پنجاب بجٹ: عوام کو عملی طور پر ریلیف دینے کی ضرورت ہے
مالی سال 2021-22ء کے لیے صوبہ پنجاب کا 2653 ارب روپے کا ٹیکس فری بجٹ پیش کردیا گیا۔ رواں مالی سال کے بجٹ کی نسبت آئندہ سال کے بجٹ میں مجموعی طور پر تقریباً ساڑھے اٹھارہ فیصد اضافہ کیا گیا۔ آئندہ مالی سال میں ترقیاتی بجٹ کے لیے 560 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی جو رواں سال کے لیے مختص کردہ رقم سے تقریباً چھیاسٹھ فیصد زائد ہے۔ نئے بجٹ میں غیر ترقیاتی اخراجات کے لیے 1428 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے جو موجودہ بجٹ کے 1318 ارب روپے سے تقریباً آٹھ فیصد زیادہ ہے۔ کورونا وبا کی وجہ سے متاثر ہونے والے کاروباروں کے لیے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پچاس ارب روپے سے زائد کے ٹیکس ریلیف پیکج کا اعلان بھی کیا گیا۔ بجٹ میں صوبائی ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنز میں دس فیصد اضافہ بھی تجویز کیا گیا۔ یہ اضافہ حکومت کی طرف سے گریڈ ایک سے انیس تک کے سات لاکھ اکیس ہزار سے زائد ملازمین کو تنخواہوں میں دئیے جانے والے اس پچیس فیصد خصوصی الاؤنس کے علاوہ ہے جو حکومت نے انتظامی محکموں میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں سو سے ڈیڑھ سو فیصد الاؤنس دینے کی وجہ سے پیدا ہونے والے تفاوت کو کم کرنے کے لیے دینے کا اعلان کررکھا ہے۔ بجٹ میں کم از کم اجرت بیس ہزار روپے مقرر کی گئی۔
صوبائی وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت خان نے پنجاب اسمبلی میں بجٹ پیش کیا۔ نئے بجٹ میں ٹیکسوں کا ہدف 405 ارب مقرر کیا گیا جو رواں مالی سال کے مقابلے میں28 فیصد زیادہ ہے۔ مالی سال 2020-21ء میں صوبائی محصولات کا ہدف 317ارب روپے تھا تاہم صوبائی حکومت نے اس ہدف سے تقریباً تیرہ فیصد زائد ٹیکس جمع کیا جس کی رقم مجموعی طور پر 359 ارب روپے بنتی ہے۔ آئندہ مالی سال میں آرکیٹیکٹس، بیوٹی پارلرز، فیشن ڈیزائنرز، ہوم شیفس، لانڈریز، ڈرائی کلینرز، مشینری سپلائی، ویئر ہائوسز، کال سینٹرز اور رینٹل بلڈوزرزپر ٹیکس میں کمی تجویز کی گئی۔ مذکورہ پیشوں کے لیے ٹیکس کی شرح 16 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کردی گئی۔الیکٹرک گاڑیوں کی رجسٹریشن اور ٹوکن پر 50فیصد اور 75فیصد تک چھوٹ ہوگی جبکہ سستی اشیا کی فراہمی کے لیے بڑے شہروں میں ماڈل بازاروں کی تجویز بھی بجٹ میں پیش کی گئی۔ ماڈل بازاروں کی تعمیر کے لیے بجٹ میں ڈیڑھ ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے۔
تعلیمی بجٹ میں 13 فیصد اضافہ کرتے ہوئے آئندہ مالی سال میں تعلیم کے لیے 442 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ صحت کے لیے بجٹ میں مجموعی طورپر 369 ارب روپے رکھے گئے ہیں جو موجودہ بجٹ میں مختص کی جانے والی رقم کی نسبت تقریباً 30 فیصد زائد ہیں۔ صحت کے شعبے کے حوالے سے ایک خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ لاہور میں 14 ارب روپے کی لاگت سے ایک ہزار بستر کے اسپتال کی تعمیر شروع ہو گی جبکہ 14شہروں میں ساڑھے 3 ارب کے جدید ٹراما سینٹر قائم کیے جائیں گے۔ اس سلسلے میں حکومت کو پنجاب کے تمام شہروں پر یکساں توجہ دینی چاہیے تاکہ لوگوں کو علاج معالجے کی بہترین سہولیات ان کے اپنے شہروں میں ہی دستیاب ہوں اور انہیں کسی پریشانی یا ایمرجنسی کی صورت میں دور دراز کا سفر نہ کرنا پڑے۔ اس سے جہاں لوگوں کے لیے آسانی پیدا ہوگی وہیں بڑے شہروں میں موجود علاج معالجے کے مراکز کا بوجھ بھی کم ہوگا۔ حکومت کا ایک احسن اقدام یہ بھی ہے کہ نئے بجٹ میں جنوبی پنجاب کے لیے 189 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز رکھنے کی تجویز پیش کی گئی ہے اور ساتھ ہی دیہی معیشت کے لیے بھی تقریباً 197 روپے مختص کیے گئے ہیں جو موجودہ بجٹ میں دیہی معیشت کے لیے رکھی گئی رقم کی نسبت 57 فیصد زائد ہیں۔اسی طرح مالی سال 2021-22ء میں تعمیرات اور لوکل گورنمنٹ کے لیے بالترتیب 204ارب اور 162 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
پنجاب اسمبلی میں بھی بجٹ اجلاس کے دوران وہی ناخوشگوار صورتحال دیکھنے میں آئی جو قومی اسمبلی میں نظر آئی تھی۔ جیسے ہی ہاشم جواں بخت نے بجٹ تقریر شروع کی اپوزیشن نے پلے کارڈ اٹھا کر شدید احتجاج شروع کردیا اور بجٹ نامنظور کے نعرے لگائے۔ اس دوران حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے ارکان نے بجٹ کی کاپیاں بھی پھاڑ دیں تاہم ہاشم جواں بخت نے اپنی تقریر جاری رکھی۔ اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ارکان عام لوگ نہیں ہیں بلکہ وہ ہزاروں لاکھوں لوگوں کی نمائندگی کے لیے ان ایوانوں میں جاتے ہیں۔ انہیں نہ صرف اپنے مرتبے کا لحاظ کرنا چاہیے بلکہ ان ایوانوں کے تقدس کا بھی خیال کرنا چاہیے جہاں وہ عوامی نمائندگی کے لیے جاتے ہیں۔ بجٹ سے متعلق تحفظات اور اختلافات کا اظہار بھلے انداز میں بھی ہوسکتا ہے اور ایسا ہی ہونا بھی چاہیے۔ ہمارے ہاں ہر بجٹ کے موقع پر ایسا ہی ہوتا ہے کہ حکومتی ارکان بجٹ کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے اور اسے ہر لحاظ سے ایک مثالی بجٹ قرار دیتے ہیں جبکہ اپوزیشن ارکان اسے عوام دشمنی کا مظہر قرار دیتے ہوئے مسترد کردیتے ہیں لیکن اگلے دور میں جب اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ارکان حکومت کا حصہ بنتے ہیں اور حکومت میں شامل لوگ اپوزیشن بنچوں پر جا کر بیٹھے ہیں تو صورتحال اس کے بالکل برعکس ہو جاتی ہے۔
عام آدمی نہ تو بجٹ میں پیش کیے جانے والے اعداد و شمار کو سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی اسے ان سے کوئی سروکار ہوتا ہے، وہ تو بس یہ دیکھتا ہے کہ بازار سے وہ جو اشیائے ضروریہ روزمرہ استعمال کے لیے خرید کر لاتا ہے ان کی قیمتوں میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے یا نہیں، لہٰذا بجٹ میں حکومت کی طرف سے کیے جانے والے اعلانات اور دعوے اگر عملی شکل میں ڈھل کر لوگوں کو حقیقی ریلیف فراہم نہیں کرتے تو ان کا کوئی فائدہ نہیں۔ موجودہ حکومت کو اقتدار میں آئے تقریباً تین برس مکمل ہونے کو ہیں، سو اب حکومت کو محض اعلانات اور دعوے کرنے کی بجائے عوام کو حقیقی طور پر ریلیف دینا چاہیے تاکہ عام آدمی سکھ کا سانس لے سکے۔