23 مارچ ۔ منظر۔پس منظر اور ضرورت
ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ ’’23 مارچ‘‘ کی تاریخ وطن عزیز کی تاریخ میں کیا اہمیت رکھتی ہے؟ یہ اہم ترین تاریخ، دراصل وطن عزیز کے دنیا کے نقشے پر ابھرنے کے خد و خال ترتیب دینے کی تاریخ ہے، یہ تاریخ اس قرار داد کے منظور ہو جانے کی تاریخ ہے جس کے چند سال بعد ہی برصغیر کے مسلمانوں نے عملاً ہندوئوں اور انگریزوں کی ایزارسانیوں سے نجات حاصل کر لی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اکابرین قوم نئی نسل کو بتائیں سمجھائیں کہ اس قرار داد کا مآخذ کیا تھا؟ مفہوم اور مقاصد کیا تھے؟ تاکہ وہ صحیح معنوں میں تاریخ پاکستان کی تفصیل سے آ گاہ ہو سکے اور وطن عزیز کو قائد کے اقوال اور اقبال کے افکار میں ڈھالنے کا چارہ کرے ستاروں پر کمند ڈالنے والے ان ستاروں کو گردوں پر تابندہ کرنے اور رکھنے کے لئے جتنی اشد ضرورت اس سے پہلے بھی یقیناً تھی مگر اب بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے ان کو پاکستانیت بطور مضمون ہر کلاس میں پڑھائی جائے تاکہ وہ اپنے اسلاف کی جاں گسل محنتوں، قربانیوں اور مشکلات و مصائب کا اندازہ کر سکیں اور خود کو وطن عزیز کی تعمیر و ترقی کے لئے وقف کر دیں ہمارے بزرگوں نے آزادی کی خاطر جانیں قربان کرنے سے پہلے فکری، نفسیاتی اور جذباتی محاذوں پر کتنی اعصاب شکن جنگیں لڑیں ہمیں آزاد وطن کی آزاد فضائوں میں آزادی کی سانسیں عطاء کرنے کے لئے کیا کچھ برداشت کیا اس قیامت کو حد تصور میں لانا بھی محال ہے حق تو یہ ہے کہ ان تمام خونیں حقائق کو برضاو رغبت یاد کیا جائے اور یاد رکھا جائے تاکہ نئی نسل اپنی روایات سے ہٹنے نہ پائے اور اس پر فکری سکتہ طاری نہ ہونے پائے ورنہ قوم میں قائد و اقبال پیدا نہیں ہو سکیں گے۔تحریک پاکستان کے حوالے سے سب سے اہم حقیقت اور حوالہ ہمیں یہ یاد رکھنا ہے کہ قرار داد پاکستان تک پہنچنے کے لئے مسلمان قوم کو تعلیم کی کس قدر ضرورت تھی وہ تو خدا کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے سر سید احمد خان کو جن کی دوررس نگاہوں نے ڈیڑھ صدی پہلے اس بات کا ادراک کر لیا تھا کہ ہندو اور مسلمان قدم قدم پر جس طرح مذہبی، ثقافتی اور تہذیبی سطح پر متصادم ہیں اس کا واحد توڑ تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ کر ہندو اور انگریزوں کے برابر کھڑے ہو کر اپنے حقوق حاصل کرنے پر توجہ صرف کرنا ہے انہوں نے پہلی بار برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ’’قوم‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔ تجارت کے بہانے برصغیر پر قبضہ کرنے والے انگریزوں نے 1857ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کو جس طرح بطور خاص اپنے عتاب کا نشانہ بنایا، جاگیریں ضبط کیں پھانسیوں پر لٹکایا یہ سب حقائق تاریخ کا حصہ ہیں اس مسلم کش پالیسی میں ہندوئوں نے جی بھر کر مسلمانوں کے خلاف اپنے کینے نکالے اور کھلم کھلا انگریزوں کا ساتھ دیا جس کے صلے میں ان پر ملازمتیں اور نوازشیں عام ہو گئیں۔جبکہ مسلمان بلا واسطہ طور پر ہر سطح پر کچلے گئے وہ تعلیمی و تجارتی لحاظ سے بھی بہت پیچھے تھے ایسے نازک موقع پر سر سید احمد خاں ان کی رہنمائی کے لئے آ گے بڑھے، وقتی طور پر انہیں عملی سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دیا اور پوری توجہ حصول علم پر مرکوز کرنے کے لئے کہا علی گڑھ تحریک چلائی اسکول اور کالج کھولے اہم کتابوں کے اردو ترجمے شائع کئے سائنٹیفک سوسائٹی بنائی یوں مسلمان دھڑا دھڑ تعلیم حاصل کرنے لگے گو کہ یہ ایک دوررس اور دیر طلب منصوبہ تھا تاہم بے حد کامیاب رہا مسلمانوں کو پڑھی لکھی قیادت نصیب ہوئی دیکھا جائے تو یہ تمام کوششیں آ خر کار قرار داد پاکستان تک پہنچنے کے لئے حتمی محرک ثابت ہوئیں۔ مسلمانوں کو قدم قدم پر رکاوٹوں کا سامنا تھا انگریز اور ہندو مل کر ان کا راستہ روک رہے تھے جبکہ ’’ہیوم‘‘ نامی ایک انگریز نے انڈیشن نیشنل کانگرس کی بنیاد رکھی تاکہ ہندوستان کے عوام انگریزوں سے محاذ آرائی کے بجائے اس سیاسی پلیٹ فارم پر دلوں کا غبار نکال لیا کریں اس جماعت میں بے شمار ہندو شامل ہو گئے جنہوں نے اب اپنی عددی اکثریت کے زور پر اپنی تہذیب و ثقافت مسلمانوں پر ٹھونسنے کی کوشش کی جس پر مسلمان بجا طور پر سیخ پا ہو گئے انہوں نے بھی اپنے حقوق و مفادات کے تحفظ کے لئے آ ل انڈیا مسلم لیگ بنا لی جسے 1913ء میں قائد اعظم نے جوائن کر کے اس میں ایک نئی روح پھونک دی انہی کی کوشش سے مسلم لیگ اور کانگرس کے درمیان میثاق لکھنئو کے نام سے ایک سمجھوتہ طے پایا جس کی رو سے پہلی بار کانگرس نے مسلمانوں کی جداگانہ حیثیت کو تسلیم کیا اسی دوران تحریک خلافت بھی شروع کی گئی ’’تحریک عدم تعاون‘‘ بھی چلائی گئی یہ تحریک انگریزی مصنوعات اور ان کی تجارت سے بائیکاٹ کیلئے چلائی گئی جس سے انگریز کارخانہ داروں کو بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑا وہ مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوئوں کو ترجیح دینے لگے جبکہ 1928ئ میں نہرو رپورٹ شائع ہو گئی جس میں جان بوجھ کر ان شقوں کو رد کر دیا گیا جو مسلمانوں کے حقوق و مفادات کے تحفظ کے لئے تھیں یہ رپورٹ قائد اعظم نے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اپنے مشہور چودہ نکات پیش کئے اس پر ہندوئوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا اور فرقہ وارانہ فسادات شروع کر دیے غالباً اسی میں خدا کی مصلحت تھی کہ علامہ اقبال نے اس تہذیبی و ثقافتی اور مذہبی انتشار کو بنیاد بنا کر 1930ء میں آلہ آباد کے خطبے میں واضح طور پر دو قومی نظریہ پیش کر دیا اور فرمایا کہ ہندو مسلم ہر لحاظ سے دو الگ قومیں ہیں مسلمانوں کو الگ وطن کی ضرورت ہے بہر حال یہ وہ تمام تر حقائق و محرکات تھے جو 23 مارچ کی قرار داد پاکستان کی بنیاد بنے یہ جلسہ قائد اعظم کی صدارت میں ہوا جس میں انتہائی باریک بینی سے مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کا جائزہ لیا گیا مسلم لیگ ہر سطح پر تیزی سے متحرک ہوئی اور آخر کار پاکستان بننے کا معجزہ وجود میں آیا ہم سمجھتے ہیں اتنی قربانیاں دینے اور بہت سے دگرگوں سیاسی حالات سے گزرنے کے باوجود آج بھی ہم پاکستانیوں کو وطن عزیز کی تعمیر و ترقی کے لئے اسی مجنونانہ جذبے کی ضرورت ہے۔ 23 مارچ کا اہم دن تقاریر و تقاریب برپا کرنے کے ساتھ ساتھ عملی طور پر وطن کی مضبوطی و استحکام کے لئے کام کرنے کے لئے تجدید عہد کا دن بھی ہے ہم نے ہر لمحہ اس کے لئے شدید محنت کر کے اسے ترقی یافتہ اقوام کے مقابل لے آنا ہے اور یہ صرف وطن کا بھی ہم سے تقاضا نہیں ہمارے اپنے ضمیر کا بھی ہم سے تقاضا ہے۔