تنقید برائے تنقید کی روش
شومئی قسمت سے یہ ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے کہ کسی اچھے سے اچھے انسان کے بارے میں بھی کوئی اعتراض یا کوئی الزام سامنے آئے تو لوگ سارے کام کاج چھوڑ کر اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور مطلوبہ شخصیت کی تذلیل کا ایک لامتناعی سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہاں ہر انسان کی اپنی تربیت اور کردار کا امتحان بھی شروع ہو جاتا ہے کہ اُن کے استعمال کردہ لفظ اور جملے اُن کی اپنی شخصیت کی عکاسی بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح کوئی شخص کسی دوسرے کے ساتھ کس حد تک مخلص ہے اس کا اندازہ بھی اس وقت ہوتا ہے جب وہ شخصیت کسی مشکل یا کرائسسز کا شکار ہوتی ہے۔ ان دنوں اردو ادب، صحافت اور ملک کی ممتاز شخصیت عطاء الحق قاسمی میڈیا کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ ویسے وہ کب میڈیا کی زینت نہیں تھے۔ وہ اس وقت بھی ٹاپ میڈیا مین تھے جب پاکستان کے اندر الیکٹرانک میڈیا کی مشروم گروتھ ابھی نہیں ہوئی تھی۔ لوگ ان کے کالم ’’روزن دیوار سے‘‘ کا شدت سے انتظار کر رہے ہوتے تھے۔ وہ ایم اے اردو کرنے کے کے بعد نوائے وقت میں سب ایڈیٹر رہے پھر امریکہ چلے گئے۔ لیکن جلد ہی امریکہ کی چکاچوند زندگی چھوڑ کر وطن واپس آ گئے۔ ان کی واپسی اتنی اچانک تھی کہ جب انہوں نے گھر آ کر دستک دی تو اُن کے والد مولانا بہائو الحق قاسمی نے دروازہ کھولتے ہوئے آگے اپنے بیٹے کو کھڑے دیکھا تو ان کی حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی۔ انہوں نے فرط جذبات سے باآواز بلند عطاء الحق قاسمی کی بہنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ’’کڑیو عطاء الحق آ گیا جے‘‘۔ یوں جس خوشی سے عطاء الحق قاسمی واپس آئے اسی خوشی کے ساتھ اُن کے والدین نے بھی انہیں ویلکم کہا۔ باوجود اس کے کہ امریکہ میں رہتے تو زیادہ آسودہ زندگی گزارتے۔ ظاہر ہے پاکستان واپس آ کر انہوں نے بہت محنت کی۔ ایک کالج میں لیکچرار کے عہدے سے خدمات کا آغاز کیا۔ پروفیسر کے عہدے تک پہنچنے میں عمر اور محنت لگتی ہے۔ نوائے وقت میں ایک طویل عرصہ کالم لکھا اور پاکستان کے محبوب ترین کالم نگاروں میں سے رہے اور اب بھی ہیں۔ ہر شخصیت کی اپنی سوچ، فکر اور نظریہ ہوتا ہے۔ اس سے متصادم رائے رکھنے والوں کو اگر کوئی اعتراضات ہوں تو وہ اس کا حق رکھتے ہیں۔ اپنی رائے رکھنا کوئی جرم نہیں ہوتا بلکہ رائے نہ رکھنا جرم ہوتا ہے۔ سوچ سمجھ کر کسی نظریے کے ساتھ ہونا اور اس پر ڈٹ جانا کسی بھی آزاد شہری کی صوابدید ہے۔ خیر بات ہو رہی تھی عطاء الحق قاسمی کے سفر کی تو اس دوران وہ معاصر جیسا ایک بڑے ادبی قد کاٹھ کا میگزین بھی مسلسل نکالتے رہے ہیں۔ ناروے میں سفیر مقرر ہوئے تو پہلی مرتبہ ناروے سے براہ راست پاکستان کے لئے فلائٹ کا آغاز ہوا جس میں ناروے اور یورپ میں مقیم تارکین وطن کو بہت فائدہ پہنچا۔ اسی طرح جب اُنہیں چیئرمین پی ٹی وی مقرر کیا گیا تو علمی و ادبی حلقوں نے اس امر کو بہت سراہا کہ انہوں نے خواجہ اینڈ سنز سمیت متعدد بہترین ٹی وی ڈرامے دیئے۔ اُنہیں ٹی وی کے مختلف پروگراموں میں بطور مہمان مدعو کرنا اور اُن سے سکرپٹ رائیٹنگ کروانا ٹی وی پروڈیوسرز کا ایک خواب ہوتا تھا کہ لوگ عطاء الحق قاسمی کی باتیں اور تجربات سن کر خوشگواری محسوس کرتے۔ یوں عطاء الحق قاسمی نہ صرف اپنے سے بڑوں، ہم عصروں بلکہ بعد میں آنے والی نسلوں کے بھی پسندیدہ نثر نگار، ڈرامہ نگار، کالم نویس، شاعر اور ایک معتبر ادبی شخصیت کے طور پر دلوں میں بستے رہے ہیں اور اب بھی بستے ہیں ان کے مداح صرف پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں موجود ہیں۔ الغرض چیئرمین پی ٹی وی کے طور پر اُن کے تقرر کو خوش آئند قرار دیا گیا۔ انہوں نے پی ٹی وی کے پرانے دور کے معروف ڈراموں اور پروگراموں کو از سر نو ناظرین تک پہنچایا۔ مختلف ادبی پروگرامز شروع کئے۔ جس میں سے ایک پروگرام کے وہ خود بھی میزبان رہے اور اس میں ملک کے چوٹی کے ادیبوں، شاعروں اور شخصیات کو بلایا اور ان کے تجربات سے لوگوں کو متعارف کروایا۔ یقینایہ ایک بہت بڑی ادبی اور قومی خدمت کے طور پر یاد رہے گی۔ لیکن ان پروگرامز اور عطاء الحق قاسمی کی دیگر خدمات کو لوگوں نے اس وقت ہدف تنقید بنانا شروع کر دیا جب اعلیٰ عدالت نے عطاء الحق قاسمی کی بطور چیئرمین تعیناتی سے متعلق کیس ٹیک اپ کیا۔ عدالتیں یقینا سپریم ہیں اور وہ جس معاملے کو بھی مناسب سمجھیں اس کی چھان بین کا حق رکھتی ہیں اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔ لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ عدالتوں کی کارروائی کو سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع کے ذریعے ’چسکے‘ لے لے کر عطاء الحق قاسمی کی شخصیت کی تضحیک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایسا شائد صرف پاکستان ہی میں ہوتا ہے کہ عدالتوں میں کوئی کیس چل رہا ہو تو مختلف گروہ اور لوگ عدالتوں کی کارروائی کو سیاق و سباق سے ہٹا کر اس انداز سے لوگوں تک پہنچانا شروع ہو جاتے ہیں جس سے نہ صرف وہ شخصیت جس پر ابھی صرف الزام ہوتا ہے۔ کی تضحیک ہوتی ہے بلکہ عدالتوں کے حوالے سے بھی اچھا تاثر نہیں جاتا۔ عدالتوں کے فیصلے بولا کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں میڈیا بولتا ہے اور ٹکا کر بولتا ہے۔ اور شائد عدالتوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ عدالتوں کا ایک تقدس ہے۔ بہرطور ان دنوں اخبارات کی بعض خبریں پڑھ کر تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ عطاء الحق قاسمی خدانخواستہ انتہائی ’’بُرے‘‘ انسان ہیںاور جتنا انہوں نے ملک کو لوٹا ہے کوئی اور اتنی لُوٹ مار نہیں کر سکا۔ کوئی بزنس مین، کوئی لینڈ گریبر بھی اُن کی لوٹ مار کا ریکارڈ نہیں توڑ سکا۔ حتیٰ کہ بطور چیئرمین اُن کے آفس کے واش روم کے لئے کوئی بالٹی اور سافٹی بھی خریدی گئی تو وہ بھی عطاء الحق قاسمی کی ’’کرپشن‘‘ قرار دی جا رہی ہے اور میڈیا اس کو اچھال رہا ہے۔ ہاں اگر عدالتیں اپنے کسی فیصلے میں یہ باتیں establish کر دیں تو وہ پھر بعد کی بات ہے۔ لیکن ایسے حالات میں کہ جب ابھی عدالتی کارروائی جاری ہے تو اس قسم کی خبریں تضحیک کے سوا کچھ نہیں۔
میڈیا میں عطاء الحق قاسمی کے بطور چیئرمین پی ٹی وی تعیناتی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حالانکہ وہ اس عہدے کے لئے موضوع ترین شخصیت تھے۔ اردو ادب کی متعدد کتابوں کا مصنف، پی ٹی وی کے بیسیوں ڈراموں کا خالق، صحافتی اعتبار سے ایک بڑا کالم نگار اگر ایسے عہدوں کے لئے اہل نہیں تو پھر اور کون ہو سکتا ہے؟ بہرکیف اس امر کا تعین بھی اگر ہوتا ہے تو وہ صرف اور صرف اعلیٰ عدالتوں کا اختیار ہے اور سوشل میڈیا پر شخصیات اور مختلف اداروں کو لتاڑنے والے سوشل میڈیا ایکسپرٹس کو اس کی اجازت ہرگز نہیں دی جانی چاہئے کہ یہ روایت ملک میں بگاڑ ہی کا باعث بن رہی ہے اور کوئی مثبت راہ عمل متعین نہیں ہو پا رہی جو یقینا ایک قابل تشویش امر ہے۔