یکم مارچ کو تحریک طالبان پاکستان نے غیر مشروط سیز فائر کا اعلان کر دیا تھا ۔اُسکے بعد گو دہشت گردی کے چند واقعات رونما ہوئے لیکن ملک کے بڑے شہروں میں نسبتًا سکون رہا ۔سیز فائر کے بعد دہشتگردی کے واقعات سے طالبان لا تعلقی کا اظہارکرتے رہے لیکن مذمت نہیں کی جن گروہوں نے ذمہ داری قبول کی ۔اُنکا نام تک پہلے سننے میں نہیں آیا تھا جیسے احرارلہند مولانا سمیع الحق جند اللہ وغیرہ تک کہنے پر مجبور ہو گئے کہ وہ نہیں جانتے کہ احرارالہندنام سے موسوم یہ کون لوگ ہیں اور اُنکا تحریک طالبان سے کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں۔لوگوں کو شک گزرا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ طالبان ہی ہیں جو مختلف ناموں سے جنگ بندی کے بعد بھی کاروائیوں میں مصروف ہیں۔یا پھرطالبان کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ اُنکے امیر ملاّ فضل اللہ اُن تمام تنظیموں کو کنٹرول کرتے ہیں جو طالبان کی چھتری تلے آپریٹ کر رہے ہیں اور جنکی تعداد45/50 سے زیادہ ہے بہرحال حکومت نے عوام کے شدید دبائوکے باوجود جو چاہتے تھے کہ وقت آگیا ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ دو دو ہاتھ کر کے اُنھیںسیدھی راہ دکھائی جائے کیونکہ لوگوں کو یقین تھا کہ غیر مشروط جنگ بندی کا اعلان طالبان نے فضائیہ کی سرجیکل سٹراٹیجک سے مجبور اور خوفزدہ ہو کر کیا تھا بہرحال حکومت نے مذاکرات کے ذریعہ امن کی راہ تلاش کرنے ہی کو ترجیح دی ۔ حکومت کے اِس فیصلہ میں فوج اور عسکری قیادت پوری حمایت شامل تھی ۔
حکومت نے اُس کمیٹی کو تحلیل کر کے جس نے طالبان کے ساتھ ابتدائی مذاکرات کئے تھے ایک نئی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔جس میںصوبہ خیبر پختون خواہ کے گورنر اور وزیراعلیٰ کو بھی نمائندگی دینے کا کہاگیا تھا حکومت کی خواہش تھی کہ اِس کمیٹی میں فوج کا بھی کوئی کردار ہو ۔تاہم کور کمانڈرز کے ایک اجلاس میںفوج نے فیصلہ کیا کہ وہ مذاکرات میں کوئی کمیٹی کا حصہ نہیں بنے گی۔گو مذاکرات کے سلسلہ میں حکومتی کمیٹی کی پوری مدد کر یگی۔اورحکومتی فیصلوں پر عمل کریگی۔فوج نے ایسا اِس وجہ سے بھی کیا کہ فوج کو مذاکرات میں شریک کئے جانے پر اپوزیشن اور میڈیا میں بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا ۔ہم نے اپنی بدعقلی اور نا اہلی سے مٹھی بھر اقلیت کو ریاست اور حکومت کے برابرلا کھڑا کیا اور اُنھیں مساوی فریق بنا کر مذاکرات کی کوششیں شروع کر دیں۔ایسا کرنے میں حکومت یہ بھول گئی کہ چند سر پھرے دنیا کی بہترین فوج اور 18کروڑ عوام کا سامنا نہیں کر سکتے تھے ۔ہم نے اَبھی بازو آزمائے ہی کہاں تھے۔خیر دیر آید درست آید۔فوج نے ایک بار یقین دلایا ہے کہ امن کے لئے حکومتی فیصلوں کی حمایت کرینگے۔تبدیل شدہ مذاکراتی کمیٹی کا اعلان دیاگیا ہے ۔اِس کمیٹی کے سربراہ حبیب اللہ خٹک ہونگے جنکا تعلق کے۔پی۔کے سے ہے اور جو سیکٹری فاٹا اور پولیٹیکل ایجنٹ خیبر ایجنسی رہ چکے ہیں۔اور اِن علاقوں کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔دیگر افراد میں ارباب عارف ،فواد حسن فواد اور رستم شاہ مہمند کے نام شامل ہیں۔فواد حسن فواد وزیراعظم کے ایڈیشنل سیکرٹری ہیں جو کمیٹی اور وزیراعظم کے درمیان براہ راست تعلق ذریعہ کارول ادا کریں گے۔رستم شاہ مہمند تحریک انصاف کے نمائندہ کے طور پر شامل کئے گئے ہیں۔جو انتظامیہ اور سفارتکاری کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔
اِس دوران دو ایک اچھی باتیں بھی دیکھنے میں آئی ہیںایک تو یہ کہ روپے کی قدر میں اضافہ اور ڈالر کی قدر میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک عرصہ کے بعد ڈالر 100 روپے سے نیچے آیا ہے ۔وجہ اِس کی ہماری معیشت میں بنیادی بہتری نا سہی یعنی پیداوار اوربر آمدات میں اضافہ نا سہی پھر بھی۔ روپے کی قدر میں بہتری کا رجحان خوش آئند ہے خداکر ئے یہ بہتری عارضی نہ ہو اور آگے چل کر ہماری معیشت میں بنیادی تبدیلیوں سے اسکا تعلق قائم ہو سکے ۔وزیرخزانہ نے تسلیم کیا ہے کہ روپے کی قدر میں بہتری کی ایک وجہ یہ ہے کہ دوست ممالک نے پاکستان ڈویلپمنٹ فنڈ میں رقوم جمع کرائیں جسکی وجہ سے روپے کی قدر میں ترقی اور ڈالر کی قدر میںکمی دیکھنے میں آئی ہے۔ جب اُن سے سوال کیا گیا کہ آیا یہ تبدیلی سعودی حکومت کے اصرارپر ہماری شام سے متعلق پالیسی میں تبدیلی کا نتیجہ تو نہیں ۔ یعنی یہ تو نہیں کہ ہم نے سعودی حکومت کے کہنے پر شام کے باغیوں کو اسلحہ فراہم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہو ۔اور سعودی حکومت نے جوابًا ہماری گری ہو ئی معیشت کو سہارا دینے کی خاطر ہمارے ڈولپمنٹ فنڈ میں ڈالر جمع کرا دئیے ہوں ۔اِس سوال کے جواب میں وزیرخزانہ نے اِصرار کیا کہ کسی ملک کا نام نہ لیا جائے اِس میں کئی ایک دوست ممالک شریک ہیں بہرحال وجہ کوئی ہو نیتجہ بُرا نہیں خدا کرئے یہ تبدیلی اور ترقی عارضی نہ ہو۔ڈالر کی قدر میں کمی اور روپے کی قدر میں اضافہ عوام کے لئے تو معنی خیز تب ہو گا کہ اسکی وجہ سے مہنگائی میں کمی آئے ۔اور عوام کو قدر ے سکھ کا سانس ملے ۔کم از کم پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوںمیں ضروری کمی ہونا چاہئے جسکا خوشگوار اثر مارکیٹ کی مجموعی حیثیت پر پڑتا ہے۔
اُدھر تھر کے علاقے میں حالات ازحد تکلیف دہ اور تشویشناک ہو گئے ہیں ۔غذائی اشیاء کی قلت اور ادویات کی ناہوت سے درجنوں قیمتی جانوں کا ضیاںہو چکا ہے ۔ قحط سالی کے آثار کا مضر اثر بچوں کی صحت پر پڑا ہے۔تا دم تحریر 130 کے لگ بھگ بچے لقمہ اجل بن چکے ۔بارش کے ناہونے سے فصلیں برباد ہو جاتی ہیں ۔انسان اور حیوان دونوں کے لئے پینے کا پانی تک دستیاب نہیں ہوتا لیکن ایک ایسے ملک میں جو، گندم اور چاول برآمد کرتا ہو۔ملک کے کسی علاقہ میں غذائی اشیاء کا فقدان انتظامی نااہلی کے علاوہ کچھ اور قرار نہیں دیا جاسکتا ۔بارشوں کے فیل ہوجانے سے اور پیدا ہو جانے والی صورت کا اندازہ پہلے سے لگا کر ضروری انتظامات کیوں نہیں کئے گئے ۔صوبہ کے ایک حصے سے اور اگر ضروری تھا تو ملک کے دوسرے حصے سے غذائی اجناس اِس علاقہ میں ہر وقت کیوں نہیں بجھوائی گئیںتاکہ اِن اموات کو روکا جا سکتا۔ ہمارے ملک میں نااہلی کی وجہ سے قومی نقصانات پر استعفیٰ دینے کی روایات موجود نہیں۔ اگر اور کسی ملک میں ایسا ہوا ہوتا تو ذمہ دار حکمران مستفیٰ ہو کر اپنے گھروں کی راہ لیتے۔ وزیراعظم نے اچھا کیا کہ خود مٹھی جا کر حالات کا جائزہ لیا اور وزیراعلیٰ کو ہدایت کی کہ ذمہ دار افسران کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔
اَبھی تھر سے پیدا ہونے والے حالات کی تکلیف میں کمی ہونے نہ پائی تھی کہ لیاری میں گینگ وار نے آلیا۔ بد ترین واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 31 تک پہنچی 42 افرادزخمی ہوئے۔ ہلاک شدہ گان میں 10خواتین اور 4 بچے شامل ہیں۔ اِس قدر قتل و غارت ایک دن کے ہنگاموں میں کم ہی دیکھنے میں آئی ہے۔کراچی میں سپشل آپریشن عرصہ سے جاری ہے۔ اِس میں پولیس اور رینجزز کی کار کردگی کو سراہا بھی گیا لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لیاری کے حالات کو یا تو انتظامیہ حل نہیں کرنا چاہتی یا حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ دونوں صورت ناقابل قبول ہیں۔ ضرورت ہے کہ لیاری میں لوگوں کو اسلحہ سرنڈر کرنے کا حکم دیا جائے۔ کرفیو لگا کرگھر گھر تلاشی ہو اور ناجائز اسلحہ قبضے میں کر لیا جائے۔ آخر ایسا کیوں نہیں کیا جا سکتا ۔وزیراعظم نے کراچی میں آپریشن پر نظر ثانی کی بات کی ہے ہو سکتا ہے نظر ثانی کے بعد ایک مربوط اور کڑی پالیسی کے ذریعہ لیاری کے اسلحہ اوربارُود کے ناجائز ذخائر اِس ستم زدہ علاقہ کو ہمیشہ کے لئے نجات مل جائے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024