہے، دفتر خارجہ نے لگی لپٹی رکھے بغیر دنیا کو بتا دیا کہ ان تمام واقعات میں ازلی دشمن بھارت کی آشیر باد ہی نہیں، خطیر مالی معاونت بھی شامل ہے۔ موجودہ دورِ حکومت میں پاکستان ایک مرتبہ پھر ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کر کے اتحادی مشاورت سے ترقی اور خوشحالی کے لیے،، ٹیک آ ف،، کی پوزیشن میں آ چکا ہے، عسکری اور سیاسی قیادت میں بھی قومی مفاد میں بھرپور اتفاق پایا جاتا ہے۔ ملک کے خارجہ محاذ اور سفارتی میدان میں بھی ایسی کامیابیاں دکھائی دے رہی ہیں کہ اب ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچنے والا پاکستان ہر قسم کے گرداب سے نکل کر حقیقی سمت پر آچکا ہے اس لیے ،،چھپے دشمن،، نے گھبرا کر اندرون خانہ دہشت گردی کی آ گ بھڑکا کر ،،سیکنی،، شروع کر دی ، اسے احساس ہی نہیں کہ موسم تبدیل ہو چکا ہے۔ یہ آگ صرف چند دن بھلی لگے گی پھر منہ کو ایسی آ ئے گی کہ،، ڈیلے ،،باہر آ جائیں گے، اگر موسم نہ بھی بدلا تو پھر افواج پاکستان دشمن کی آنکھیں نکالنے اور زبان کھینچنے کی بڑی ماہر ہیں۔ ان دہشت گردی کے واقعات کا جائزہ لیں تو یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ منصوبہ بندی کی تحت خیبر پختونخوا، بلوچستان میں ان وارداتوں سے دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان میں امن نہیں لہذا غیر ممالک سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیں لیکن ایسا نہیں ہو سکے گا کیونکہ ایس۔ آ ئی۔ایف۔سی کی تشکیل اسی ضمانت کے لیے کی گئی ہے، جہاں عسکری اور سیاسی قیادت ہی نہیں چاروں صوبائی وزرائے اعلی اور اہم شخصیات باہمی مشاورت سے قومی مفادات کے اجتماعی فیصلے کرتی ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف،، جعفر ایکسپریس،، سانحیکے بعد تمام اعلی افسروں کے ساتھ کوئٹہ گئے، اس اعلی سطح کے اجلاس میں سپہ سالار جنرل عاصم منیر بھی موجود تھے۔ اہم فیصلہ کر لیا گیا کہ دہشت گرد اور ان کے سہولت کار کسی قسم کی نرمی کے مستحق نہیں لہذا افواج پاکستان کو،، نیشنل ایکشن پلان۔۔ ٹو ،،کی اجازت دیتے ہوئے،، فری ہینڈ،، دے دیا گیا۔ اس سے پہلے بھی قومی اسمبلی میں متفقہ قرارداد مذمت پاس ہو چکی تھی تاہم وہاں سیاسی تقاریر میں حکومت اور اپوزیشن پر تنقید بھی دیکھنے کو ملی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے نشاندہی کر دی کہ دہشت گردی سے پاکستان کو خطرہ ہے، چھپے دشمن کے مقابلے کے لیے سب متحد ہو جائیں بلکہ انہوں نے اے۔پی۔ سی بلانے کا اعلان بھی کر دیا، بلاول بھٹو نے بھی یاد دہانی کرائی کہ ہماری نااتفاقی سے پاکستان دشمن فائدہ اٹھا رہے ہیں لہذا وقت کا تقاضہ ہے کہ،، نیشنل ایکشن پلان ٹو،، بنایا جائے۔ لیکن جونہی اے۔ پی۔ سی کا اعلان ہوا، پی۔ ٹی۔ آ ئی نے مطالبہ کر دیا کہ بڑی اور مقبول پارٹی کے چیئرمین کو جیل سے پیرول پر رہا کرا کیاس کانفرنس میں شریک کیا جائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو اے۔پی۔ سی متنازعہ ہو جائے گی جبکہ حالات بالکل ایسے نہیں کہ اس مطالبے پر عمل در آ مد ہو سکے کیونکہ بانی چیئرمین کے ملکی اور غیر ملکی ممالک میں چاہنے والوں نے،، جعفر ایکسپریس،، کے سانحے پر جو راگ ا لاپے وہ پاکستانی نہیں، بھارتی محسوس ہو رہے تھے۔ 
 ہر ذی شعور یہ جانتا ہے کہ مملکت خداداد پاکستان کو،، ڈی ریل،، کرنے کی خواہش میں دشمن نے محاذ کھولا ہے اور ملک میں آ گ لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا، دہشت گردی کی آ گ کو، بھانبڑ بننے سے پہلے ہم نے خود بجھانا ہے ورنہ یہ آ گ سب کچھ جلا کر راکھ کر دے گی، وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بجائے متحد ہو کر،، چھپے دشمن،، کو ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر شکست دے کر یہ ثابت کریں کہ دشمن کوئی بھی چال چلے، ہم اس کا مقابلہ پوری طاقت اور قومی ذمہ داری سے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہماری دھرتی ماں ہماری پہچان اور شناخت ہے اور ہم میلی آنکھ سے اس کی طرف دیکھنے والوں کی آ نکھیں نکالنے کی بفضل خدا طاقت رکھتے ہیں لہذا دشمن کی سازش ناکام بناتے ہوئیآگ ہم خود بجھائیں گے۔

مزیدخبریں