سکھ میرج بل کی منظوری کارنامہ یا زبانی جمع خرچ؟
پنجاب اسمبلی سے گزشتہ روز متفقہ طور پر پنجاب آنند کراج بل 2017 کے نام سے سکھ میرج بل کی منظوری کے بعد باور کرایا گیا ہے کہ پنجاب حکومت کے پانچ پارلیمانی سالوں میں منظور ہونے والا یہ پہلا پرائیویٹ ممبر بل ہے اور اس بل کی منظوری سے پاکستان کو دنیا میں سکھوں کی شادیاں رجسٹر کرنے والے پہلے ملک کا اعزاز مل گیا ہے۔ اس بل کی منظوری کے بعد اب 18 سال سے کم عمر کے سکھ لڑکے یا لڑکی کی شادی رجسٹر نہیں ہو گی اور چار پھیروں کے بعد انہیں شادی کی رجسٹریشن کا سرٹیفکیٹ جاری ہو گا۔ اعزاز کی بات اپنی جگہ اور حکومتی اور اپوزیشن اراکین کی جانب سے اسکی تعریف و تحسین بجا لیکن پاکستان میں فی الوقت اس قانون کی ضرورت تھی تو یہ پہلے کیوں نہ پوری کرلی گئی۔ بھارت میں سکھوں کیلئے علیحدہ سے کوئی میرج ایکٹ نہیں‘ وہاں انکی شادیاں ہندو میرج ایکٹ کے تحت رجسٹر کی جاتی ہیں۔ ہر مذہب کے لوگ اپنے مذہب اور رسم و رواج کے مطابق اپنے تمام امور انجام دینے میں آزاد ہیں۔ ایسے میں اس میرج بل کی منظوری حسین حقانی کو وطن واپس لانے کی کوششوں اور پندرہ دنوں میں بیرون ملک چھپائی پاکستانیوں کی دولت کو واپس لانے کے عدالتی احکامات اور حکومتی کوششوں کی طرح ایک سعی لاحاصل سے زیادہ کچھ نہیں۔ میمو گیٹ کے مرکزی کردار سابق سفیر حسین حقانی کو وطن واپس لانے کیلئے ایف آئی اے نے وزارت خارجہ کو خط لکھا ہے کہ امریکی وزارت خارجہ کو معاملے کی حساسیت سے آگاہ کر کے انکی واپسی کا مطالبہ کیا جائے جبکہ پانامہ لیکس میں شامل پاکستانیوں کا تاحال کچھ اتہ پتہ نہیں لگایا جا سکا اور سپریم کورٹ نے برہمی کے انداز میں پندرہ دنوں میں بیرون ملک چھپائی پاکستانیوں کی دولت واپس لانے کا حکم دیا ہے۔ میمو گیٹ اور پانامہ لیکس کے معاملات ایک طویل عرصہ سے عدالتوں میں زیرسماعت چلے آ رہے ہیں‘ تاحال ان کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آ رہا جبکہ سابق وزیراعظم محمد نواز شریف اور انکے خاندان کیخلاف ریفرنسز کا سلسلہ ایک تواتر کے ساتھ جاری ہے۔ زمینی حقائق کے موجودہ تناظر میں ان احکامات پر عمل درآمد اور کامیابی کی کیا ضمانت ہے۔ یہ سب کچھ محض زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں۔ عملی نتائج حاصل کرنے کیلئے قوانین میں موجود آئینی سقم دور کرنا ضروری ہے۔