یہ سفر انہوںنے بڑی تیزی سے طے کر لیا۔میرے مرشد مجید نظامی انہیں کوچہ صحافت میں لائے اور ان کے سایہ میں رازی صاحب کی صحافت پروان چڑھی۔
ابھی پرسوں جمعرات کی ڈھلتی شام کو جب ایک صوبائی اہل کار ذیشان رانجھا کے دفتر کے باہر مجھے خواری کا سامنا کرنا پڑا تو مجھے اس ابتلا سے نجات پانے کے لئے فوری طور پر رحمت علی رازی یادآئے۔ وہ سرکاری افسروں کی ہیچی بیچی تک جانتے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ جو شخص آپ کی چٹ کااحترام نہیں کرر ہا، اس پر میرے فون کا کیاا ثر ہو گا۔ آپ اپنے کسی رپورٹر سے کہیںکہ و ہ مجھے ڈی سی لاہور کا نمبر دے۔ پھر دیکھیں یہ شخص آپ کو کیسے باہر بٹھائے رکھتا ہے۔ بہر حال بہت تھوڑا وقت گزرنے پر اے سی ماڈل ٹائون لاہور نے مجھے اندر بلا لیا۔ باقی کی کہانی میں ہفتے کے روز شائع ہونے والے کالم میں بیان کر چکا ہوں۔
اسی گزرنے والے ہفتے میں میںنے خود رازی صاحب کو فون کیا اور کہا کہ میںنے کسی اخبار میں آپ کا ادھورا کالم دیکھا ہے۔ آپ ایسے اخبار کو کالم کیوں بھیجتے ہیں جو اسے ایک قسط میں شائع نہیں کر سکتا۔ یہ حرکت رازی صاحب کے ساتھ کئی اخبارات نے کی۔انہیں اپنی عزت نفس کا بے حد خیال تھا۔ اس لئے وہ دوبارہ ا س اخبار سے رجوع نہیں کرتے تھے۔
مجھے ہفتے کی صبح ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے ٹیلی فون کر کے جگایا۔ وہ بتا رہے تھے کہ رات کو وہ فیصل آباد میں ایک شادی میں اکٹھے تھے اور رازی صاحب معمول کے مطابق خوشگوار موڈ میں تھے مگر گھر پہنچنے پر وہ اللہ کے ہاں پہنچ گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ ان کی نما زجنازہ اتوار کو ڈیڑھ بجے ان کے گھر ۳۷۱۔ آر بلاک ماڈل ٹائون میں ادا کی جائے گی۔
ایک طویل سفر کا ایک ایک لمحہ میری آنکھوں کے سامنے گھوم گیا ہے۔ انہوں نے نوائے وقت سے اپنی صحافت کاا ٓغاز کیا۔ اور وہ بھی ایک بہت ہی جونیئر رپورٹر کے طور پر اور ان سے وہی سلوک کیا جاتا جو اخبارات میں جونئیر ساتھیوں سے روا رکھا جاتاہے۔ میں ادارے کا ڈپٹی ایڈیٹر تھا۔ ہر چند رو ز بعد وہ اپنی شکایات کا دفتر بیان کرتے، میں ان سے کہتا کہ فوج میں ایک رنگروٹ کو بھی اسی عمل سے گزرنا پڑتا ہے اور پھر ایک اچھی مثال بھی دیتا کہ رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ گھس جانے کے بعد۔ مگر وہ روہانسے سے ہو کر کہتے کہ انہیں کسی اچھے سیاسی فنکشن میں نہیں بھیجا جاتا۔ ہمیشہ نیشنل سنٹر کے مذاکروں میں ڈیوٹی لگائی جاتی ہے۔ جہاں ایک تو وقت پر اجلاس شروع نہیں ہوتا اور پھر کم از کم پندرہ بیس مقرر بھگتنے پڑتے۔ وہ ان کی مفصل خبر دیتے ہیں مگر نیوز روم چند سطریں شائع کرتا ہے۔ اخباری اداروں کی اندرونی فنکشننگ کی جو خرابیاں ہیں ، وہ یہاں بیان نہیں کروں گا مگر اسی نیوز روم کی روزانہ کی بد سلوکی کے باوجود رحمت علی رازی کو ہر سال بہترین تفتیشی رپورٹر کاایوراڈ ملنے لگا۔ صدارتی تمغہ حسن کار کردگی سے لے کر دیگر اعلی ترین سول اعزازات انہیں عطا کئے گئے اور وہ بام صحافت پر اپنی صلاحیتوں کی کرنیں بکھیرتے رہے۔
رازی صاحب کی کالم نگاری کی ابتدا بھی میری ادارت کے دور میں ہوئی۔ میرے ایک ساتھی ان کی کالم نگاری کے شدید مخالف تھے مگر میںنے اپنے اختیارات استعمال کئے اور ان کے کالم ہفتہ وار باقاعدگی سے چھپنے لگے۔یہ کالم در اصل ان کی رپورٹنگ ہی کی ایک شکل تھے۔ ان میں حقائق کی رپورٹنگ کی جاتی۔ اصولی طور پر انہیں نیوز کے صفحات پر ہی ایک خبر کے طور پر چھپنا چاہئے تھا مگر میںنے سوچا کہ اردو کالم نگاری میں کیوں نہ ایک اور تجربہ کیا جائے۔ یہ تجربہ کامیاب رہا اور اب ہر کسی کو ان کے ہفتہ وار کالم کا انتظار رہتا کیونکہ یہ نئی سے نئی معلومات سے لبریز ہوتا تھا اور ان کے لکھے کی کبھی تردید یا وضاحت کی نوبت نہیں آئی۔
یہ موقع رازی صاحب کے صحافتی معرکوں کی تفصیل میں جانے کا نہیں ہے۔ اس وقت ہم انہیں اچھے الفاظ میں یاد کر رہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ بیورو کریسی کے معاملات میں ان کی مہارت کا کوئی اور صحافی مقابلہ نہیں کر سکا۔ مجھے چند روز قبل ڈاکٹر محمود شوکت نے بتایا تھا کہ ایک وقت ڈاکٹر محمود چودھری اور صوبائی انتظامیہ نے ان کا ناطقہ بند کرنے کی کوشش کی تو اس مصیبت کے وقت رحمت علی رازی ان کے بہت کام آئے۔ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں کارگل پر میرے کالموں کی وجہ سے مجھ پر سرکاری غنڈوںنے حملہ کیا ا ور میرا گھٹناتوڑ ڈالا تو رازی صاحب مسلسل تین ماہ تک میرے گھر کچھ وقت کے لئے آتے رہے تاکہ میں اپنے آپ کو تنہا محسوس نہ کروں۔ ان کی کس کس نیکی کا ذکر کیا جائے۔
رازی صاحب ایک پس ماندہ علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ نوائے وقت میں آئے تو انتہائی غربت کا شکار نظر آتے تھے مگر وفات تک وہ ایک بڑے صحافتی ادارے کے مالک بنے ۔ ان چالیس برسوں میں وہ اسی مکان میں رہائش پذیر رہے جہاں انہوںنے وفات پائی اور جہاں سے ان کا جنازہ اٹھے گا۔ اسی پانچ مرلہ مکان سے ان کی والدہ محترمہ کا جنازہ بھی اٹھا تھاا ور اس میں گورنرخالد مقبول نے بھی شرکت کی تھی۔ صحافی برادری تو بہت بڑی تعداد میں تھی۔ میںنے اوپر لکھا ہے کہ رازی صاحب نے کبھی عزت نفس پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ ایک وقار کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہے۔بڑے بڑے لوگ بھی ان سے ملنے کی خواہش کرتے تو انہیں ان کے گھر ہی جانا پڑتا جو اتفاق ہسپتال کے پیچھے تنگ سی گلیوں میں واقع ہے۔ چیف سیکرٹری تک ان کے سامنے ہاتھ باندھے بیٹھا کرتے تھے۔ رازی صاحب مہمان نواز بھی تھے اورا سی گھر کے ڈرائنگ روم میں دوستوں کو بلاتے اور ان کی خاطرتواضع میںکوئی کسر نہ رہنے دیتے۔ انہیں اگر اپنی عزت کا بہت خیال تھا تودوسروں کی عزت میں بھی کوئی کمی نہ رہنے دیتے۔وہ اخباری اداروں کی سیاست میں سرگرم ہوئے تو یہاں بھی نام کمایا۔ اور خاص طور پر چھوٹے اور علاقائی اخبارات و جرائد کے مسائل کے حق میں آواز اٹھائی۔
ہر شخص کے ساتھ انہوںنے رشتہ نبھایا۔ میرے چھوٹے بھائی رضا اللہ طالب فوت ہوئے تو وہ خود بھی ان کے جنازے میں فتوحی والہ پہنچے ا ور گاڑی میں چند
دیگر ساتھیوں کو بھی لے گئے۔میں کالم نویسوں اور سینیئر صحافیوں کو فتوحی والہ بارڈرپر پرچم اتارنے کی تقریب کے لئے مدعو کیا کرتاتھا ۔ رازی صاحب نے ہمیشہ میری دعوت قبول کی اور جاوید اقبال کارٹونسٹ اور حمید احمد سیٹھی کو بھی مدعو کرنے پر اصرار کیا۔ ایسی ہی ایک تقریب میں ان کے صاحبزادے اویس رازی بھی ساتھ گئے۔، وہ بہت چھوٹی عمر کے تھے۔ اس دورے کی تصاویر انٹر نیٹ پر آج بھی محفوظ ہیں۔ اللہ رحمت علی رازی کو جوار رحمت میں جگہ دے کہ وہ لوگوں کے دکھ درد کے ساتھی تھے اور اویس رازی سمیت ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل اور حوصلہ عطا کرے ۔ آمین۔ عام طور پر مرحومین کے بارے میں آخری فقرہ رسمی طور پر لکھا جاتا ہے مگر جب میں یہ لکھ رہوں کہ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا تو یہ یقین جانئے ایسا آزاد مرد میںنے صحافت میں کم دیکھا ہے۔ وہ کسی چوکٹھ پر نہیں جھکے۔ اپنی دنیا آپ پیدا کی اور ایک ایسا ادارہ کھڑا کیا جسے میںنے پہلی بار دیکھا تو میری آنکھیں اس کی چمک دمک ،سلیقے، صفائی اور حسن ا نتظام سے چندھیا کر رہ گئی تھیں۔غریبی میں نام پیدا کر ، ایک اور رسمی جملہ ہے مگررازی صاحب نے اس کو بھی حقیقت کا روپ دیا۔
اب میں رازی صاحب کاا ٓخری دیدار کروں گا تو چپکے سے اپنے ہونٹ ان کے کانوں تک لے جا کر کہوں گا کہ آپ نے ایک افسر سے مجھے ملا تو دیا مگر اب ان سے میرا کام کون کرائے گا۔ اور یہ میرا اکیلے کا کام نہیں پنجاب کے ہر کسان کا کام ہے جن کے خلاف ڈنڈہ گردی کی جا رہی ہے۔ ایسی افسر شاہی سے نبٹنے کا ہنر صرف رازی صاحب ہی جانتے تھے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024