کے پی ٹی‘ 45 ارب سے زائد کی غیر قانونی سرمایہ کاری کا انکشاف
اسلام آباد ( وقائع نگار خصوصی پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں کراچی پورٹ ٹرسٹ کی جانب سے45 ارب 39کروڑ روپے کی غیر قانونی غیر قاونی سرمایہ کاری ہوئی ہے آڈٹ حکام نے خصوصی آڈٹ کرانے کا حکم دے دیا اجازت نہ ہونے کے باوجو کے پی ٹی نے سیونگز ڈیفنس سرٹیفیکٹس اور بنکوں میں رقوم رکھوائیں قانون کے مطابق صرف بنکوں میں کے پی ٹی سرمایہ کاری کر سکتے ہیںکمیٹی نے کراچی پورٹ ٹرسٹ کا گزشتہ پچاس سالوں کی سرمایہ کاری کا مکمل آڈٹ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ سرمایہ کاری پر منافع کی تفصیلات بھی 15 دن میں پیش کی جائیںمحمود خان اچکزئی نے سرمایہ کاری کمیٹی کے ارکان کے ناموں کے بارے میں استفسار کیا توچیئرمین کے پی ٹی کی طرف سے نام نہ بتانے پر سید نوید قمر شدید ناراضی کیا اور کہا کہ جواب گول مول نہ کریں سیدھے جواب دیں تاہم چیئرمین کے پی ٹی ارکان کے نام کے نام نہ بتا سکے۔ اجلاس میں آڈٹ حکام نے بتایا جی ایم فنانس، چیف اکائونٹ آفیسر، منیجر فنانس اور چیف فنانشل آفیسر نے 45 ارب روپے سے زائد کی سرمایہ کاری کی ہے پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کااجلاس چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس میں وزارت میری ٹائم افیئرز کے مالی سال 2016-17 کے آڈٹ اعتراضات اور بجٹ گرانٹ کا جائزہ لیا گیا۔اجلاس میں انکشاف ہو اہے کہ پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن نے کئی بحری جہازوں کی آمدو رفت میں تاخیر کی مد میں ایک ارب 37کروڑ روپے کی رقم وصول نہیں کی ۔ اجلاس میں آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن نے کئی کلائنٹس سے بحری جہازوں کی آمد میں تاخیر کی مد میں 1 ارب 37 کروڑ روپے سے زائد رقم وصول نہیں کی ، جو کہ ادارے کی غیر تسلی بخش کارکردگی کو ظاہر کرتا ہے۔ وزارت حکام نے جواب دیا کہ اس پر رقم کی وصولی جاری ہے اور اب تک 40 کروڑ روپے کی وصولی ہوچکی ہے۔ کمیٹی نے معاملے کو پوری رقم کی وصولی تک موخر کردیا۔ آڈٹ حکام نے کراچی پورٹ ٹرسٹ کے آڈٹ اعتراض میں انکشاف کیا کہ پورٹ انتظامیہ نے 2008 سے اب تک 45 ارب روپے سے زائد کی فنانشل سٹیٹمنٹ نہیں بنائی اور مختلف نجی اور سرکاری بینکوں میں سرمایہ کاری کی۔ قومی بچت اسکیم میں حکومتی ہدایت کو بالائے طاق رکھ کر سرمایہ کاری کی گئی ، کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ایکٹ کے مطابق بینک اکاؤنٹس میں بھی رقم نہیں رکھی جاسکتی۔تمام سرمایہ کاری کے دوران کے پی ٹی ایکٹ کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے۔چیئرمین کراچی پورٹ ٹرسٹ نے کمیٹی کو بتایا کہ وزارت خزانہ کی پالیسی کے مطابق مرکزی بینک کی فہرست میں اے ریٹنگ کی حامل بینکوں میں سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے۔ انہوں مزید انکشاف کیا کہ کے پی ٹی کی زمینوں پر قبضے کرانے میں پورٹ انتظامیہ کے ملازمین بھی شامل تھے ان میں سے اکثر کو فارغ بھی کیا گیا ہے۔چیئرمین کی پی ٹی نے بتایا کہ وزارت خزانہ کی کی ہدایات ہیں اور اور کے پی ٹی ایکٹ ہے ہدایت کبھی بھی ایکٹ پر حاوی نہیں ہوسکتی۔ سردار عاشق گوپانگ نے کہا کہ فنانشل سٹیٹمنٹ کے بغیر ہی سرمایہ کاری کی گئی سب سے پہلے تو یہ بتایا جائے کہ فنانشل سٹیٹمنٹ کیوں نہیں بنائی گئی۔چیئرمین کے پی ٹی نے بتایا کہ یہ 45 ارب روپے کے پی ٹی کے پاس سر پلس رقم ہے۔ کمیٹی رکن نوید قمر نے کہا کہ آپ نے بجٹ پورا کیا ہے مگر فنانشل سٹیٹمنٹ نہیں بنائی، یہ تو بالکل درست نہیں ہے۔ جس پر چیئرمین کے پی ٹی جواب نہیں دے سکے۔ کمیٹی رکن عذرا فضل پیچوہو نے کہا کہ ادارے کا اندرونی آڈٹ نہ ہونا تعجب کی بات ہے۔
کراچی پورٹ ٹرسٹ