حیرتوں کا اک جہان.... چین۔۔۔ قسط 2

چین دنیا بھر کے لئے اشیاءضرورت بنا کر ایکسپورٹ کرتا ہے ایک صاحب نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ صرف میڈ ان چائنا کہہ دینا کافی نہیں بلکہ اب تو World is made in Chinaکہنا زیادہ موزوں لگتا ہے۔ وفد کے تمام ارکان شاپنگ کے خواہشمند تھے۔ ہم چونکہ سبھی چینی زبان سے نا بلد تھے "زبان یار من ترکی و من ترکی نمی داند"والا معاملہ تھا لہٰذا ہم نے زبیر بشیر اور شاہد افراز خان سے شاپنگ میں ہماری مدد کے لئے کہا تو دونوں صاحبان جنہوں نے چینی زبان خاصی حد تک سیکھ لی ہے، ایک بڑے شاپنگ پلازہ پر ہمیں ساتھ لے گئے اور چینی دکانداروں سے بات کرنے میں بھرپور ساتھ دیا۔چینی دکانداروں کے ساتھ خاصا بھاو¿ تاو¿ کرنا پڑتا ہے دکانداروں میں اکثریت خواتین کی تھی جس سے واضح نظر آرہا تھا کہ چین کو معاشی طاقت بنانے میں خواتین لیڈنگ رول پر ہیں۔ گریٹ وال ہماری اگلی منزل تھی جس کے لئے روانہ ہوئے تو راستے میں تیز بارش اور ژالہ باری نے استقبال کیا۔اس سے موسم نہائیت خوشگوار ہو گیا ایک مقام پر رکے اور خدا کی رحمت سے باقاعدہ لطف اندوز ہوئے۔ پاکستانیوں کا ساتھ ہو، وطن چینی بھائیوں کا ہو، پاکستانی اور چینی دوست ساتھ ہوں، خوشگوار موسم بھی شریک سفرہو اور راستہ دیوارِ چین کا ہو تو ایسے ناقابل فراموش لمحات کا میسر آنا خوش بختی کی علامت ہے۔ 
دنیا کے سات عجوبوں میں شامل دیوار چین کی سیر نے تو ہمیں ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ اہرامِ مصر تو ایک ہی جگہ پر تعمیر ہونے والا عجوبہ ہے لیکن دیوارِ چین تو انتہائی کٹھن، دشوارگزار، پیچیدہ، بلند اور طویل پہاڑی سلسلوں اور گھاٹیوں پر تعمیر کی گئی ہے۔قریباً اڑھائی ہزار سال قبل تعمیر ہونے والی 21,196 کلومیٹر طویل دیوار چین کی تعمیر کا آغاز چن شی ہوانگ کے دور حکومت میں ہوا جس نے چین کو (221-200) قبل مسیح میں متحد کر کے اپنی بادشاہت کا آغاز کیا۔ یہ دیوار بادشاہتوں (Dynesties) کے چھ مختلف ادوار میں تعمیر ہوتی رہی جس کا مقصد چین کی شمالی سرحدوں کو منگول اور دوسرے حملہ آوروں سے محفوظ بنانا تھا۔ دیوارِ چین کی تعمیر میں تقریباً 8 لاکھ لوگوں نے حصہ لیا جس میں سے 4 لاکھ لوگ تعمیراتی کام کے دوران مر گئے۔ ان میں سے بیشمار لوگوں کو دیوارِ چین میں ہی دفن کر دیا گیا۔ اس کی تعمیر میں تقریباً دو ہزار سال کا عرصہ لگا۔ دسمبر 1987ءمیں یونیسکو (Unesco) نے اسے عالمی ورثہ قرار دیا۔ دیوارِ چین نہایت دشوارگزار پہاڑوں، گھاٹیوں اور چوٹیوں پر سکائی لائن کے ساتھ ساتھ تعمیر کی گئی ہے۔ دیوار میں جگہ جگہ Beacon، ٹاورز، بیریئر، بیرکس، گیریژن سٹیشنز، قلعے بندیاں اور خندقیں مل کر ایک مضبوط دفاعی نظام کو تشکیل دیتے ہیں۔ یہ دیوارِ چین کی طاقت، اتحاد اور فخر کی علامت ہے۔ اس طویل دیوارِ چین کے کچھ حصے سیاحوں کے لئے کھولے گئے ہیں۔ اپنے میزبانوں کے ساتھ چیئر لفٹ کے ذریعے دیوارِ چین پر پہنچے تو حیرتوں کا ایک عالم وا ہو گیا۔ سخت چڑھائی پر ہانپتے ہوئے ایک چوکی (Post) کی چوٹی پر پہنچے تو یوں لگا جیسے ہم نے ماﺅنٹ ایورسٹ سر کر لی۔ ایک احساسِ تفاخر سب کے چہروں پر عیاں تھا غیر ملکی سیاحوں کے ساتھ ساتھ مقامی چینی سیاح ایک بڑی تعداد میں موجود تھے۔تا حدِ نگاہ پھیلی ہوئی یہ دیوار بنانا جان جوکھوں کا کام تھا۔ یقیناً یہ دیوار چینی قوم کی عظمت کی گواہی ہے۔ 
ا گلے روز سٹیٹ گرڈ کارپوریشن آف چائنا (State Grid Corporation of China) جسے عام طور پر State Grid کہا جاتا ہے، کا وزٹ تھا۔ یہ کارپوریشن ریاست کی ملکیت ہے۔ سنہ 2022 کے اعداد و شمار کے مطابق یہ دنیا کی سب سے بڑی یوٹیلٹی کمپنی ہے۔ سرمائے کے لحاظ سے یہ وال مارٹ (Walmart) اور ایمیزون (Amazon) کے بعد دنیا کی تیسری بڑی کمپنی ہے۔ یہ کمپنی دسمبر 2002 میں بیجنگ میں معرض وجود میں آئی۔ اس کا ہیڈ کوارٹر بھی بیجنگ میں ہے۔ اس کے ملازمین کی تعداد 15 لاکھ 66 ہزار ہے۔ چائنا الیکٹرک پاور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اس کا ذیلی ادارہ ہے۔ سٹیٹ گرڈ، پاور گرڈز کی تعمیر اور اس کو چلانے کی ذمہ دار ہے۔ محفوظ، صاف، کم خرچ اور Sustainable پاور سپلائی سٹیشن گرڈ کارپوریشن کا بنیادی ہدف ہے۔ 2021ءکے اعداد و شمار کے مطابق کمپنی کا منافع 7.1 بلین امریکی ڈالر تھا۔ 2021 میں کمپنی 461 بلین امریکی ڈالر کے سرمائے کے ساتھ پبلک انرجی کے شعبے میں دنیا بھر میں اول رہی۔ کمپنی شمالی چین، شمال مشرقی چین، مشرقی چین، وسطی چین اور شمال مغربی چین کو بجلی مہیا کرتی ہے۔ کمپنی نے پاکستان میں مٹیاری سے لاہور تک 660 کلوواٹ HVDC ٹرانسمیشن لائن کی تعمیر کی ہے جس پر اخراجات کا تخمینہ 1658.34 ملین امریکی ڈالر ہے۔ اس کے علاوہ 100 میگاواٹ کے تھری گارجز سیکنڈ اور تھرڈ ونڈو پاور پراجیکٹ کی تکمیل کا سہرا بھی اس کمپنی کے سر ہے۔ 720 میگاواٹ کا کروٹ (Karot) ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور 330 میگاواٹ کا حبکو (Hubco) تھرکول پاور پراجیکٹ کی تکمیل بھی اسی کمپنی کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کی انرجی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے سی پیک (CPEC) کے تحت پروگرام ہیں لیکن ان کی تفصیل کا یہ محل نہیں ہے۔ سٹیٹ گرڈ میں وفد کو ایک جامع بریفنگ دی گئی اور تمام پراجیکٹس کے بارے میں بتایا گیا۔ توقع ہے کہ ان پروگراموں اور پاکستان میں پراجیکٹس کی تکمیل سے پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری ہو سکیں گی۔ 
سٹیٹ گرڈ کے بعد وفد کو چائنا کنسٹرکشن تھرڈ انجینئرنگ بیورو (China State Construction International Engineering Corporation) کے ہیڈ کوارٹر لے جایا گیا جہاں کارپوریشن کے جنرل منیجر مسٹر XIAO HUA اور ان کے سٹاف نے وفد کا پرتپاک استقبال کیا۔ وفد کو کارپوریشن کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی گئی اور CPEC کے تحت کارپوریشن کے پاکستان میں ہونے والے پراجیکٹس کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا۔ چائنا کنسٹرکشن کارپوریشن نے سکھر سے ملتان 392 کلومیٹر موٹروے کی تعمیر کی ہے۔ اس سڑک کی تعمیر میں 100 پل، 468 انڈر پاسز، 991 پلیاں، 11 انٹرچینج، سڑک کے دونوں جانب 6, 6 سروس ایریاز، 5, 5 ریسٹ ایریاز اور 22 ٹول سٹیشنز شامل ہیں۔ موٹروے کی تعمیر کا معیار نہایت شاندار ہے اور اس میں سیلابی پانی سے محفوظ رہنے کی صلاحیت موجود ہے۔ سڑک کے ساتھ نہایت عمدہ شجرکاری کی گئی ہے جس کے ماحولیات پر اچھے اثرات مرتب ہونگے۔ کارپوریشن کے متعدد پراجیکٹس پاکستان میں زیرتعمیر ہیں۔ 
بریفنگ کے بعد وفد کو ظہرانے کے لئے ایک ریسٹورنٹ میں لے جایا گیا جہاں پہلے سے حلال کھانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ مسٹر XIAO HUA نے نہایت گرم جوشی اور محبت سے کھانے پر گفتگو کی۔ انہوں نے بتایا کہ سکھر۔ملتان موٹروے کی تعمیر ان کی نگرانی میں ہوئی جس کے دوران وہ ملتان میں قیام پذیر رہے اور ملتان کی شدید گرمی کو برداشت کرتے رہے۔ کھانے کے دوران انہوں نے پاک۔ چین دوستی کا Toast تجویز کیا اور پھر راقم کا جامِ صحت تجویز کیا۔ پاکستان کے لئے ان کی محبت ان کے ایک ایک عمل سے آشکار ہو رہی تھی۔ میرے لئے یہ سب کچھ نہایت خوشگوار تھا۔ میرا یقین پختہ تر ہوا جا رہا تھا کہ چین اور پاکستان کے عوام کی دوستی کی جڑیں بہت گہری ہیں اور آئرن برادر کے ساتھ یہ دوستی واقعی شہد سے میٹھی، ہمالہ سے بلنداور سمندروں سے گہری ہے۔ محبت کی زبان الفاظ کی محتاج نہیں ہوتی، یہ احساسات ہوتے ہیں جو صرف محسوس کئے جا سکتے ہیں، انہیں الفاظ کا جامہ پہنانا بھی مشکل ہوتا ہے۔ محبت کے یہ مظاہر ہمیں چین میں ہر جگہ نظر آئے۔ (جاری) 

ای پیپر دی نیشن