پیر ‘ 20 ؍ رجب المرجب ‘ 1441ھ ‘ 16 ؍ مارچ 2020 ء
کرونا وائرس کا کمال ۔ مولانا فضل الرحمن نے طے شدہ سیاسی جلسے منسوخ کر دئیے
کرونا تو حکومت کے حق میں غیبی امداد ثابت ہونے لگا ہے۔ مارچ میں بہت سی سیاسی جماعتوں نے حکومت کے خلاف کو ئیک مارچ کا شیڈول بنایا ہوا تھا۔ وہ سب کرونا کی وجہ سے بیک مارچ ہو رہا ہے۔ جے یو آئی کی طرف سے ان کے شعلہ بجاں قائد مولانا فضل الرحمن کی طرف سے احتجاجی مارچ سے حکومت بھی بظاہر نہ سہی اندرون خانہ ضرور پریشان تھی۔ مگر اب پی ٹی آئی والوں کی جان میں جان آئی ہو گی کہ کرونا کی وجہ سے مولانا نے اپنے طے شدہ تمام سیاسی جلسے منسوخ کر دئیے ہیں۔ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے کیونکہ کوئی بھی ہوش مند رہنما اپنے مخلص کارکنوں کو یوں موت کے منہ میں جانے نہیں دیتا۔ اب ذرا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو بھی ہوش کے ناخن لینے ہوں گے۔ یہ دونوں بھی آج کل ہتھیلی پہ سرسوں جمانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ بلاول اور مریم نواز کا بیانیہ عوام کو اکسانے کی بھرپور کوشش ہے۔ مگر انہیں یاد رکھنا ہو گا کہ یہ وقت ایسے کام کے لیے مناسب نہیں کارکن خود بھی کرونا کے ہوتے ہوئے کسی اجتماع میں جانے سے گریزاں ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ اس موقع پر قوم کو کرونا سے بچانا ضروری ہے ناکہ سیاسی مقاصد کے لیے انہیں کرونا کے ہاتھوں مروانا، ورنہ کہیں بقول شاعر انہیں بھی …
افواہ تھی کہ میری طبعیت خراب ہے
لوگوں نے پوچھ پوچھ کے بیمار کر دیا
والی حالت بھی پیش آ سکتی ہے۔
٭٭٭٭٭
سجل علی اور احمد رضا میر کا دبئی میں ’’سادگی‘‘ سے نکاح
ویڈیو پر اس سادہ نکاح کی تقریب دیکھتے ہی دل خودبخود سادگی کی طرف مائل ہونے لگتا ہے، یہ صرف نکاح کی تقریب تھی اور وہ بھی دبئی میں۔ خدا ہر پاکستانی کو اتنی توفیق دے کہ وہ دبئی جا کر نکاح مسنونہ کی تقریب سعید انجام دے۔ وہ بھی اتنی سادگی کے ساتھ، زرق برق لباس پہنے دولہا دلہن اور مہمان کو دیکھ کر تو یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی فلمی سین ہو۔ خداجانے اس نام و نمود کی نمائش کو ہمارے ہاں سادگی کا نام کس نے دے دیا ہے ورنہ شاعر تو بہت پہلے
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
والی بات کہہ چکے ہیں۔ یہ بڑا عجیب دور ہے۔ حکم تھا مساجد میں سادگی سے نکاح پڑھا جائے، یہاں تاریخی اور خوبصورت مساجد میںلاکھوں روپے کے فوٹو شوٹ کے ساتھ نہایت قیمتی لباس میں مہنگا ترین نکاح مساجد میں ہونے لگا ہے جو اب مزید ترقی کرگیا ہے۔ اب لوگ دبئی، شارجہ، منامہ، مالدیپ کے حسین مناظر والے ساحلوں پر جا کر سادگی سے نکاح کا ڈرامہ رچانے لگے۔ میڈیا بھی ایسے اسراف والے کاموں کو بھرپور کوریج دیتا ہے جو 90فیصد پاکستانیوں کی دل آزاری کا سبب بنتا ہے جو اس قسم کی سادگی افورڈ نہیں کرسکتے اور اپنے گلی محلوں، گھروں یا شادی ہالز میں نکاح پڑھواتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
13 سیاسی جماعتوں کے ساتھ ملکر اتحاد کا اعلان 22 مارچ کو کریں گے۔ صدر مسلم لیگ (ج)
اول تو یہ خبر پڑھ کر پہلے حافظے پر زور دینا پڑا کہ یہ مسلم لیگ (ج) سے کیا مراد ہے۔ کافی سوچ بچار کے بعد یاد آیا کہ اس سے مراد مسلم لیگ (جونیجو) ہے جو اب بھولی بسری داستان بن کر ماضی میں دفن ہو چکی ہے۔ اب اقبال ڈار کی طرف سے اس چونچکا دینے والے بیان سے معلوم ہوا کہ یہ جماعت ابھی زندہ ہے۔ دیگر مسلم لیگی جماعتوں یا دھڑوں کی طرح اسے بھی چاہے یک رکنی جماعت کہہ لیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بہرحال اب چہ پدی چہ پدی شوربہ دیکھنا ہے یہ گنجی کیا نہائے گی اور کیا نچوڑے گی۔( ج) والی اس لیگ نے جن 13 سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر اتحاد بنانے کا اعلان کیا ہے۔ وہ بھی ایک لطیفے سے کم نہیں۔ خود اس جماعت کی طرح یہ باقی تیرہ جماعتیں بھی کون سی ہیں کہاں پائی جاتی ہیں ان کے حدود اربعہ اور تاریخ و جغرافیہ کا شاید کسی جینئس کو علم ہو عام طالب علم اور پڑھے لکھے حضرات بھی ان سے ناواقف ہی ہیں۔ ہاں البتہ پنجاب میں سکھ جب تنہا بھی کہیں جا رہا ہو تو دوسرا مخاطب سکھ اسے دیکھ کر کہتا ہے ’’فوجاں کتھے چڑھیاں نے‘‘ یعنی لشکر کہاں جا رہا ہے۔ سو اب یہ 13 رکنی جماعتیں اگر مل کر لشکر بن سکتی ہیں ’’جی آیاں نوں‘‘ اس طرح کم از کم 13 افراد کہیں کسی پریس کانفرنس میں ہی سہی یکجا تو ہوں گے۔
٭٭٭٭٭
حکومت کاغذ کی کشتی میں بیٹھ کر سمندر میں سفر کر رہی ہے۔ سراج الحق
تو اس میں قباحت ہی کیا ہے۔ کیا سراج الحق صاحب خود بھی ہوا کے دوش پر سوار نہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ طوفان میں مضبوط جہاز بھی سمندر میں ڈوب جاتے ہیں اور موسم ساز گار ہو تو کاغذ کی نائو دور تک سمندر کے سینے پر بہتی چلی جاتی ہے۔ اس وقت ہوا بھی مناسب ہے۔ حالات بھی مواقف ہیں تو ڈوبنے کا خوف کیسا۔ جنہیں طوفانوں کا سمندر کا ڈر ہوتا ہے وہ تو مضبوط سفینے بھی سمندر میں نہیں اتارتے۔ آپ خود بھی تو اس سیاسی سمندر کے شناور ہیں۔ اس کی ہر ادا سے واقف ہیں۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ اس کے فراغ سینے پر وہی کشتی چل سکتی ہے جسے مہرباں موسم اور موافق ہوا میسر ہو۔ سو اس وقت حکومت کو بھی یہی سب کچھ میسر ہے۔ باقی سب ہوا کے دوش پر سوکھے ہوئے پتوں کی مانند
میری بساط ہی کیا میں ہوں برگ آوارہ
اڑا کے لے چلے مجھ کو جدھر ہوا چاہے
اڑتے پھر رہے ہیں تو کیا بہتر نہیں ہو گا کہ اب برگ آوارہ کی طرح یہاں وہاں اڑنے کی بجائے سب جماعتیں اس کاغذ کی کشتی کو سمندر میں سفر کرتا دیکھیں 3 سال میں یا تو یہ کنارے لگے گی یا راستے میں ہی سمندر برد ہو گی یہ اس حکومتی کشتی کی کارکردگی اور مواقف موسم پر منحصر ہے…
٭٭٭٭٭