بامقصد تعلیم کی ضرورت
سپریم کورٹ نے نجی جامعات کی بھرمار اور ڈگریوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل اور ایچ ای سی سے 15 روز میں جواب طلب کر لیا۔ سماعت کے دوران جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ حکومت ان معاملات کو کیوں نہیں دیکھتی، تعلیمی سیکٹر تباہ ہو رہا ہے۔
تعلیم کا معاشرے میں شعور بیدار کرنے اور ترقی و خوشحالی کے لئے بنیادی کردارہے۔ تعلیم محض کلاسیں پاس کرنے سندوں اور ڈگریوں کے حصول کا نام نہیں۔ پاکستان میں دو ہی گریجوایٹ اسمبلیاں ہو گزری ہیں۔ جس سے تعلیم یافتہ لوگوں کے قانون سازی میں حصہ لینے کی امید پیدا ہوئی تھی مگر اس دوران زیادہ چہرے تونہ بدلے مگر جعلی ڈگریوں کی بھرمار ضرور ہو گئی اور عموماً یہ ڈگریاں بھی فرضی جامعات کی جاری کردہ تھیں۔ سپریم کوٹ نے درست کہا کہ جامعات کی مشروم گروتھ ہو رہی ہے۔ ڈگریاں بیچی جا رہی ہیں، نسلیں تباہ ہو رہی ہیں۔ ایک نسل تباہ ہوچکی ہے، دوسری لائن میں لگی ہوئی ہے۔ عدالتوں میں لانے سے مسئلہ نہیں ہوگا۔ حکومت سمیت ہر ادارے اور فرد کو بامقصد تعلیم کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ پبلک سیکٹر میں بڑی بڑی فیسوں والے ادارے کھلے ہیں جبکہ سرکاری اداروں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے دوطبقاتی نظام تعلیم کے خاتمے کے دعوے کئے تھے مگر ابھی تک ان پر عمل نہیں ہوا۔ نجی شعبہ اپنا تعلیمی نظام بے شک جاری رکھے۔ حکومت اس کے ساتھ سرکاری سطح پر توجہ دے کر اسے نجی شعبہ سے برتر نہیں تو برابر ضرور لایا جائے۔