حج کرپشن کیس کی سماعت کے دوران سابق وزیر مملکت شگفتہ جمانی کی مبینہ کرپشن کی رپورٹ بھی سپریم کورٹ میں پیش کردی گئی ۔ کرپشن میں خاتون وزیرکا نام آنا قابل شرم بات ہے ۔ چیف جسٹس
حج کرپشن کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے چار رکنی بینچ نے کی ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ تحقیقات بلا امتیاز کی جائیں اور یہ بھی ریکارڈ پر لایا جائے کہ کون تعاون نہیں کر رہا ۔ ان کا کہنا تھا کہ کرپشن اگراپنے ملک میں کی جائے تو یہ بھی جرم ہے لیکن اپنے ملک سے باہرکرپشن کرنا باعث شرم بھی ہے ، حاجی بے چارے بے یارو مددگار پھرتے رہے اوردوسری قوموں کے لوگ یہ دیکھتے رہے کہ انکے ساتھ فراڈ ہوا ہے ۔ ایف آئی اے تحقیقات کے لیے اپنی تمام توانائیاں بروئے کار لائے ۔ ایسی کیسوں میں دباؤ آتا رہتا ہے ، اسے خاطر میں نہ لایا جائے ۔ سماعت کے دوران ایف آئی اے کی طرف سے عدالت کو بتایا گیا کہ حامد سعید کاظمی سے تفتیش کی جا رہی ہے اور جلد چالان مکمل کر لیا جائے گا۔ سعودی عرب میں پاکستان کے سابق سفیرعمرشیرزئی نے عدالت کو بتایا کہ برطرف ڈی جی حج راو شکیل نے انہیں چالیس لاکھ ریال کی پیش کش کی تھی جسے انہوں نے ٹھکرا دیا ۔ اس کے علاوہ غیر ضروری عمارتیں کرائے پر لے کر قوم کے نوے لاکھ روپے ضائع کیے گئے اور سعودی حکومت نے پانچ ہزارحاجیوں کا جو اضافی کوٹہ دیا تھا وہ وفاقی وزیر نے ٹور آپریٹرز میں تقسیم کردیا تھا حالانکہ اس وقت وہ لندن میں زیر علاج تھے لیکن کوٹہ ملتے ہی وطن واپس پہنچ گئے ۔ ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ سابق وزیر مملکت شگفتہ جمانی سعودی عرب میں عابد منیر اور نصیر نامی دو افراد کے ذریعے کمیشن لیتی رہی ہیں ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اس موقع پر ریمارکس دیئے کہ خاتون وزیر کا ایسے کیس میں نام آنا قابل افسوس ہے ۔ سپریم کورٹ نے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو ہدایت کی کہ کنٹریکٹ افسران سے متعلق معاملے کو حکومت کی طرف سے بنائی گئی کمیٹی کے سامنے رکھا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے وسیم احمد کو برطرف کیا جائے ، ورنہ عدالت خود جوڈیشل آرڈر جاری کرے گی ۔ اس معاملے پر وفاق کے وکیل نے مزید مہلت مانگی جس پر سماعت آٹھ اپریل تک ملتوی کر دی گئی ۔