نیب تفشفش سے تنگ سابق سی ڈی اے ممبر سٹیٹ بریگیڈئر (ر) اسد منیر کی مبینہ خودکشی
اسلام آباد (آئی این پی+ صباح نیوز) اسلام آباد میں سابق ممبر سٹیٹ سی ڈی اے بریگیڈئیر ریٹائرڈ اسد منیر نے مبینہ طور پر خودکشی کر لی۔ پولیس ذرائع کے مطابق بریگیڈئر (ر) اسد منیر کی نعش ڈپلومیٹک انکلیو میں ان کے فلیٹ پر پنکھے سے لٹکی ہوئی ملی ہے، گزشتہ روز نیب کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں اسد منیر کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دی گئی تھی، ان پر نیب نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ایف 11میں پلاٹ بحال کرنے کا الزام لگایا تھا۔ خاندانی ذرائع کے مطابق اسد منیر نیب کے اپنے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی میڈیا رپورٹ پر کافی پریشان تھے، گزشتہ روز انہوں نے اپنی اہلیہ سے کہا تھا کہ یہ نیب میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑتا؟ جس کے بعد وہ سونے چلے گئے تھے اور صبح ان کی نعش پنکھے سے لٹکی ہوئی ملی، بریگیڈئیر (ر) اسد منیر عسکری انٹیلی جنس ایجنسی پشاور کے ڈائریکٹر بھی رہے ہیں۔ اسد منیر نے نیب کی تفتیش سے مبینہ طور پر تنگ آ کر تذلیل سے بچنے کے لئے خودکشی کی جس سے قبل انہوں نے چیف جسٹس کو خط بھی لکھا۔ بریگیڈئیر (ر) اسد منیر کی خودکشی کے بعد سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ان کی مبینہ الوداعی نوٹ میں انہوں نے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ سے نوٹس لینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس امید پر جان دے رہا ہوں کہ اس نظام میں مثبت تبدیلیاں لائی جائیں گی، انہوں نے خودکشی سے قبل لکھے گئے خط میں یہ بھی کہا ہے نااہل لوگ احتساب کے نام پر لوگوں کی زندگیوں اور عزتوں سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی، جمعہ کو نماز جنازہ مقامی قبرستان ایچ ایٹ فور میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ میں وزیر دفاع پرویز خٹک، بیرسٹر جاوید عباسی ، قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز اور فرحت اللہ سمیت بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ بریگیڈیر ریٹائرڈ اسد منیر نے جمعہ کو گلے میں پھندہ ڈال کر زندگی کا خاتمہ کیا۔ بریگیڈیر ریٹائرڈ کے خلاف نیب کی جانب سے بدعنوانی کا ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔نیب ریفرنس کی منظوری کے بعد اسد منیر شدید زہنی دباو کا شکار تھے۔اہلخانہ کی جانب سے اسد منیر کا پوسٹ مارٹم نہ کرانے کی درخواست کی تھی۔ معلوم ہوا ہے کہ چیف جسٹس ہائیکورٹ کے نام جو خط لکھا گیا ہے اس کی حیثیت بھی مشکوک تصور کی جا رہی ہے کیونکہ یہ خط مرنے سے چند لمحے قبل باقاعدہ کمپیوٹر پر ٹائپ کیا گیا ہے۔ اور اس پر بریگیڈائر اسد کے دستخط بھی موجود نہیں