چند روز کی خوشی بھی ہم کو راس نہیں آتی ۔” کمینے دشمن “یا دشمنوں نے شاید فیصلہ کر لیا ہے وہ کسی طرح سے بھی ہمیں سکون کی زندگی بسر نہیں کرنے دیں گے۔ زندگی تو دور کی بات ہے چند لمحے بھی بسر نہیں کرنے دیں گے۔ پہلے اُن کی مذموم کار وائیاں مہینوں میں ہوتی تھیں ، پھر دنوں میں اور اب گھنٹوں میں ہونے لگی ہیں۔ مال پسندوں کی حکمرانی اسی انداز میں خوابِ خرگوش کے مزے لوٹتی رہیں تو میرے منہ میں خاک ملک دشمنوں کی مذموم کاروائیاں آئندہ سیکنڈوں میں ہوا کریں گی۔ایک ہی روز میں سات دھماکوں کے بعد یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ملک میں حکومت نام کی کوئی شے موجود ہے؟ اُوپر نوٹ چھاپے جا رہے ہیں اور نیچے انتخاباتی فتح کے جشن منائے جا رہے ہیں ۔ اتنی ”اہم مصروفیات“ کو چھوڑ کر وفاقی اور صوبائی حکمران عوام کے تحفظ کا اہتمام کریں تو انہیں ”حکمران “ کون کہے گا؟لہٰذا دہشت گردی کے پے در پے ہونے والے”سانحات“ کے بعد کوئی یہ سمجھے کہ حکمران عوام کیلئے ویسے جاگ اُٹھیں گے جیسے وہ اپنے لئے جاگتے ہیں تو میرے خیال میں اُس سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں!
بڑی سے بڑی قیامت ٹوٹنے کے بعد بھی یہی ہو گا کہ میڈیا کو محکمہ اطلاعات کے بنے بنائے بیانات جاری کر کے دوبارہ ویسے ”کارناموں “ میں مگن ہو جائیںجو حکمرانوں کی خصوصی شناخت ہےں۔ سیاسی اور فوجی حکمرانوں میں اس حوالے سے بھی فرق نہیں ہوتا کہ قومی سانحات پر دونوں قِسموں کے حکمرانوں کے بیانات ایک جیسے ہی ہوتے ہیں ۔ تین روز قبل ہونے والے سانحے پر سیاسی صدر نے فرمایا ”دہشت گردی کے خلاف ہم متحد ہیں“ چند برس قبل کے اخبارات اُٹھا کر دیکھئے دہشت گردی کے واقعات پر اُس وقت کا فوجی صدر بھی حرف بہ حرف ایسے ہی بیان جاری کیا کرتا تھا۔سو کرداروں کی طرح ان کے بیانات بھی ایک جیسے ہیں ۔ فوجی حکمرانوں کے دور میں عوام کے ساتھ جو کچھ ہوا اب بھی وہی کچھ ہوتا ہے، بلکہ اب حالات اُس سے بھی بدتر ہیں ۔ اس کے باوجود سیاسی حکمران بضد ہیں عوام اِس نعرے میں اُن کا ساتھ دیں کہ بد ترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے!
موجودہ جمہوریت بھی بد ترین ہی ہے تو کوئی بتائے اِسے آمریت سے کتنا بہتر قرار دیا جا سکتا ہے؟جمہوریت پسند معاف فرمائیں تو عرض کروں ایسے سانحے تو فوجی دور میں نہیں ہوتے تھے جیسے اب ہوتے ہیں اور ہوتے ہی چلے جارہے ہیں ۔بم دھماکوں اور غم دھماکوں نے لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ قیامت سی قیامت ہے کہ موت زندگی سے بہتر محسوس ہونے لگی ہے ۔سسک سسک کر جینے والوں کیلئے شاعر نے کہا تھا
موت سے ترے درد مندوں کی
مشکل آسان ہو گئی ہو گی
اصل موت تو اُن کی واقع ہوتی ہے جو مرنے والوں کی ےاد میں زندہ رہتے ہیں ۔زندہ درگور مرنے والوں کو شہید کہتے ہیں تو اُن کی یاد میں زندہ رہنے والوں کو بھی ”شہید “ ہی کہا جائے کہ اُس کے بعد اُن کی حالت بھی ”زندہ لاشوں“ جیسی ہی ہوتی ہے !
ابھی کل کی بات ہے لاہور کے میلہ مویشیاں یا جشنِ بہاراںمیں بگھی میں بیٹھے وزیر داخلہ کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا وہ ایسے ملک کا وزیر داخلہ ہے جہاں ہر طرف امن ہی امن ہے اور لوگ گھروں کے دروازے کھول کر سوتے ہیں ۔ اُس کے چہرے پر ایسا اطمینان تھا جیسا اِن دنوں سترہ کروڑ عوام میں سے کسی کے چہرے پر نہیں ۔بیسیوں باوردی اور بے وردی باڈی گارڈوں کی موجودگی میں وہ مطمئن کیوں نہ ہو ؟اُسے اور اُس جیسے وفاقی و صوبائی حکمرانوں کو یقین ہوتا ہے کوئی اُن کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔یہ ”یقین دہانی“ اُنہیں یقینا وہیں سے ہو تی ہے جہاں کی ساری خبریں اُنہیں اچھی طرح معلوم ہو تی ہیں ۔ اپنی سیکیورٹی کے بند و بست وہ اِن خبروں کے مطابق ہی کرتے ہیں۔ عوام کیلئے اِن کے پاس صرف ایک ہی خبر ہوتی ہے ۔ یہ کہ اتنے دہشت گرد فلاں شہر میں داخل ہو گئے ۔ داخل اور داخلہ میں معمولی سا فرق ہے جو وزیر داخلہ سمجھے نہ سمجھے عوام خوب سمجھتے ہیں!
گذشتہ کئی سالوںسے ایک ہی فلم ایک ہی ڈرامہ چل رہا ہے ۔اِدھر دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوا اُدھر حکمران مریضوں کی عیادت کرنے پہنچ گئے اورمرحومین ور زخمیوں کیلئے امداد کا اعلان کر دیا ۔ بد قسمتی کی بات ہے دہشت گردوں سے لے کر حکمرانوں تک اس فلم میں ولن ہی ولن ہیں ۔ کاش کوئی ایسا ہیرو آئے جو اس ملک اور اس کے عوام کی تقدیر بدل کر رکھ دے ۔ اور یہ تب ہی ممکن ہے جب عوام خود اپنی تقدیر بدلنے کا فیصلہ کر لیں ۔ یہ فیصلہ اب جلدی ہو جانا چاہیے کہ پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے اور یہ ملک مزید دیر کا متحمل نہیں ہو سکتا!
بڑی سے بڑی قیامت ٹوٹنے کے بعد بھی یہی ہو گا کہ میڈیا کو محکمہ اطلاعات کے بنے بنائے بیانات جاری کر کے دوبارہ ویسے ”کارناموں “ میں مگن ہو جائیںجو حکمرانوں کی خصوصی شناخت ہےں۔ سیاسی اور فوجی حکمرانوں میں اس حوالے سے بھی فرق نہیں ہوتا کہ قومی سانحات پر دونوں قِسموں کے حکمرانوں کے بیانات ایک جیسے ہی ہوتے ہیں ۔ تین روز قبل ہونے والے سانحے پر سیاسی صدر نے فرمایا ”دہشت گردی کے خلاف ہم متحد ہیں“ چند برس قبل کے اخبارات اُٹھا کر دیکھئے دہشت گردی کے واقعات پر اُس وقت کا فوجی صدر بھی حرف بہ حرف ایسے ہی بیان جاری کیا کرتا تھا۔سو کرداروں کی طرح ان کے بیانات بھی ایک جیسے ہیں ۔ فوجی حکمرانوں کے دور میں عوام کے ساتھ جو کچھ ہوا اب بھی وہی کچھ ہوتا ہے، بلکہ اب حالات اُس سے بھی بدتر ہیں ۔ اس کے باوجود سیاسی حکمران بضد ہیں عوام اِس نعرے میں اُن کا ساتھ دیں کہ بد ترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے!
موجودہ جمہوریت بھی بد ترین ہی ہے تو کوئی بتائے اِسے آمریت سے کتنا بہتر قرار دیا جا سکتا ہے؟جمہوریت پسند معاف فرمائیں تو عرض کروں ایسے سانحے تو فوجی دور میں نہیں ہوتے تھے جیسے اب ہوتے ہیں اور ہوتے ہی چلے جارہے ہیں ۔بم دھماکوں اور غم دھماکوں نے لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ قیامت سی قیامت ہے کہ موت زندگی سے بہتر محسوس ہونے لگی ہے ۔سسک سسک کر جینے والوں کیلئے شاعر نے کہا تھا
موت سے ترے درد مندوں کی
مشکل آسان ہو گئی ہو گی
اصل موت تو اُن کی واقع ہوتی ہے جو مرنے والوں کی ےاد میں زندہ رہتے ہیں ۔زندہ درگور مرنے والوں کو شہید کہتے ہیں تو اُن کی یاد میں زندہ رہنے والوں کو بھی ”شہید “ ہی کہا جائے کہ اُس کے بعد اُن کی حالت بھی ”زندہ لاشوں“ جیسی ہی ہوتی ہے !
ابھی کل کی بات ہے لاہور کے میلہ مویشیاں یا جشنِ بہاراںمیں بگھی میں بیٹھے وزیر داخلہ کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا وہ ایسے ملک کا وزیر داخلہ ہے جہاں ہر طرف امن ہی امن ہے اور لوگ گھروں کے دروازے کھول کر سوتے ہیں ۔ اُس کے چہرے پر ایسا اطمینان تھا جیسا اِن دنوں سترہ کروڑ عوام میں سے کسی کے چہرے پر نہیں ۔بیسیوں باوردی اور بے وردی باڈی گارڈوں کی موجودگی میں وہ مطمئن کیوں نہ ہو ؟اُسے اور اُس جیسے وفاقی و صوبائی حکمرانوں کو یقین ہوتا ہے کوئی اُن کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔یہ ”یقین دہانی“ اُنہیں یقینا وہیں سے ہو تی ہے جہاں کی ساری خبریں اُنہیں اچھی طرح معلوم ہو تی ہیں ۔ اپنی سیکیورٹی کے بند و بست وہ اِن خبروں کے مطابق ہی کرتے ہیں۔ عوام کیلئے اِن کے پاس صرف ایک ہی خبر ہوتی ہے ۔ یہ کہ اتنے دہشت گرد فلاں شہر میں داخل ہو گئے ۔ داخل اور داخلہ میں معمولی سا فرق ہے جو وزیر داخلہ سمجھے نہ سمجھے عوام خوب سمجھتے ہیں!
گذشتہ کئی سالوںسے ایک ہی فلم ایک ہی ڈرامہ چل رہا ہے ۔اِدھر دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوا اُدھر حکمران مریضوں کی عیادت کرنے پہنچ گئے اورمرحومین ور زخمیوں کیلئے امداد کا اعلان کر دیا ۔ بد قسمتی کی بات ہے دہشت گردوں سے لے کر حکمرانوں تک اس فلم میں ولن ہی ولن ہیں ۔ کاش کوئی ایسا ہیرو آئے جو اس ملک اور اس کے عوام کی تقدیر بدل کر رکھ دے ۔ اور یہ تب ہی ممکن ہے جب عوام خود اپنی تقدیر بدلنے کا فیصلہ کر لیں ۔ یہ فیصلہ اب جلدی ہو جانا چاہیے کہ پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے اور یہ ملک مزید دیر کا متحمل نہیں ہو سکتا!