گذشتہ روز نوائے وقت کے صفحہ اول پر خبر شائع ہوئی کہ بھارت نے جوڑ میلہ کی تقریبات میں شرکت کے لیے آنے والے سکھ یاتریوں کو روک لیا ہے۔ جوڑ میلہ کی تقریبات میں شرکت کے لیے پاکستان نے لگ بھگ دو سو افراد کو ویزے جاری کیے تھے۔ بھارت سے آنیوالے یاتریوں کے لیے حکومت پاکستان نے تمام انتظامات مکمل کر لیے تھے۔ سکھ یاتریوں کے لیے خصوصی ٹرین کا اہتمام بھی کیا گیا تھا جب یہ خصوصی ٹرین بھارت پہنچی تو بھارتی حکام نے ٹرین وصول کرنے سے انکار کرتے ہوئے سکھ یاتریوں کو پاکستان سفر کرنے سے روک دیا۔
ویزوں کے اجرا اور تمام تر انتظامات کو مکمل کیے جانے کے باوجود بھارتی حکومت کے اس منافقانہ رویے اور مذہبی تعصب سے بھرے فیصلے نے دونوں ممالک میں بسنے والے سکھوں کے جذبات کو سخت ٹھیس پہنچائی ہے۔ گورو ارجن دیو کے شہیدی دن(جوڑ میلہ) کی تقریبات میں شرکت کے لیے پاکستان سفر کرنے والے سکھ یاتریوں کے لیے حکومت پاکستان نے سیکیورٹی سمیت تمام ضروری انتظامات کر رکھے تھے۔ دونوں طرف کے ریلوے سٹیشنوں پر مودی مردہ باد کے نعرے بھی لگائے گئے ہیں۔ بھارتی حکومت کے اس فیصلے نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا ہے کہ ہمسایہ ملک تعلقات میں بہتری کے لیے کتنا سنجیدہ ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ بھارتی حکومت نے عین وقت پر اپنے شہریوں کو پاکستان سفر سے روکا ہے ماضی میں بھی ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ پاکستان سے بھارت جانے والوں اور سرحد پار سے یہاں آنے والوں کے لیے حالات کبھی سازگار نہیں رہے البتہ نریندر مودی کی حکومت میں ایسے سخت رویے میں خاصی شدت آئی ہے۔ نریندر مودی کے پاکستان مخالف اقدامات سے انکی پالیسی واضح ہو جاتی ہے کہ وہ ہمارے ساتھ دوستی نہیں رکھنا چاہتے، تعلقات میں بہتری نہیں چاہتے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ تعلقات میں بہتری چاہتے ہیں، دوستی چاہتے ہیں لیکن اپنی شرائط پر، کیا پاکستان وہ شرائط پوری کر سکتا ہے۔
قارئین کرام ان شرائط کے بارے آپکو بتائیں گے لیکن اس سے پہلے ہم دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کی سوچ، فکر، اقدامات اور فیصلوں پر روشنی ڈالتے ہیں تاکہ آپکو سمجھنے میں بھی آسانی رہے کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ عمران خان کی حکومت ماضی کی حکومتوں سے کیسے مختلف ہے اور بھارت ہم سے کیا چاہتا ہے۔
پاکستان اور بھارت میں دو مختلف طرز فکر، طرز عمل رکھنے والے افراد کی حکومت ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان حقیقی معنوں میں امن پسند اور خطے میں اس کے فروغ کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ بھارت کی طرف سے تمام تر مخالفت اور پاکستان دشمن کارروائیوں کے باوجود عمران خان نے کئی مرتبہ دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے لیکن نریندر مودی کی طرف سے کبھی مثبت جواب نہیں آیا۔ دوسری طرف بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی ہیں جو کہ بین الاقوامی سطح پر تصدیق شدہ دہشت گرد مانے جاتے ہیں۔وہ ہزاروں بھارتی مسلمانوں کے قاتل ہیں، وہ خود ایک بڑے انتہا پسند سمجھے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے دور میں ایک خاص مذہب کے علاوہ بھارت میں بسنے والے دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو بہت مشکل حالات کا سامنا ہے۔ نریندر مودی کی سوچ، طرز عمل، طرز حکومت اور رہن سہن انتہا پسندوں والا ہے ان کے دور میں جنونیت کو فروغ ملا ہے۔ ایسے اقدامات کرنے والے شخص سے امن کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔ یوں دونوں وزرائے اعظم میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایک محبت، امن اور دوستی کا پیامبر ہے تو دوسرا جنگ، تشدد، فساد اور لڑائی جھگڑے کے فلسفے کو آگے بڑھانے والا ہے۔ اس صورتحال میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا معمول پر آنا مشکل ہے۔ بلکہ اس حوالے سے کسی بھی مثبت قدم کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے عہدہ سنبھالنے سے پہلے اور بعد میں کئی مرتبہ بھارت کو مذاکرات کی دعوت دی لیکن ہمسایہ ملک کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بات آگے نہیں بڑھ سکی۔
قارئین کرام مسئلہ کیا ہے کہ نریندر مودی کی حکومت عمران خان کے ساتھ مذاکرات کیوں نہیں کرنا چاہتی، جبکہ ماضی کے حکمرانوں میں بھارت کی دلچسپی کیوں تھی۔ اس کا جواب انتہائی سادہ ہے کہ عمران خان قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے، ان کے بھارت میں کسی قسم کے کاروباری مفادات نہیں ہیں، بھارت کی اہم شخصیات کے ساتھ انکا کوئی کاروباری مفاد وابستہ نہیں ہے۔ عمران خان کے لیے سب سے اہم پاکستان کی عزت اور وقار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں کوئی لالچ نہیں دیا جا سکتا۔ وہ کسی صورت ملک و قوم کے وقار پر سمجھوتا نہیں کریں گے جب کہ ماضی کے حکمرانوں کے بھارت میں کاروباری مفادات تھے،وہ بھارتی حکومت کے نظریے کو کبھی واضح اور کبھی گول مول تسلیم کر لیتے تھے جب کہ عمران خان ایسا نہیں کرتے نہ ان سے کوئی یہ توقع کر سکتا ہے یہی وجہ ہے بھارت ان کے ساتھ گفتگو کا آغاز نہیں کر رہا کیونکہ مذاکرات کی آڑ میں بھارت کو کچھ ملنے کا امکان نہیں ہے۔
کیا ان حالات میں ہمیں بھارت سے مذاکرات کرنے چاہییں اسکا فیصلہ ہم اپنے قارئین پر چھوڑ دیتے ہیں لیکن پڑھنے والوں کو یہ بتاتے چلیں کہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی اس موضوع کا سب سے اہم حصہ ابھی باقی ہے۔ ہم نے شروع میں بھارت کی شرائط کی بات کی تھی آئیے اب ان شرائط پر روشنی ڈالتے ہیں۔
بین الاقوامی دنیا میں بھارت کا موقف ہے کہ افواج پاکستان بھارت میں ہونے والے نقص امن کے واقعات میں شریک ہے، بھارت اپنی سرزمین پر ہونے والی دہشت گردی کا ذمہ دار بھی پاکستان کو قرار دیتا ہے۔ بھارتی حکومت کا نشانہ ہماری خفیہ ایجنسیاں ہیں۔ بھارت انہیں وقتاً فوقتاً نشانہ بھی بناتا رہتا ہے۔ بدقسمتی سے ماضی کے حکمرانوں نے اپنی حیثیت کے مطابق بھارت کے اس بیانیے کو غیر محسوس انداز میں سپورٹ کیا ہے بلکہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے اس حوالے سے واضح بیانات ہیں۔ جس میں نواز شریف بھارتی سر زمین پر ہونے والی دہشت گردی کے بیانیے میں ہمسایہ ملک کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔
اب پاکستان نے کے پاس دو ہی راستے ہیں یا تو بھارت کے تمام الزامات کو تسلیم کرے اور قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اس کی مرضی کے مطابق دہشت گردی کے تمام کیسوں پر کارروائی کرے اور بے گناہ پاکستانیوں کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دے یا پھر اپنے موقف پرقائم رہے اور ہر وقت جنگ کی کیفیت قائم رہے۔ بھارتی خواہش کے مطابق دہشت گردی کے ناکردہ گناہ اپنے کھاتے میں ڈال لے اور دنیا کے سامنے تسلیم کر لے کہ ہم دہشت گرد ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے، عمران خان کی حکومت میں ایسا ممکن نہیں سو بات چیت بھی نہیں ہو سکتی۔ مودی کے یاروں کے دور حکومت میں کچھ بھی ممکن تھا لیکن اب وہ قیادت نہیں ہے لہذا مودی کی کوئی دلچسپی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مزید ناکامیوں سے بچنے کے لیے مودی سرکار ہر وقت مذاکرات سے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔
اب اس کہانی کا سب سے اہم حصہ آپکے سامنے رکھتے ہیں۔ بھارت نے ہمیشہ پاکستان پر الزامات لگائے ہیں کبھی کوئی ثبوت نہیں دیا، کبھی کسی واقعے کی ایمانداری سے تفتیش نہیں کی بلکہ ہر ناخوشگوار واقعے کے بعد بغیر سوچے سمجھے اور بغیر ثبوتوں کے پاکستان پر الزام تراشیاں شروع ہو جاتی ہیں اور یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوا۔ بھارت ہمیں کبھی ثبوت نہیں دے سکا لیکن ہم نے انکا جاسوس اور دہشت گرد کلبھوشن یادیو گرفتار کر رکھا ہے اور ثبوت و شواہد دنیا کے سامنے بھی رکھ دیے۔ اس کے باوجود بھارت اپنی منفی کارروائیوں کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ ان حالات میں یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں رہا کہ کون دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے، کون دہشت گردوں کو وسائل فراہم کرتا ہے اور کون جنگ کی تیاریاں کر رہا ہے۔یقینا اس معیار پر بھارت ہی پورا اترتا ہے۔دنیا دیکھ لے سکھ یاتریوں کو کون روک رہا ہے، دنیا دیکھ لے کھلاڑیوں کا راستہ کون روکتا ہے، دنیا دیکھ لے کہ اصل دہشت گرد اور انکا حمایتی کون ہے۔ کاش کہ دنیا انصاف کرے، کاش دنیا بھارت کے اس منفی کردار کی مذمت کرے۔ عالمی طاقتیں کب تک بھارت کا ساتھ دے کر اسکی دہشت گردی کو نظر انداز کرتی رہیں گی۔ کیا عالمی طاقتیں نہیں جانتی کہ طاقت کا توازن خراب ہونے اور بھارت کو مسلسل نظر انداز کیے جانے سے دنیا کے امن کو بھی خطرہ ہے۔ محفوظ اور مستحکم پاکستان ہی دنیا کے امن کی ضمانت ہے۔ عالمی طاقتیں اس حقیقت سے واقف ہیں لیکن پھر بھی چھوٹے چھوٹے مفادات کے لیے کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔ امید ہے کہ عالمی امن کے لیے عالمی طاقتیں اپنا رویہ اور سوچ بدلیں گی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024