ایوان میں ہنگامہ آرائی جمہوریت، سیاسی جماعتوں کو بھی کمزور کریگی
قومی اسمبلی میں ’’ گھمسان کا رن ‘‘پڑا، بلاول بھٹو زرداری اور پیپلز پارٹی کے دیگر ارکان اپنی نشستوں پر بیٹھے پرسکون انداز میں ہنگامہ آرائی کا ’’نظارہ‘‘کرتے رہے۔ پارلیمانی تاریخ کی بد ترین ہنگامہ آرائی اوربد کلامی جمہوریت بلکہ سیاسی جماعتوں کو بھی کمزور کرے گی۔ ایوان کی دونوں بڑی جماعتوں کی طرف سے اس طرح کے طرزعمل سے عوام کو سیاسی عمل سے اعتماد بھی کم ہو گا، ایوان میں موجود وزراء کی طرف سے ارکان کو بار بار ہنگامہ آرائی کے لیے اکسانے سے بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ کسی ’’کسی سطح ‘‘پر ہنگامہ آرائی کے لیے پہلے سے منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کو مجبوراً ایوان خالی کروانے کیلئے لائٹیں بند کرنا پڑیں۔ حکومتی احتجاج میں سینئر وفاقی وزراء شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری، شیریں مزاری، غلام سرور خان، عمر ایوب، علی امین گنڈا پور و دیگر بھی شریک رہے اور مسلسل بجٹ دستاویزات کے ساتھ ڈیسک بجاتے رہے، اس دوران لیگی ارکان حکومتی ارکان کے احتجاج کرتے ہوئے کی ویڈیو بناتے رہے، اجلاس میں"ڈونکی راجہ"، "ٹریکٹر ٹرالی"، "چرسی ٹولہ"اور کوڈو کے چرچے رہے، اپوزیشن ارکان کے ڈونکی راجہ کی سرکار نہیں چلے گی کے جواب میں حکومتی ارکان کے ضرور چلے گی، ضرور چلے گی کے نعرے۔ لیگی ارکان کی طرف سے گالیاں بھی دی گئیں جس پر حکومت ارکان بھی کسی سے پیچھے نہ رہے۔