سر راہے
پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت میں پہلا بجٹ پیش کیا گیا
اس عمارت کا افتتاح اس وقت کے وزیراعلیٰ پرویزالٰہی نے نہایت چائو سے کیا تھا مگر بعدازاں مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی تو یہ نئی عمارت بے توجہی کا شکار ہو گئی۔ دس برس یہ عمارت نامکمل رہی۔ بھوت بنگلہ بنی رہی۔ اگر تھوڑا بہت کام ہوا بھی تو وہ بھی کچھوے کی رفتار سے۔ حالات نے پھر پلٹا کھایا۔ تحریک انصاف کی حکومت آئی تو (ق) لیگ کی قسمت کا ستارہ پھر چمکا۔ اس بار پرویزالٰہی وزیراعلیٰ تو نہیں، البتہ پنجاب اسمبلی کے سپیکر ضرور بن گئے جنہوں نے اپنی اس زیرتعمیر اسمبلی کی بلڈنگ کا کام تیز کرایا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ خوبصورت عمارت آج ہمارے سامنے نئی نویلی دلہن کی طرح سجی سنوری کھڑی ہے۔
گزشتہ روز اس میں صوبائی بجٹ سیشن کا اجلاس ہوا جس میں وہی روایتی گہماگہمی دیکھنے میں آئی جو ہر بجٹ سیشن میں پیش ہوتی ہے۔ حکمران پارٹی اور اس کے اتحادی زندہ باد اور اپوزیشن جماعتیں مردہ باد، نامنظور کے نعرے لگا لگا کر اپنا گلا خشک کرتے دکھائی دیئے۔ پنجاب اسمبلی کی پرانی تاریخی عمارت کے عقب کہہ لیں یا پہلو میں بنی یہ عمارت خدا کرے جمہوریت اور عوام کیلئے خوش قسمت ثابت ہو۔ یہاں آنے والے باشعور اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں جو اسے مچھلی منڈی بنانے کی بجائے یہاں قانون سازی اور فلاحی حکومت چلانے کی ذمہ داری نبھائیں۔ گزشتہ روز کے اجلاس میں پرویزالٰہی نے اپوزیشن کے شور شرابے پر انہیں نہایت خوبصورت انداز میں انتباہ کیا کہ بھئی خیال رکھنا نیا گھر ہے۔ برتن نہ توڑ دینا۔ لازمی بات ہے اس پر سب کھل کر نہ سہی، زیرلب ضرور مسکرائے ہونگے۔ ایم پی ایز بھی انسان ہیں، انہوں نے بھی نئی عمارت میں خوب سیلفیاں لیں وہ بھی طرح طرح کے پوز بنا کر۔
٭٭٭٭٭
’’ارطغرل‘‘ کی بدولت کراچی کی لڑکیوں میں گھڑسواری مقبول ہونے لگی
اور کچھ ہو نہ ہو ترکی ڈرامہ ’’ارطغرل‘‘ کی وجہ سے ہمارے نوجوانوں میں بھی کچھ مثبت تبدیلیاں آرہی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے خاص طورپر یہ ڈرامہ اردو میں ڈب کرکے پی ٹی وی پر پیش کرنے کا جو حکم دیا، وہ شاید اسی وجہ سے تھا کہ نوجوان ویڈیوز، انٹرنیٹ، موبائل اور لایعنی مصروفیات سے باہر نکل آئیں۔ اب ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اسی طرح شاید وہ پی ٹی وی کو بھی زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ ورنہ اب پی ٹی وی کا شمار ’’کام کا نہ کاج کا‘ دشمن ’’سماج کا‘‘ والی صف میں ہوتا ہے۔ اب اس ترک ڈرامہ ’’ارطغرل‘‘ کے قسط وار آن ایئر ہونے کے بعد ہی پاکستان ٹیلیویژن ایک بار پھر مقبولیت کی معراج پر پہنچ گیا ہے۔ بے سروسامان والا یہ مسافر ایک بار پھر تجارتی قافلہ تشکیل دینے میں کامیاب نظر آتا ہے۔ اس ڈرامہ کو پورے ملک میں ذوق و شوق سے دیکھا جاتا ہے۔ بچے، بڑے، بوڑھے، جوان اور خواتین تک اس سے متاثر ہیں۔ بچے اب تیرکمان اور تلوار چلانے کی مشق کرتے نظر آتے ہیں تو جوان تیر، تلوار اور نیزے بازی کے ساتھ گھڑ سواری میں بھی دلچسپی لینے لگے ہیں۔ کراچی کے ساحل سمندر پر تو لڑکیاں بھی گھڑسواری سیکھ رہی ہیں۔ ان کو گھڑسواری کی تربیت دینے کیلئے کئی کلب بھی بن گئے ہیں جہاں لڑکیاں نہایت مہارت سے گھڑسواری کرتی نظر آتی ہیں۔ شکر ہے کم از کم اس طرح تو…؎
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طائوس ور باب آخر
والا علامہ اقبال کا فلسفہ ایک بار پھر حقیقت میں بدل رہا ہے۔
٭٭٭٭٭
ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے بیٹے کی سرعام اسلحہ کی نمائش
جب سرکاری اختیارات اور طاقت مل جائے تو قاسم سوری کا فرزند ہو یا کوئی اور وہ خود کو شیر شاہ سوری سمجھنے لگتا ہے۔ حالانکہ اب وہ دور گزر گیا اب شیر شاہ سوری ہو یا شہنشاہ جہانگیر سب کو قانون اور قاعدے کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ یہ مادر پدر آزادی کا دور نہیں حدود و قیود کی پابندی سب کے لیے ہے۔ اب سوشل میڈیا پر جو فوٹیج وائرل ہوئی ہے اس میں سوری صاحب کے صاحبزادے اپنی سرکاری گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھے خطرناک اسلحہ کی نمائش کر رہے ہیں۔ نوجوانوں میں بے شک یہ شوق عام ہے۔ مگر اب پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بارے میں خاصے حساس ہو گئے ہیں۔ کئی افراد کو ان حرکات پر پکڑا بھی جا چکا ہے۔ یہ تو عام شہریوں کی حالت ہے۔ مگر بااثر اور حکمران طبقات سے وابستہ لوگ اکثر بچ نکلتے ہیں۔ اب قاسم سوری کو چاہیے کہ وہ اپنے بیٹے کی سرزنش کرے۔ نوابی سرداری گھر اور قبیلے میں ہوتی ہے باہر سب کے حقوق یکساں ہیں۔ انہیں قانون کی عملداری سکھائی جائے۔ ورنہ لوگ کیا کہیں گے کہ غریبوں کے لیے الگ اور امیروں کے لیے الگ قانون ہے۔ سرکاری گاڑی میں ایسی حرکات ویسے بھی زیب نہیں دیتیں کیونکہ لوگ براہ راست اس پر سرکار کو لعن طعن کرتے ہیں۔ جوانی ویسے بھی دیوانی ہوتی ہے۔ اگر خدا نہ کرے کوئی اونچ نیچ ہو تو نوجوان یہی خطرناک اسلحہ استعمال بھی کر سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
مفت برگر نہ دینے پر ڈی ایچ اے میں ریسٹورنٹ کے 19 ملازمین گرفتار
مفت بری ایک ایسی عادت ہے کہ اس میں مبتلا افراد کو پھر اس کا ایسا چسکا لگ جاتا ہے کہ لاکھ کوشش کے باوجود ’’چھٹتی نہیں ہے منہ کو یہ کافر لگی ہوئی‘‘ سب نہیں مگر سب سے زیادہ یہ عادت پولیس والوں میں پائی جاتی ہے۔ خیر سے واپڈا والے بھی اس میدان میں کسی سے کم نہیں۔ آپ جو چاہے کر لیں انہوں نے باز نہیں آنا۔ مگر جو بات وردی والوں کی ہوتی ہے اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اب ڈی ایچ اے کے ایک اچھے خاصے ریسٹورنٹ میں گزشتہ روز جو وردی والوں نے کیا اس پہ سوائے مذمت کے اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ جہاں آنے والے پولیس اہلکاروں نے مفت برگر نہ دینے پر اس ریسٹورنٹ میں کام کرنے والے 19 ملازمین کو تھانہ بلا کر بند کر کے ان کی اچھی خاصی چھترول بھی کی۔ ویڈیو وائرل ہوئی تو آئی جی پنجاب نے فوری کارروائی کا حکم دیا۔ جس کے ایس ایچ او سمیت 9 پولیس والوں کو معطل کر دیا گیا ہے۔ مگر ایسا ہر واقعہ کے بعد ہوتا ہے۔ چند دن کی بیان بازی اور شور کے بعد معاملہ جب ٹھنڈا پڑتا ہے تو معطل پولیس اہلکار خاموشی سے بحال کر دئیے جاتے ہیں۔ اسی لیے ان کے حوصلے نہیں ٹوٹتے اور وہ ایسی کارروائیاں کرتے پھرتے ہیں کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ وردی والوں کے لیے ہمیشہ ہتھ ہولا رکھنے والا معاملہ رہتا ہے۔ اب ان بے چارے حوالات میں بند مار کھانے والے بے گناہ ملازمین کی داد رسی کون کرے گا۔
٭٭٭٭٭